تقاضائےشریعت

حسن اخلاق سے سیرت کو سجا کر رکھیے
علم کی شمع زمانے میں جلا کر رکھیے
اپنے احساس کو تابندہ بنا کر رکھیے
زیست کو نقش صحابہ سے سجا کر رکھیے
غیر محرم سے سدا خود کو چھپا کر رکھیے
اور نگاہوں کو ہمیشہ ہی جھکا کر رکھیے
درس سرکار دو عالم سے ملا ہے یہ ہمیں
درد انساں کا سدا دل سے لگا کر رکھیے
یاں ہوائیں نئی تہذیب کی ہیں تیز مگر
داغ سے دامن عفت کو بچا کر رکھیے
ہے بہت دل کش و زیبا یہ جہاں کی محفل
ہم مسافر ہیں یہاں دل میں بٹھا کر رکھیے
ہیں نئی اور عجب فکریں جہاں میں رائج
خود کو بس زیور عصمت سے سجا کر رکھیے
ہیں کمندیں نئی تہذیب کی پھیلی ہر سو
دامِ مغرب سے سدا خود کو بچا کر رکھیے
ظاہری حسن سے دنیا ہی فقط ملتی ہے
آخرت اور خدا کو نہ بھلا کر رکھیے
پیار دنیا سے نہ اچھا ہے نہ ہی فائدہ مند
دل میں اللہ کی محبت کو بسا کر رکھیے
اصل آزادی نہاں دامن اسلام میں ہے
نقش اسلاف کو آنکھوں سے لگا کر رکھیے
ماں کے قدموں تلے جنت کا شرف کس نے دیا؟
شُکرِ ربی سے زبانوں کو بھِگا کر رکھیے
ساجدہؔ کی یہ صدا پہنچے دلوں تک اے خدا
سب کو اسلام کا گرویدہ بنا کر رکھیے

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر۲۰۲۴