اگست ۲۰۲۴

انسانی زندگی ہر زمانے میں ایک نئی راہ سے گزری ہے ،اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب جب بنی نوعِ انسان نے قانونِ خداوندی کی خلاف ورزی کی، اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ انسانی زندگی سراسر مجموعۂ اضداد ہے۔ خوشی و مسرت اور رنج و غم کا عجیب سنگم ہے، لیکن یہاں نہ فرحت و سرور کے لمحات کو دوام ہے اور نہ درد و الم کے صدمات کو قرار۔ ساری زندگی ہی تغیر و تبدل سے عبارت ہے۔
اس ناپائیدار حیات میں جو اپنے اندر ہم دردی اور نرم خوئی کو پاتا ہے وہی بام عروج پر پہنچتا ہے۔ کیوں کہ یہ جذبۂ رحم و کرم ہر فرد کی رگوں میں مانند خون گردش کر رہا ہوتا ہے، جو بلا تفریق ہر نفس کی خاطر دھڑکتا ہے۔ اس کے برعکس جس نے اس جذبۂ انسانیت کو سلا دیا وہ خیر سے محروم ہو گیا۔ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا :
’’تم میں سے جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو تو پہنچائے۔‘‘
یہ وہ دین ہے جو اپنے پیرو کاروں سے شفقت و رحم کا مطالبہ کرتا ہے۔ دینِ اسلام انسانیت ، امن و اخوت ، عدل و محبت اور وحدت کا علم بردار ہے، مگر جب جب اس کے حدود و قیود کو پامال کیا گیا تو سرکشوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ اکثر و بیش تر انسان بے ساختہ یا خود ساختہ زحمت و مصیبت کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسانیت وہاں دم توڑ دیتی جہاں ایک انسان کی مصیبت دوسروں کے لیے تماشا بن جاتی ہے۔
کسی اَن ہونی مصیبت میں گرفتار فرد کو دیکھ کر کچھ بےحس و سنگ دل ہاتھ موبائل اور کیمرے کی جانب بڑھ جاتے ہیں ،جن کی زندگی کا واحد مقصد اپنی سوشل میڈیا فیملی کو چٹخارے دار مواد فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جنھیں صرف اپنے ویورز اور فالورز کی خوشنودی مقصود و مطلوب ہوتی ہے۔ یہ نادان لوگ اپنی ناپائیدار سلطنت کے بے تخت و تاج شاہ کہلاتے ہیں ،مگر اصل بادشاہ تو وہی ہے جو جی جان کی بازی لگا کر حقوقِ انسانی ادا کرے۔ بے قابو ہوتے حالات میں حاضر دماغی و مضبوط قوتِ ارادی کا مظاہرہ کرے۔ یہاں یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ وہ اپنے اس نیک عمل میں کس قدر کامیاب و ناکام رہا بلکہ اس کی موقع شناسی، جاں فشانی اور جذبۂ انسانیت و ہم دردی کو سراہا جائے گا۔ اگر کسی کے مشکل وقت میں اپنا ہاتھ بڑھانے کے بجائے کھینچ لیا جائے تو اس بات کو دل و دماغ میں ملحوظ رکھنا ہوگا کہ رویے دائمی ہوتے ہیں، جو انسانی ذہن میں انتشار کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ لازم ہے کہ انھیں بکھرنے سے پہلے اپنے مضبوط ساتھ کا یقیں دلا کر سمیٹا جائے ورنہ آپ کی ساری زندگی ایک بے سکونی و اضطراب کا نمونہ بن جائےگی۔
دوسری صورت میں اپنے ہاتھوں کی کمائی انسان کے لیےوبالِ جان بن جاتی ہے۔ وہ جانے ا َن جانے میں گناہوں کی گھپ اندھیر نگری میں چل پڑتا ہے۔ ایسے میں آپ کا فرض بنتا ہے کہ بحیثیت تماشائی اسے برائیوں کے دلدل میں دھنستا دیکھنے کے بجائے روزِ اول سے ہی خبردار و آگاہ کرتے رہیں۔ اگر آپ بہت پارسا ہیں تو کسی گنہ گار کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اس کا آخری گناہ ہو اور آپ کی آخری نیکی۔
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں کہ’’ ناقۃُ اللہ‘‘ ( اللہ کی اونٹنی ) کا قتل تو چند مجرموں نے کیا تھا مگر اس کے پاداش میں ساری قوم پر اللہ کا غضب و قہر ٹوٹ پڑا ،کیوں کہ باقیوں کا گناہ تھا خاموش تماشائی کا۔ وہ چاہتے تو ان بدمعاشوں کو اس مکروہ فعل سے باز رکھ سکتے تھے مگرانھوں نے تجسس کے ہاتھوں تماشائی بن کر لطف اندوز ہونے کی ترجیح دی۔
حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ تم میں سے جو شخص منکر دیکھے، اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اس کو بدل دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل ( اسے برا سمجھے ) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔‘‘
جب کسی کی خامی یا گناہ سامنے آئے تو اس کی بے بسی و لاچاری اور شرمندگی کا مزہ لینا بڑا معیوب فعل ہے۔ بلکہ ایک مسلمان پر تو یہ جچتا ہے کہ وہ ایسے حالات میں تنقید یا تضحیک کے بجائے صبر و تحمل اور بردباری کا رویہ اپنائے۔ اپنے بھائی کو اس مصیبت بھرے دلدل سے نکالنے کی بھر پور کوشش و سعی کرے، مگر اس مقام پر آپ کو اولاً تو اپنی ایمانی قوت و زہد و تقویٰ کو تیز تر رکھنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرےکو اس راہِ خاردار سے ہٹاتے ہوئے خود ہی اس کے ہم سفر بن بیٹھیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے