اگست ۲۰۲۴
زمرہ : النور

عن ابی ہریرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من حمل علينا السلاح فلیس منا ومن غشنا فليس منا

 (صحیح مسلم، کتاب الایمان : 283)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’ جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھا یا وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہےکہ مسلمانوں کے خلاف ناحق ہتھیار اٹھانے والے کا شمار امت محمدیہ میں نہیں ہو سکتا۔ جو ایسا کرے گا وہ مسلمانوں کی جماعت سے نکل جائے گا۔ دھوکہ ایک ایسا قبیح عمل ہے جسے اسلام نے ہرصورت میں ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ کسی بھی چیز کی اصل حالت یا حقیقت کو پوشیدہ رکھنا دھوکہ ہے۔ کسی کے عیب کو چھپانا یا کسی کی خوبی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا بھی دھوکہ ہے ۔ ’’ہم میں سےنہیں‘‘ سے مراد یہ ہےکہ وہ ہماری سنت اور طریقےپر نہیں ۔
دین اسلام ہمیں زندگی کے تمام معاملات میں سچائی اور خیر خواہی سے کام لینے کی تعلیم دیتا ہے۔ فریب اور دھوکہ سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس کی مذمت کے لیےسنگین عذاب کی وعید سناتا ہے۔ قوم مدیَن پر عذاب اس لیے آیا تھاکہ وہ شرک کے ساتھ ساتھ دھو کے بازی اور فریب کاری میں ملوث تھے ۔ کاروبار میں دھوکہ دہی اور ڈنڈی مارناان کا شیوہ تھا۔ اللہ تو نے سورۂ بقرہ میں اپنی آیات کو چھپانے والوں کے بارے میں بڑی سخت وعید سنائی ہے ۔

 ان الذین یکتمون ما انزلنا من البينات والهدى من بعد ما بيناه للناس فى الكتاب اولئك يلعنهم الله ويلعنھم اللعنون

(بے شک جو لوگ ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایات کو چھپاتے ہیںحالاں کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیےواضح فرمادیا ہے، تو ان پر الله لعنت فرماتا ہے،اور لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔) (سورۃ البقرہ: 140)
یہ آیت ان علماء یہود کے بارے میں نازل ہوئی جو توریت کے احکام چھپایا کرتےتھے۔دینی مسائل کو چھپانا گناہ ہے، خواہ اس طرح کہ ضرورت کے وقت بتائے نہ جائیں یا اس طرح کہ غلط بتائے جائیں ۔ یہ دونوں گناہ علماء یہود کرتے تھے۔
نبیﷺ نے فرمایاکہ جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی جسے وہ جانتا ہے لیکن وہ اسے چھپاتا ہے، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام دی جائے گی۔(ترمذی ، کتاب العلم : 2658)
نکاح ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ ہے، لیکن نکاح کے معاملات میں بھی دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ لڑکے کی آمدنی اور کئی مرتبہ لڑکی کی عمر، تعلیم اور امور خانہ داری کے حوالے سے جھوٹ بولاجاتا ہے اور مبالغہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے ۔ جس کا مقصد فقط وقتی طور پررشتے کی تکمیل ہوتا ہے جب کہ بعد ازاں اس دھوکے کے نتیجے میں کئی مرتبہ خاندانوں میں شدید قسم کا بگاڑ ہو جاتا ہے ۔ بسا اوقات بات اتنی بڑھ جاتی ہےکہ رشتے کے خاتمے کی نوبت آجاتی ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

واذا قلتم فاعد لو او لو کان ذا قربی

 ( جب بات کرو، فیصلہ کرو، شہادت دو یا حکم دو؛ ہر حال میں عدل و انصاف . سے کام لو ۔)
ایک دوسری جگہ فرمایا:

 یایھا الذین آمنوا اتقوا الله وقولواقولاً سَدِيداً ( سورۃ الاحزاب : 70)

 اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو تقویٰ اختیار کرنے ، سچی اور حق بات کہنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہےکہ تم اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی رعایت کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو ۔سچی، درست ،حق اور انصاف کی بات کہا کرو، اپنی زبان اور کلام کی حفاظت کرو، یہ سب بھلائیوں کی اصل ہے ۔
اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہےکہ اگر لڑکے یا لڑکی کے والدین ایک دوسرے کی بابت اس کے متعلقین سے کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو لوگ حقیقت کو چھپادیتے ہیں اور نکاح کے بعد حقیقت حال سے واقف کروانے لگتے ہیں۔ساتھ ہی یہ جواز بھی پیش کرتے ہیں کہ ہم رشتہ ختم کرنے کا گناہ نہیں لینا چاہتے یا یہ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ سچ بول دیا تو ہمارے تعلقات خراب ہو جائیںگے، جب کہ حدیث میں آیا ہے کہ ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا۔ ایک حضرت معاویہ وسرے ابو الجہم ،انھوں نے آکر حضور سے مشورہ طلب کیا۔آپ ﷺ نے فرمایا معاویہ مفلس ہیں اور ابو الجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتےہیں۔ (بخاری ومسلم)
یہاں ایک خاتون کے لیے مستقبل کی زندگی کا مسئلہ درپیش تھا اور حضورﷺ سے انھوں نے مشورہ طلب کیا تھا ،اس حالت میںآپﷺ نے ضروری سمجھا کہ دونوں صاحبوں کی جو کم زوریاں آپ کے علم میں ہیں ،وہ بتا دیں۔ (تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، صفحہ: 91)
کا روبار میں دھوکہ دہی ، کم ناپنا ، کم تولنا اور ملاوٹ کرنا؛ اس وقت مسلمانوں میں عام ہے ،جب کہ کسی کو دھو کے میں ڈال کر حاصل کیا ہو انفع حرام ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہےکہ ابو بکرؓ کا ایک غلام تھا جو روزانہ انھیں کچھ کمائی دیا کرتا تھا۔ ابوبکرؓ اسے اپنی ضرورت میں استعمال کرتے تھے۔ ایک دن وہ غلام کوئی چیز لایا اور ابو بکرؓ نے بھی اس میں سے کھا لیا، پھر غلام نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے یہ کیسی کمائی ہے؟ آپؓ نے دریافت فرمایاکہ کیسی ہے ؟ اس نے کہا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک شخص کے لیے کہانت کی تھی ،حالاں کہ مجھے کہانت نہیں آتی تھی ۔میں نے اسے صرف دھوکہ دیا تھا ،لیکن اتفاق سے وہ مجھے مل گیا اور اس نے اس کی اجرت میں مجھ کو یہ چیز دی تھی۔ ابوبکرؓ نے یہ سنتے ہی اپنا ہاتھ منہ میںڈالا اور پیٹ کی تمام چیزیں قے کر دیں۔ (صحیح بخاری )
اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث میں ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم غلہ فروخت کرنے والے کے پاس سے گزرے ۔ آپﷺ نے اپنا ہاتھ غلہ کے اندر ڈالا تو ہاتھ میں کچھ تری محسوس ہوئی ۔ رسول ﷺ نے پوچھا کہ یہ تری کیسی ہے ؟ غلےکے مالک نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! اس پر بارش ہو گئی تھی ۔ آپﷺ نے فرمایاکہ تم نے اس بھیگے ہوئے غلےکو اوپر کیوں نہ رکھا تا کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے۔ جس شخص نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ۔ (صحیح مسلم : 102)
موجودہ زمانہ مخلوط تعلیم اور سوشل میڈیا کا ہے ۔ جس سے کسی بھی غیر محرم سے رابطہ آسان ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثر نوجوان نسل اپنی فیک آئی ڈی(Fake ID) بناتی ہے،سہانے خواب دکھاتی ہے،اپنی تعلیم، اپنا فوٹو ، سب غلط ڈالتی ہے ۔ تعلقات جب گہرے ہوتے ہیں تو سارے راز آہستہ آہستہ فاش ہو جاتے ہیں اور سچائی موجودہ صورت کے برعکس ہوتی ہے ۔ اس صورت میں نسل نو جذبات میں آکر یا خود کشی جیسے حرام کام کا ارتکاب کر بیٹھتی ہے یا ڈپریشن میں چلی جاتی ہے۔ جذبات سے کھیلنے کا یہ سلسلہ صرف اور صرف جھوٹ اور دھو کہ پر مبنی ہوتا ہے۔نسل نو کو اس قبیح فعل سے بچانے سے کےلیےاسلامی احکام و معاشرتی آداب بتانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح وہ لوگ بھی دھوکہ دینے والوںکی فہرست میں آتے ہیں جو متعینہ ڈیوٹی کے اوقات کی پابندی نہیں کرتے ہیں ۔ ہم نے اپنی خدمت جتنے وقت کے لیے دی ہے، اس کی پابندی کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ بعض سرکاری دفاتر میں تو’ بارہ بجے لیٹ نہیں ،اور تین بجےبھینٹ نہیں ‘کا فارمولہ چلتا ہے ۔ اور کچھ جگہوں پہ تو غیر حاضر رہ کر بھی دوسرے دن حاضری بنا لینے کا رواج ہے ۔ ہم جس عہدے پر فائز ہیں (خواہ وہ عہدہ چھوٹا ہو یا بڑا ) اگر ہم نے اس عہدے کا حق ادا نہیں کیا تو گویا ہم نے اپنے ماتحتوں کو دھوکہ دیا اور بروز قیامت ہم سےاس کے بارے میں پوچھ ہوگی۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے