انسان اپنی کئی ساری صلاحیتوں کی وجہ سے تمام مخلوق میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے ۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے پاس غور و فکر کرنے کی صلاحیت ہے، جس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنے معمولات زندگی کو انجام دیتا ہے، بلکہ یہ روز افزوں ترقی بھی اسی کے مرہون منت ہے۔ ان ہی کے ذریعے وہ تجدید کاری کرتا ہے اور اپنی غلطیوں کو درست کرتا ہے۔ سوچنا انسانی ذہن کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے، یہ صفت ہر انسانی ذہن کو عطا کی گئی ہے، ہم شعوری و لاشعوری دونوں طور سے ہی سیکھتے ہیں، یہ ہمیشہ جاری رہنے والا عمل ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک عام انسان کے ذہن میں ایک دن میں ساٹھ ہزار سے زیادہ سوچیں پیدا ہوتی ہیں۔
جب ایک انسان کوئی چیز دیکھتا ہے، سنتا ہے، یا سونگھتا ہے، تو اس کے حواس سے متعلقہ معلومات دماغ کے مخصوص حصوں میں پہنچتی ہیں۔ پھر دماغ کے مختلف حصے مل کر اس معلومات پر کارروائی کرتے ہیں اور اسے یادداشت میں محفوظ کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں سوچتا ہے، تو دماغ یادداشت سے متعلقہ معلومات کو شعوری حصے میں لاتا ہے اور اسے ایک ساتھ جوڑتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں سوچیں پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی ذہن میں سوچ ایک پیچیدہ عمل ہے، جو دماغ کے مختلف حصوں میں ہونے والی برقی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق سوچیں پیدا ہونے کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ دماغ کے نیورونز ایک دوسرے کے ساتھ سگنلز بھیجتے ہیں۔
انسانی ذہن میں سوچوں کا ہونا بالکل فطری ہے، لیکن اگر ذہن ہمہ وقت سوچوں کے گرداب میں الجھا رہے، یکے بعد دیگرے پیدا ہونے والی سوچیں ذہن کو تھکانا شروع کر دیتی ہیں، جسے عام زبان میں اوور تھنکنگ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ایک شخص کسی بھی واقعےیا بات کے متعلق مسلسل سوچتا رہتا ہے، عام طور سے وہ سوچیں منفی ہوتی ہیں۔ یہ کیفیت ذہنی تناؤ، اضطراب اور ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت سب سے پہلے تو ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اوور تھنکنگ کی عادت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اس بارے میں مشہور ماہر نفسیات البرٹ الیس کا کہنا ہے کہ اوور تھنکنگ غیر منطقی سوچ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جس سے انسان حقیقت پسندانہ طور پر سوچنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔اوور تھنکنگ کے حوالے سے وکٹر فرینکل نے کہا ہے کہ اوور تھنکنگ زندگی میں معنویت اور مقصد کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
بےشک یہ سچ ہے کہ جب ہم عقل سے سوچتے ہیں اور اسے مقصد سے جوڑے رکھتے ہیں تو ہماری سوچیں مثبت اور تعمیری ہوتی ہیں۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ اوور تھنکنگ نامی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، اس کی وجہ عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے دماغی میکنزم کے کام کرنے کے طریقوں سے واقف نہیں ہوتے، ایک خاص سچویشن اور کیفیت میں ہم کسی بھی چیز کے متعلق دن رات سوچتے رہتے ہیں، اگر یہ سوچیں کئی ہفتوں تک تسلسل کے ساتھ باقی رہیں تو غیر محسوس طریقے سے یہ ہماری عادت بن جاتی ہیں۔ اس وجہ سے سوچوں کا فطری توازن خراب ہو جاتا ہے، چاہتے نہ چاہتے ہوئے ہمارا ذہن مستقل سوچوں سے گھرا ہوتا ہے، انسانی جسم کے کسی بھی عضو پر اگر اس کی Capacity سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو اس میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جس کے اثرات اس عضو کے ساتھ جسم کے دوسرے اعضا ءپر بھی پڑتے ہیں، چوں کہ سوچنے کا تعلق ذہن سے ہے تو ایسے میں کئی طرح کے ذہنی عوارض پنپنا شروع ہو جاتے ہیں،جو رفتہ رفتہ انسان کی انرجی کو گھن لگا دیتےہیں۔
ماہرین کے مطابق اوور تھنکنگ جینیاتی طور پربھی انسان کے اندر منتقل ہوتی ہے، اگر خاندان کے دیگر افراد میں یہ عادت چلی آرہی ہو یا ارد گرد کےلوگ اوور تھنکنگ میں مبتلا ہوں تو ہم بھی لاشعوری طور پر اس کو اپنا لیتے ہیں، اور کبھی کبھی والدین اور لوگوں کی طرف سے ہونے والی مسلسل تنقیدیں یا کسی اور طرح کے بیرونی دباؤ کی وجہ سے بھی اوور تھنکنگ کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔
تحقیق سے اوور تھنکنگ کے کئی سارے نقصانات سامنے آ چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بہت زیاد سوچنے سے ڈپریشن کا خدشہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ہماری نیند بھی متاثر ہوتی ہے ،بعض اوقات سونے کے لئے مسکن ادویات لینے کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔
زیادہ سوچ بچار (Ruminating) اور پریشان کن خیالات دراصل سوچ کا ایک ایسا سلسلہ ہوتا ہے، جس میں منفی خیالات حاوی ہوتے ہیں اور انسان کسی معاملے کے صرف برے پہلوؤں پر ہی بے جا غور و فکر کرنا شروع کر دیتا ہے، حالاں کہ ابھی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہوتا۔
ضرورت سے زیادہ سوچنے والے افراد دراصل واہموں کے غلبے میں آ جاتے ہیں۔ کوئی چھوٹی سی بات یا سوچ انھیںانتہائی حدود پر لے جا سکتی ہے۔ کسی واقعے کو اگر خیالی طور پر طول دیتے ہوئے صرف تصورات میں اس سے نتائج اخذ کرنا شروع کر دیا جائے، تو انسان کی معمول کی زندگی تباہ ہو سکتی ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ ایک چھوٹے واقعے کو دیکھ کر اس کے پس منظر اور نتائج کے حوالے سے بہت کچھ فرض کر لینے کے عادی ہوتے ہیں ،وہ معاملات و واقعات پہ تحقیق و تجزیہ کرنے کے بجائے خود اپنے طور سے سب کچھ اخذ کر لیتے ہیں ،جب کہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اکثر ہم جیسا سوچتے ہیں حقائق اس کے برعکس نکلتے ہیں، لیکن اوور تھنکنگ کی وجہ سے ہم تصور میں ہی اسے سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔
سوچنا بےشک انسانی دماغ کا بنیادی کام ہے، لیکن اگر کسی کام کو اصول و تقاضےسے مبرا کر کے انجام دیا جائے تو اس کے نتائج کا تشویش ناک ہونا فطری ہے ۔کسی بھی واقعے یا معاملے سے متعلق حقیقت پسندانہ انداز میں سوچنے سے ہم اس معاملے کو زیادہ بہتر طور پر حل کر سکتے ہیں یا سمجھ سکتے ہیں،لیکن جب ہم مخصوص انداز میں رائے قائم کر کے اس سوچ میں خود کو محبوس کر لیتے ہیں تو مسائل یہیں سے پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس طرح ہم کسی کام کو بہتر سے بہتر انداز میں کرنا سیکھتے ہیں اور غلطی ہونے کی صورت میں اسے قبول کر کے اسے درست کرتے ہیں، اور حسب منشاء نتائج کے ملنے تک مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں، بالکل اسی طرح ہمیں اپنی سوچوں کو ٹرینڈ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کسی خاص سچویشن اور معاملے میں معمول سے زیادہ سوچنا کچھ غلط نہیں ،لیکن یہ کوشش کرنی چاہیےکہ جیسے ہی وہ معاملہ حل ہو ،ذہن کو اس کی سابقہ روش پر لے آیا جائے، انسانی ذہن کو شعور کے ساتھ رہ نمائی کرنی پڑتی ہے۔ جب ہم اپنی ہر عادت کو اپنی مجبوری اور کم زوری بنا کر پیش کرتے ہیں اور اپنی شعوری کوششوں کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں، تو یہیں سے ہم جسمانی اور ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہونا شروع ہو جاتے ہیں، اس لیے اگر اوور تھنکنگ سے نجات چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں اپنے اوپر اپنی شعوری گرفت کو بہتر اور مستحکم کرنا ہوگا، اپنی کمیوں اور غلطیوں کو قبول کرتے ہوئے اس کے بہتر کرنے کی ذمہ داری کو صد فی صد قبول کرنا ہوگا۔
ہم یہاں ان اصولوں کے بارے میں بات کریں گے ،جن کو فالو کر کے اوور تھنکنگ جیسی اذیت ناک عادت کو ترک کیا جا سکتا ہے۔جرمن شہر بون کے سائیکوتھراپیسٹ روبین برگر کے بقول:
’’ کئی ایسے اقدامات ہیں، جن کی مدد سے کوئی بھی شخص غیر ضروری سوچ بچار اور بےجا پریشان رہنے کی عادت پر قابو پا سکتا ہے۔اس کاایک اہم طریقہ یہ ہے کہ جب کسی پر یہ کیفیت طاری ہو تو وہ بآواز بلند کہے ’اسٹاپ! ایسا نہیں ہے۔‘
یہ طریقہ اس وقت زیادہ مؤثر ہوتا ہے جب اونچی آواز میں کہا جائے ’اسٹاپ! یہ حقیقت نہیں ہے۔ ‘اسٹاپ کہہ کر ہم خود کو یاددہانی کرواتے ہیں کہ نہیں یہ مناسب نہیں ،ہمیں ایسا نہیں سوچنا ،اور یہ کہہ کر ہم اس پریشان کن خیال کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتے ہیں اور بار بار یہ عمل کرنے سے انسانی ذہن سوچنے کی عادت کو یا پھر پریشان کن سوچوں کو کم کرنے لگتا ہے۔
اوور تھنکنگ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیں کہ اب سے پہلے جن جن چیزوں کے لیےہم پریشان ہوئے ہیں ،کیا وہ سچ ثابت ہوئی تھیں ؟اگر نہیں تو پھر ان سوچوں کو کیوں اہمیت دی جائے؟ اور اگر بالفرض ایسا کچھ ہوتا بھی ہے تو پریشان ہونے کے بجائے اس سے بچنے کی تدبیر کر لیں یا پھر یہ کہیں کہ جب ہوگا تو پھر دیکھا جائے گا۔ہر لمحہ اس اذیت میں جینے سے بہتر ہے کہ تھوڑی دیر اس خوف سے نکل کر سکون کا سانس لیں۔ شاید ذہن فریش ہو کر ایک مؤثر حل کی طرف اشارہ کر دے، اس لیے خیالات کو محض خیالات کے دائرے میں نہ رکھیں اور نہ ہی اس کے متعلق سوچ سوچ کر قبل از وقت خود کو ادھ موا کریں۔
اوور تھنکنگ کا ایک ردھم ہوتا ہے ،کوشش کیجیے کہ جب خیالات کا غلبہ طاری ہو تو اپنی توجہ اس طرف سے ہٹانے کی تدبیر کریں ،جیسے کچھ جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیں ،جس میں سوچنے کی ضرورت زیادہ نہ ہو، بار بار اس طرف جاتے ذہن کو ہٹا کر کھیل یا اس سرگرمی کی طرف لانے کی کوشش کریں، اس طرح ذہن کو انگیج ہونے کے لیے دوسری جگہ مل جاتی ہے اور وہ اس طرف چلا جاتا ہے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق انسانی ذہن بہ یک وقت کئی جگہوں پہ متوجہ نہیں ہو سکتا ،اس لیے ذہن کو اپنی مرضی کی جگہ پر فوکس کرنے کی تربیت دیں۔
خوش رہنے کی کوشش بھی اس مسئلے کے حل میں معاون ہو سکتی ہے۔ انسان بہ یک وقت خوش اور ناخوش نہیں ہو سکتا۔ کوشش کیجیے کہ زیادہ تر وہ کام کریں جسے کر کے خوشی ملتی ہے اور ڈوپامین اور سیروٹونین کا لیول بڑھتا ہے، خوش رہنے کی شعوری طور پر کوشش کریں، اگر کوئی وجہ نظر نہ آ رہی ہو تو وجہ ڈھونڈیں ۔شروع میں ہوسکتا ہے کہ کوئی بھی وجہ نہ ملے، لیکن کوشش کرتے رہنے سے شکر ادا کرنے اور خوش رہنے کی کوئی نہ کوئی وجہ مل ہی جائے گی ۔
سوچیں انسانی دماغ کا اہم حصہ ہیں، اس کو مکمل طور سے اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ سوچوں کی کثرت سے پریشان ہیں تو سوچوں کو مکمل طور سے اسٹاپ کرنے کے بجائے سوچ کا زاویہ تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بھی اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ بےجا پریشان کرنے والی سوچوں کو نظر انداز کر کے اس معاملے کے مثبت پہلوؤں پرفوکس کرنا شروع کردیں۔ مسلسل مشق سے ذہن اس طرف شفٹ ہو جائے گا ،اس طرح ذہن میں سوچیں تو ہوں گی لیکن ڈپریشن اور اینگزائٹی کو بڑھانے کا سبب نہیں بنیں گی ۔ وہ سوچیں شخصیت کی تعمیر میں معاون ہوں گی۔
٭ ٭ ٭
ضرورت سے زیادہ سوچنے والے افراد دراصل واہموں کے غلبے میں آ جاتے ہیں۔ کوئی چھوٹی سی بات یا سوچ انھیںانتہائی حدود پر لے جا سکتی ہے۔ کسی واقعے کو اگر خیالی طور پر طول دیتے ہوئے صرف تصورات میں اس سے نتائج اخذ کرنا شروع کر دیا جائے، تو انسان کی معمول کی زندگی تباہ ہو سکتی ہے۔
0 Comments