اگست ۲۰۲۴

زائنہ تیار سی دلہن بنی عیان کے کمرے میں گلاب کے پھولوں سے سجی سیج میں بیٹھی بے چین نظر آرہی تھی۔کمرہ گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔جب سے وہ اپنا گھر چھوڑکر آئی تھی تب سے ہی دل میں عجیب عجیب اندیشے آرہے تھے۔ایسا جیسے کچھ غلط ہونے والا ہو۔وہ زیر لب آیۃ الکرسی پڑھنے لگی،لیکن دل کی بے چینی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔اس نے دل دوسری طرف دھیان لگانےبلکہ بھٹکانےکےلیے اطراف میں ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔
وہ عام مگر نہایت قرینے سے سجا کمرہ تھا۔ کمرے کے وسط میں بیڈ تھا اور دائیں طرف الماریاں بنی تھیں۔ بائیں طرف واش روم اور سائیڈ میں باہری دروازہ تھا۔ سامنے خوب صورت سا سنگار میز اور بڑی سی کھڑکی تھی۔ سامنے والی دیوارپر کچھ عربی کیلیگرافیزبھی خوب صورتی سے لگی ہوئی تھیں اور ساتھ ہی ریکس میں طرح طرح کی کتابیں سلیقے سے جمی تھیں۔ دیکھنے سے وہ کسی پڑھے لکھے شخص کا خوب صورت کمرہ لگتا تھا۔ وہ ابھی کمرے میں رکھی چیزوں پر غور کر ہی رہی تھی کہ اسے دروازہ کھولنے کی آواز آئی۔وہ سنبھل کر نیچے نگاہ کیے بیٹھ گئی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
بلیک شیروانی پہنے وہ کمرے میں آرہا تھا۔ اس کی جھکی نظریں مزید جھک گئیں۔ کمرہ زرد بتیوں سے روشن تھا۔ وہ دھیرے دھیرے آتا ہوا پلنگ پر اس کے ساتھ کچھ فاصلے پر بیٹھا۔ اس کے وجود سے کسی مہنگے پرفیوم کی خوشبو آرہی تھی۔ اس کی سانسیں بے قابو ہونے لگیں ۔ اس نے اپنے سونے کی چوڑیوں سے بھرے دونوں ہاتھوں کو مٹھی میں دبالیا۔
’’میں آپ کا اپنی زندگی میں خیر مقدم کرتا ہوں زائنہ!امید ہے آپ بھی اس رشتے اور شادی سے خوش ہوں گی۔‘‘ اس نے اس کی طرف دیکھا۔۔شہد رنگی آنکھیں تذبذب سے اس کی طرف اٹھیں۔
وہ ہلکی بڑی شیو میں، بالوں کو سلیقے سے سیٹ کیے، چھوٹی چھوٹی گہری اپنی سیاہ آنکھوں میں سوال اور امید لیے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ کافی گڈ لکنگ تھا، لیکن زائنہ لُکس پر مرنے والی لڑکی نہیں تھی۔
زائنہ کو ایک نگاہ میں سمجھ نہیں آیا کہ وہ اسے کیسا لگا ہے؟ اس نے تو اس کی تصویر بھی نہیں دیکھی تھی۔ اور شادی جس جلد بازی میں ہوئی تھی اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کیسا ہوگا؟ اس نے تو شادی کے بارے میں بھی نہیں سوچا تھا، لیکن اب وہ بغیر سوچے سمجھے اس کی زندگی میں داخل ہوچکا تھا۔ اس کو خود کو اس طرح نظریں جمائے دیکھ کر اس کی نگاہیں شرم سے نیچے جھک گئیں۔ اسے خاموش دیکھ کر وہ خود ہی کہنے لگا:
’’میں جانتا ہوں کہ ہماری شادی کوئی عام حالات میں نہیں ہوئی ہے۔آپ اپنے والدکی صحت کے لیے کافی فکر مند ہیں۔‘‘ اپنے بابا کے ذکر پر اس کے چہرے پر اداسی بکھر گئی۔ان کارخصتی پر روتا ہوا چہرہ اسے پھر یاد آنے لگا۔۔عیان اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات سمجھ رہا تھا۔
’’ آپ اپنے بابا کی فکر مت کیجیے،بہت سارےلوگوں کی دعائیں ہیں ان کے ساتھ، وہ ضرر ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘ اس کا انداز ہمت دینے والا تھا۔اس کی خاموشی محسوس کرکےعیان کو اس وقت باتوں کا رخ دوسری طرف موڑنا مناسب لگا۔
’’میں نے سنا ہےکہ آپ کو پڑھائی کا بہت شوق ہے۔آپ کے مارکس بھی ایچ ایس سی میں کافی اچھے آئے ہیں۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی۔‘‘ وہ اس کا موڈ بہتر کرنے کےلیے پڑھائی کی بات کررہا تھا،لیکن زائنہ کو اپنے ادھورے خوابوں کی کرچیاں پھر سے اپنے آنکھوں میں چبھتی محسوس ہوئیں۔اس کی دل کی کیفیت سے بے خبر وہ پوچھنے لگا:
’’پھر آپ کا آگے کا کیا پلان ہے؟ آپ کے بابا کہہ رہے تھے کہ آپ آگے اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں۔‘‘ سیاہ رنگی آنکھوں نے شہد رنگی آنکھوں سے سوال کیا،جسے سن کر شہد رنگی آنکھوں والی شکل پر پھر ایک رنگ آکر گزر گیا۔
وہ خاموشی سے اس کے جواب کا انتظار کررہا تھا۔جیسے وہ چاہتا تھا کہ وہ بھی کچھ بولیں،کچھ بات کریں،اس کی سوالی آنکھوں کو اپنے چہرے پر ٹکی دیکھ کر وہ ہمت کرکے کہنے لگی:
’’جی! میرا پلان ابھی کچھ نہیں ہے۔پتہ نہیں میں سب ذمہ داریوں کے ساتھ پڑھ پاؤں گی بھی یا نہیں۔‘‘ وہ ’پتہ نہیں ‘کسی فکر کے زیر اثر کہہ رہی تھی۔اس کو اپنی آواز شاید رونے سے کھردری سی محسوس ہوئی۔کمرے میں چلتے اےسی کی وجہ سے اسے ٹھنڈک محسوس ہورہی تھی۔
’’آپ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتا دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی زائنہ!لیکن اپنی پڑھائی کو ادھورا چھوڑنے کا خیال مجھے کچھ خاص پسند نہیں آیا۔‘‘ اس کے انداز میں جیسے شکوہ تھا۔زائنہ نے نظریں اٹھاکر اسے دیکھا۔اسے اس کا پڑھائی کو لےکر پریشان ہونا اچھا لگا تھا۔ شاید اسے اس میں ابھی تک صرف یہی ایک چیز اچھی لگی تھی۔ اس کےدھڑکتےدل کو کچھ راحت محسوس ہوئی۔وہ اب غور سے اس کی بات سن رہی تھی۔
’’دراصل میں خود عورتوں کی پڑھائی کے حق میں سوچتا ہوںلیکن…‘‘وہ رکا،جیسے آگے کی بات کہنے کےلیے الفاظ ڈھونڈرہا ہو۔ زائنہ کو ہمیشہ ’لیکن‘ کے بعد کا فقرہ جان لیوا لگتا تھا،کیوں کہ یہ’ لیکن‘ کے بعد بولے جانے والے الفاظ کبھی بھی خوش خبری ثابت نہیں ہوئےتھے۔ وہ کچھ وقفے بعد سنجیدگی سے کہنے لگا:
’’اگر آپ اپنی ساری ذمہ داریاں بخوبی ادا کرتے ہوئے اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہتی ہیں تو میں اس فیصلے میں آپ کا ضرور سپورٹ کروں گا۔‘‘
زائنہ کو اس کی بات سمجھنے میں بس ایک پل لگا تھا۔اس کے چہرے کا رنگ بدلا۔مطلب وہ مجھ سے گھر کے سارے کام کرنے کی شرط پر پڑھائی کی اجازت دے رہا ہے۔ اس نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا۔ اس سے پہلےکہ اس اندازِ نگاہ پر وہ کچھ کہتا، اس کا فون بجنے لگا۔
اس نےشیروانی کی داہنی جیب سے موبائل نکالا۔سامنے کوئی نمبر چمک رہا تھا۔ وہ ایکسکیوز کرتا ہوااٹھا اور کھڑکی کے پاس جاکر بات سننے لگا۔ اس کے اٹھتے ہی اس نے تیز تیز سانسیں لیں۔وہ چاہ ہی رہی تھی کہ وہ وہاں سے کچھ دیر کےلیے چلا جائے۔
یہ کیسا رشتہ تھا جہاں وہ اس کے لیے کچھ بھی محسوس نہیں کرتی تھی، اور اس آدمی کے لیے اس کے خوابوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اسے لگا ایک روایتی شوہر کی بیوی بن کر شاید اس سے کوئی غلطی ہوگئی تھی۔
’’افف بابا !یہ کس شخص کو چن لیا آپ نے میرے لیے؟‘‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی شکوہ کرنے لگی،لیکن کیا وہ شخص اس کا شکوہ سننے کے لیے اس دنیا میں موجود بھی تھا؟
کچھ دیر عیان کونے میں کھڑاکھڑکی کے پاس کسی سے باتیں کررہا تھا۔ اس نے ہولے سے اس کی طرف دیکھا۔اسے لگا جیسے وہ ایک پل کے لیے پریشان ہوا ہے،پھر اس کےلب ہلے۔۔شاید وہ کچھ کہہ رہا تھا۔شاید أَسْتَغْفِرُ اللّٰه یا شاید انا للہیا شاید کچھ اور۔ وہ سمجھ نہیں پائی۔اسے بس اپنی ہی دھڑکنوں کی تیز تیز آواز سنائی دے رہی تھی۔ اس نے ’’ٹھیک ہے، آرہا ہوں۔‘‘ کہہ کر فون بند کردیا۔
’’کیا ہوا ہے؟سب خیریت؟‘‘ اس کے اچانک سوال پر وہ گڑبڑاگیا۔ پھر پل بھر میں خود کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگا:
’’ہاں، سب خیریت ہے۔آپ کے کپڑے کہاں رکھے ہیں؟ میرا مطلب سوٹ کیس… ‘‘اس نے کہتے ہوئے آخر میں ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔
’’ اسے اس وقت میرے کپڑوں سے کیا کام؟‘‘ اسے سمجھ نہیں آیا۔
’’آپ کی مما نے کچھ دیر پہلے اس الماری میں رکھا تھا۔‘‘ اس نے نا سمجھی سے کہتے ہوئے الماری کی طرف اشارہ کیا۔
’’اوہ اچھا۔میں نکالتا ہوں۔آپ چینج کر لیجیے۔ہمیں کہیںجانا ہے ابھی۔‘‘
وہ الماری کی طرف بڑھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔اس نے سامنے گھڑی کی طرف نگاہ دوڑائی۔رات کے بارہ بج رہے تھے۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی رات کو اسے کہاں لے جانا چاہتا ہے۔تبھی عیان نے ایک سوٹ کیس اٹھاکر اس کے سامنے رکھا۔
’’آپ کوئی سمپل سا ڈریس دیکھ لیجیے،اور چینج کر لیجیے۔میں آپ کا باہر ویٹ کررہا ہوں۔‘‘ اس کا انداز جلدبازی والا تھا۔وہ اس کے سوالوں کے تیر سے بچ کر بھاگنا چاہتا تھایا اسے بتا نے سے ڈر رہا تھا ،اسے سمجھ نہیں آیا۔
دوسری طرف زائنہ کو وہ عجیب لگ رہا تھا۔’’ابھی کہاں جانا ہے؟کیا ہوا ہے ؟‘‘ جیسے سوالات اس کے زبان پر ہی تھے کہ وہ دروازہ کھولتا باہر چلا گیا۔وہ زیر لب ناگواری سے ’’عجیب‘‘ کہتی اٹھی۔پہلے بھاری جیولری سے خود کو آزاد کیااور کپڑے لے کر واش روم کی طرف چلی گئی۔
٭ ٭ ٭
وہ پریشان سا اپنے والدین کا کمرہ ناک کررہا تھا۔اندر سے اس کے بابا اتنی رات کو ناک کرنے پر گھبراکر باہر آئے۔وہ ان سے کچھ کہہ رہا تھا۔وہ اس کی بات سن کر لڑکھڑاکر گرنے لگے کہ اس نے انھیں سنبھالا۔وہ اس سے پریشان سے انداز میں کچھ کہہ رہے تھے۔شاید زائنہ کا پوچھ رہے تھے۔جواب میں وہ انھیں کچھ بتارہا تھا۔
وہ’’ ٹھیک ہے ،تیار ہو کر آتا ہوں۔‘‘ کہہ کر کمرے میں چلےگئے۔
وہ کلائی میں بندھی گھڑی پر وقت دیکھتا اپنے کمرے کی طرف مڑا۔وہ کمرے کا دروازہ کھولتا اندر آیا۔وہ سامنے سفید اور میرون کلر کی سادہ سی شلوار قمیض پہنے، چہروں پر ڈھیروں سوالات لیے بے چین دل کے ساتھ بررقع اوڑھ رہی تھی۔وہ تھوڑی دیر کی دلہن تھی ، لیکن اس کا حلیہ کہیں سے بھی دلہن جیسا نہیں تھا۔خود پر اس کی نگاہ کو محسوس کرکے وہ پلٹی۔اس نے شاید کسی اور کمرے میںکپڑے تبدیل کیے تھے۔وہ سفید شرٹ پر ٹراؤزر پہنے اس کی طرف آنے لگا۔
’’میں تیار ہوں۔آپ بتائیں کہ جانا کہاں ہے؟‘‘ وہ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔زائنہ نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔اسے وہ عجیب سی اضطرابی کیفیت میں لگا۔اس کا اپنا دل خود بے چین ہورہا تھا۔
’’عیان! بتائیے ناںکیا ہوا ہے؟ ‘‘
’’تم بیٹھویہاں پر۔‘‘وہ غیر محسوس طریقے سے آپ سے تم پر آگیا تھا۔اس نے اس کے شانے پکڑ کر پلنگ پر بٹھایا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے نیچے گھٹنے کا سہارا لےکر بیٹھ گیا۔اپنی شادی کی پہلی رات وہ اپنی بیوی کو اتنی بڑی بری خبر دینے جارہا تھا، اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔اس کے اس طرح نیچے بیٹھ کر خود کو دیکھے جانے پر زائنہ کو بےچینی ہورہی تھی۔
’’آپ بتاتے کیوں نہیں عیان کہ بات کیا ہے؟دیکھیے! میرا دل واقعی بہت گھبرارہا ہے۔‘‘ اس کا دل واقعی دھڑک رہا تھا۔کمرے میں لمحے بھر کو خاموشی چھاگئی۔
’’زائنہ! میری بات غور سے سنو۔‘‘اس نے مضبوط لہجے میں کہتے ہوئےتمہید باندھنی چاہی،جسے سن کر وہ سانس روکے آگے کو ہوکر بیٹھ گئی۔
’’تھوڑی دیر پہلے…عارف انکل کو…میرا مطلب تمہارے بابا…‘‘ وہ کہہ ہی رہا تھا کہ وہ بابا کے نام پر کھٹکی۔
’’میرے بابا کو کیا؟‘‘ اسے لگا اس کا دل دھڑکنا بھول گیا ہے۔
’’وہ…وہ اب نہیں رہے…اللہ نے انھیں اپنے پاس بلالیا ہے۔‘‘عیان نے کس دل سے اسے بتایا یہ اس کا دل ہی جانتا تھا۔اس کے ہاتھوں پر اس کی گرفت ڈھیلی ہوئی۔ وہ خاموش ناسمجھ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔عیان کو وہ ٹھیک نہیں لگی۔ہر طرف بے یقینی سی بے یقینی تھی۔
’’زائنہ!تم ٹھیک ہو؟ رکو میں پانی لاتا ہوں۔‘‘وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ وہ اچانک اس کا گریبان پکڑی کھڑی ہوگئی۔اس کی آنکھیں غصے سے لال ہورہی تھیں۔
’’آپ…آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو؟‘‘وہ ایک ایک لفظ چباچباکر دہاڑی تھی۔عیان اس کے اس رویے پر حیران تھا۔اسے لگا تھا کہ وہ روئے گی،چیخےگی،لیکن وہ اس طرح کا ری ایکٹ کرےگی ،اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔
’’زائنہ! میری بات سنو۔‘‘وہ کچھ سمجھانا چاہ رہا تھا کہ وہ درشتی سے اسے چپ کرواتی کہنے لگی:
’’آپ سنیے میری بات عیان!‘‘ اس نے’’آپ‘‘ پر زور دیا۔
’’آئندہ اگر آپ نے میرے باباکےبارے میں کوئی بات کی تو اچھا نہیں ہوگا۔‘‘وہ شہادت کی انگلی دکھاتی کہہ رہی تھی۔اس کا انداز وارننگ دینے والاتھا۔
’’ہاں ٹھیک ہے۔میں کچھ بھی نہیں کہوں گا تمھارے بابا کو۔اچھا!تم ریلیکس رہو۔‘‘ اس نے اپنا گریبان اس کے ہاتھوں سے چھڑایا،اور اس کو پکڑتا آہستہ آہستہ بیڈپر بٹھانے لگا۔کمرے کا ٹیمپریچر اچانک منفی زیرو ہوگیا تھا۔اس کا جسم سرد ہورہا تھا۔برف کی طرح سرد۔
’’مجھے بابا کےپاس جانا ہے ابھی۔‘‘وہ تیز تیز سانسوں کے درمیان کہہ رہی تھی۔عیان نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے گلاس سے پانی نکالا۔
’’اچھا ہم ابھی چلیں گے۔تم تھوڑاپانی پی لو۔‘‘اس نےگلاس اس کی طرف بڑھاتے ہوئےنرم سے انداز میں کہا۔
’’ نہیں مجھے نہیں چاہیے۔آپ مجھے بابا کے پاس لےکر چلیے ابھی۔‘‘ وہ بضد نظر آرہی تھی۔
کچھ حادثات انسان بھول جاتا ہے،کچھ حادثات سے وہ دل برداشتہ ہوجاتا ہے اور کچھ حادثات سے وہ جی نہیں پاتا،لیکن جب انسان کچھ حادثا ت کو ماننے سے ہی انکار کردے تو وہ تناؤ کے اس اسٹیج پر پہنچ چکا ہوتا ہے،جہاں سے واپسی میں سوائے روحانی اذیت سہنے کے اور کچھ بھی ممکن نہیں ہوتا۔وہ عیان سے دو قدم پیچھے چلتی گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی۔
’’یہ دل پتہ نہیں اتنی زور زور سے کیوں دھڑک رہا ہے؟بابا ٹھیک ہیں۔کچھ نہیں ہوا ہے میرے بابا کو۔‘‘ وہ خود کو یقین دلارہی تھی،لیکن اس کے ہر یقین کو انکار کرتا ہوا اس کا دل سینہ چیر کر نکلنے کےلیے بے تاب تھا۔عیان فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول رہا تھا۔
’’عیان پتہ نہیں خود کو سمجھتے کیا ہیں؟جو دل چاہا وہ کہہ دیتے ہیں۔جب بابا کو صحیح سلامت دیکھیںگے پھر پوچھوں گی میں۔‘‘ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔عیان دوسری طرف سے آتا ہوا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
’’ابھی تو میری سانسیں چل رہی ہیں نا بابا!پھر آپ کی سانسیں کیسے جا سکتی ہیں؟‘‘وہ اپنی ہچکیوں پر قابو نہیں پارہی تھی۔
’’مجھے کل ہی تو آنا تھا ناں آپ کے پاس،لیکن اب بس بہت ہوگیا۔میں آج ہی سے آپ کے پاس رہوں گی،نہیں رہنا مجھے آپ سے دور اب۔‘‘ اس کی آنکھوں کےسامنے دھند آرہی تھی۔
’’بابا!میں آرہی ہوں آپ کے پاس۔اب کہیں نہیں جاؤں گی آپ کو چھوڑکر۔‘‘ اس نے اپنے آنسو پوچھنے کے لیے ہاتھوں کو حرکت دیا،لیکن یہ کیا؟اسے محسوس ہوا کہ اس کے جسم میں حرکت ہونا بند ہوگیا ہے۔وہ لب کھولناچاہ رہی تھی،بات کرنا چاہ رہی تھی،ساتھ بیٹھے شخص سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ یہ گھر کا راستہ اتنا لمبا کیوں ہوگیا ہے؟بابا کا گھر آ کیوں نہیں رہا ہے؟لیکن سارے الفاظ اس کے حلق میں دم توڑ رہے تھے۔
کبھی کبھی زندگی ہمیں ہماری برداشت سےزیادہ ہی آزمائش میں مبتلا کردیتی ہے،جس کی وجہ سے ہماری پرانی ساری داستانیں مٹ سی جاتی ہیں اور وہ ہمارے لیے ایک نئی داستان لکھنا شروع کرتی ہے،جسے قبول کرنا ہمارے لیے مشکل ہوتا ہےلیکن قبول کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس کی زندگی بھی ایک نئی داستان لکھنے جارہی تھی۔
گاڑی گھر کے پاس پہنچی۔وہ گھر جو کچھ دیر پہلے تک شادی کا خوشیوں بھرا گھر تھا وہ یکایک میّت کا ماتم زدہ گھر بن گیا تھا۔سیاہ رات آج کچھ زیادہ ہی سیاہ تھی،گہری اور سیاہ،جیسے آخری رات ہو،جیسے اب کبھی سورج کی روشنی دکھائی دینے والی نہ ہو۔
وہ بے جان پیروں سے گاڑی سے اترنے لگی۔عیان ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر گھومتا ہوا اس کی طرف آیا۔اس نے سرخ بےیقین ہوتی آنکھوں سے دیکھا۔وہاں ہر طرف لوگوں کا ہجوم اکٹھا تھا۔ان کو وہاں دیکھ کر اس کےدل نے کرب سے خدا کو پکارا تھا۔
’’یااللہ !میں نے صرف تیری خوشی کی خاطر زندگی کی کسی تکلیف پر ماتم نہیں کیا۔‘‘ اس ہجوم کو چیرتے ہوئے اسے گھر کے اندر جانا مشکل لگ رہا تھا۔
’’کبھی تیری آزمائش پر سوال نہیں کیا۔‘‘ اسے اپنے ہاتھوں میں عیان کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت محسوس ہوئی۔اس نے آنسوؤں سے تر خالی نگاہ اٹھاکر اسے دیکھا۔
’’بس ان سب کے بدلے آج تو میرا مان رکھ لے۔میری امید کو ٹوٹنے نہ دے۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑے دو قدم آگے چلتا بھیڑ سے راستہ بناتا اندر کی طرف جارہا تھا۔لوگ انھیں آتا دیکھ کر چہ می گوئیاں کرتے راستہ بنانےکو ہٹ رہے تھے۔
’’یااللہ! بس آج وہ نہ ہو،جس کی تاب میں نہ لاسکوں۔‘‘ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ راہداری سے ہوتے ہوئے اندر کی طرف جارہی تھی۔بلڈنگ کے پارکنگ ایریا میں اسے صرف مرد ہی مرد دکھائی دے رہے تھے،لیکن وہ کسی کو دیکھ نہیں رہی تھی۔ساتھ چلتے کسی اجنبی شخص کا ہاتھ پکڑے اس کے قدموں کے نشان مٹاتی اپنے بھاری ہوتے قدموں سے چلتی جارہی تھی۔
’’بس آج تو اسے میری آخری دعا،میری آخری خواہش سمجھ کر قبول کرلے۔‘‘ لفٹ پہلے فلور پر عجیب سی آواز کے ساتھ رکی۔دروازہ کھلا۔اس نے اس اجنبی کے ہاتھ کو مزید مضبوطی سے پکڑلیا۔ اسے ہال کی طرف جاتے اس کے قدم پتھر کے معلوم ہورہے تھے۔عیان نے پلٹ کراسے دیکھا۔اس سے آگے چلا نہیں جارہا تھا۔
کچھ راستے کچھ قدموں کے ہی دوری پر ہوتے ہیں۔ہم لپک کر اسےطے کرسکتے ہیں،وہاں پہنچ سکتے ہیں،لیکن ان کے اورہمارے درمیان ان دیکھی ایک بہت بڑی خندق بنی ہوتی ہے،جسے پار کرنا ہمارے لیے میلوں کا سفر طے کرنے کے برابر ہوتا ہے۔یہ خندق نہ کسی کو دکھائی دیتی ہے نہ سمجھ میں آتی ہے،بس جسے پار کرنا ہوتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے۔
عیان نے مضبوطی سے اس کا بےجان ہاتھ تھامے رکھا تھا۔ہال سے بہت سی خواتین کی رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔اندر شاید کسی نے اس کے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔تبھی بہت سی خواتین باہر آنے لگیں۔ کچھ اسے گلے لگا کر رورہی تھیں۔کچھ اسے دلاسا دے رہی تھیں۔اسے اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہوئی۔
وہ اپنی پوری طاقت قدموں میں جمع کرتی اندر کی طرف بڑھی۔اندر کافور کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔جان لینے والی خوشبو۔وہاں کئی لوگ جمع تھے۔اس کی امیدسی خالی نگاہ صرف اپنے بابا کوتلاش کررہی تھی۔ شہد رنگی آنکھوں کو لوگوں کے ہجوم کے درمیان وہ نظر آ ہی گئے۔
کفن میں ملبوس، لمبے لیٹے،نتھنو ںمیں روئی کے گولے اٹکاکر پُرسکون سا چہرہ لیے وہ اسے نظر آہی گئے تھے۔اس کے پیر وہیں منجمد ہوگئے۔ آنکھیں بے یقینی سے خالی ہوگئیں۔اس کی ہر امید ٹوٹ گئی۔راستے میں مانگی گئی ہر دعا ضائع ہوگئی۔ہر آس ختم ہوگئی۔قدموں میں جمع کی ہوئی طاقت ساتھ چھوڑ گئی۔وہ بے سدھ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئی۔عیان اسے سنبھالتا خود بھی زمین پر بیٹھ گیا تھا۔
بچپن سے لےکر سارے مناظر اس کی صدمےسے چور آنکھوں کے سامنے جھلملا رہے تھے۔
’’بابا مما سے کہیے ناں! مجھے اور کھیلنا ہے۔‘‘ایک چار سالہ معصوم لڑکی ضدی بچے کی طرح کہہ رہی تھی۔سامنے کھڑےجوان خوش شکل مرد نےساتھ برقع پوش خاتون کو مصنوعی خفگی سے دیکھا۔
’’میری بیٹی کا دل ہے تو کھیلنے دو ناں تھوڑی دیر۔بلاوجہ پریشان کرتی ہو بچی کو میرے۔زاینہ جتنی دیر چاہے اتنا کھیلےگی۔‘‘وہ اسے پیار سے گود میں لیے کہہ رہے تھے۔منظر بدلا۔
(عیان اسے اٹھا رہا تھا۔ساتھ کئی خواتین بھی اسے ہمت کرنے کے مشوروں سےنواز رہی تھیں،مگر وہ ان سب سے دور کسی اور ہی دنیا میں چلی گئی تھی۔)
’’بابا! مجھے ڈاکٹر بننا ہے،میں پھر آپ کابھی علاج کروں گی،پھر دیکھیے گاآپ کبھی بیمار نہیں ہوںگے۔‘‘ آٹھ سالہ لڑکی گلے میں کھلونے کا نقلی آلہ لٹکائے سامنے بیمار بابا کو کہہ رہی تھی۔جس کی باتوں سن وہ تائید کرتے سر ہلارہےتھے۔
’’بالکل!میری بیٹی ڈاکٹر ہی بنے گی۔میں بناؤں گا اپنی بیٹی کو ڈاکٹر۔‘‘انھوں نے خوشی سے اسے بانہوں میں سمیٹا۔
اندر کے کمرے میں بیٹھی غم سےنڈھال آپی کو اس کے آنے کی اطلاع مل چکی تھی۔وہ درد میں ڈوبی ،بے جان جسم لیے پریشان سے انداز میں چلتی ہوئی اس کی طرف آرہی تھی۔
وہ کیسے اپنی بہن کو سنبھالیں گی۔انھیں سمجھ نہیں آرہا تھا۔آپی کو دیکھ کر عیان نے اس کاتھاما ہوا ہاتھ آپی کے ہاتھ میں دیا اور باہر چلا گیا۔اسے آپی کی درد بھری آواز دور سے آتی محسوس ہوئی۔
’’زائنہ ! میری جان دیکھو۔دیکھو بابا ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔دیکھو وہ ہمیں اکیلا چھوڑ گئے۔‘‘آپی کی ٹوٹتی بکھرتی آواز اسے دور سے سنائی دے رہی تھی،مگر وہ جیسے سن نہیں رہی تھی۔سامنے بابا جو کھڑے تھے،جو اسے مما کی ڈانٹ سے بچا رہے تھے۔
’’کوئی کام نہیں کرتی یہ لڑکی۔سارا دن کتابوں میں سر دیے بیٹھی رہتی ہے۔شانزے آرہی ہے آج۔سارا دن میں کاموں میں لگی ہوئی ہوں،لیکن مجال ہے جو یہ لڑکی اٹھ کر میری مدد کرے۔‘‘
وہ جواباً منہ بسور کر کہہ رہی تھی:
’’مما ! وہی تو میں کہہ رہی ہوں،آپی ہی تو آرہی ہیں ناں،پھر اتنی تیاریوں کی کیا ضروت ؟کوئی مہمان تو نہیں ہیں وہ ۔‘‘
’’اچھا میں بتاؤں کون مہمان ہے ؟ابھی…‘‘ وہ چپل اتار ہی رہی تھیں کہ بابا فوراً ان کےدرمیان آگئے۔
’’کتنی بار کہا ہے صائمہ بیگم کہ میری بیٹی کو کچھ نہ کہا کرو۔ارے کبھی کسی ڈاکٹر کو گھر کے کام کرتے دیکھا ہےآپ نے؟میری بیٹی کو وہی کرنے دوجو وہ کرنا چاہتی ہے۔گھر کے کام میں، میں مدد کرتا ہوں آپ کی،آپ بھی کیا یاد کریں گی؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
’’یہ اگر اسی طرح صدمے میں رہی تو اس کی دماغ کی رگیں پھٹ سکتی ہے۔شانزے کچھ بھی کر کے اسےرلاؤ،اسے ہوش میں لاؤ۔‘‘ ہجوم میں کوئی خاتون کہہ رہی تھی،اور دکھوں سے چور شانزے اپنی بہن کو رلانے کی ہر کوشش میں ناکام ہورہی تھی۔
زندگی میں ہمیشہ اپنوں کو خوشیاں دیتے ہوئے ہم کبھی نہیں سوچتے کہ کبھی کسی وقت ہم انھیں رلا بھی سکتے ہیں۔انھیں رونے کے لیے مجبور بھی کرسکتے ہیں،جیسے وہ کررہی تھی۔جس بہن کو جان سے بھی زیادہ چاہا تھا، آج اسی بہن کو رلانے کی وہ ہر کوشش کررہی تھی، اور جس بہن نے کبھی اپنی بڑی بہن کی کوئی بات نہیں ٹالی تھی وہ آج پتھر سے زیادہ سخت اپنے ہی خیالوں میں تھی۔
و ہ مما کے انتقال پر رورہی تھی۔ جب بابا اس کے پاس آئے اور سر پر ہاتھ رکھا۔
’’بابا !مما کیسے جاسکتی ہیں؟میں…میں مما کے بغیر کیسے رہوں گی؟‘‘ وہ ہچکیوں کے درمیان کہہ رہی تھی۔
’’میں نہیں رہ سکتی بابا !وہ کیسے مجھے چھوڑ کر چلی گئیں بابا!‘‘ وہ بابا کے سینے سے لگی رورہی تھی،اور بابا سے اس کے آنسو دیکھے نہیں جارہے تھے۔
’’مما گئیں لیکن بابا ہمیشہ آپ کے پاس رہیں گے بیٹے!‘‘ وہ اس کاسر تھپکتے ہوئےکہہ رہے تھے۔
’’بابا کبھی بھی زائنہ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ہمت کرو میری بیٹی!میں کبھی آپ کو چھوڑکر نہیں جاؤں گا۔‘‘
آپی اسےجھنچوڑ رہی تھیں۔وہ بُت بنی بس سامنے بابا کی میت کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہی تھی۔خالی بے جان نگاہ۔ان نگاہوں میں غربت سی غربت تھی۔اب اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا تھا۔
’’زائنہ!ہوش کرو میری بچی!مجھے دیکھو میں کیسے سنبھالوں تمھیں؟ہمت نہیں ہے مجھ میں زائنہ!پلیز ہوش کرو۔‘‘ آپی تھکن سے چور لال آنکھوں میں ڈھیروں تکلیف لیے مسلسل اس سے کچھ نہ کچھ کہہ رہی تھیں،لیکن وہ آج صرف دماغ کے ہزار وے حصے میں اپنے بابا سے مخاطب تھی۔
’’آپ نے کہا تھا نا ں کہ آپ مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گےبابا!؟‘‘ اس کی آنکھیں بند ہورہی تھیں۔اطراف کی عورتیں شور مچانے لگیں۔
’’ارے کوئی ڈاکٹر کو بلاؤ!‘‘
’’مجھے یقین ہے میرے بابا جھوٹ نہیں بولتے۔‘‘ شانزے بے ہوش ہوتی بہن کو سنبھالتی روتے ہوئے کسی سے کچھ کہہ رہی تھی۔
’’زیاد …زیاد صاحب سے کہیےڈاکٹر…ڈاکٹر کو بلائیں۔‘‘وہ کرب سے پتہ نہیں ہجوم میں کس سے کہہ رہی تھی،اسے معلوم نہیں تھا۔
’’زائنہ مت کرو…مت کرو ایسا…دیکھو آپی کی حالت،رحم کرو مجھ پر۔‘‘ وہ اپنی بہن کو سنبھالتے جیسے بھیک مانگ رہی تھیں۔وہ بند ہوتی سانسوں کے ساتھ بابا کو دیکھ رہی تھی۔
’’لیکن آج آپ نے میرا بھروسہ توڑ دیا بابا!اور مجھے بھی توڑ دیا،میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی بابا!کبھی معاف نہیں…‘‘ وہ سوچ رہی تھی اور ابھی اس کا فقرہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ دھڑام سے شانزے کی گود میں گر گئی۔عورتیں چیخ رہی تھیں۔اسے اٹھارہی تھیں۔پورا گھر ان کی آوازوں سے سہما ہوا کھڑا تھا۔
’’ارے کوئی سنبھالو۔‘‘
’’معلوم کرو ڈاکٹر آیا کیا؟‘‘اور بھی پتہ نہیں کن کن لفظوں سے ہال میں طوفان مچا تھا،مگر وہ ہر کسی سے بےنیاز نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

(… جاری)

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے