جہیز کی بیماری

’’مما!‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘
’’ مشاطہ آنٹی کو فون کیا آپ نے؟‘‘صفورہ نے اپنی ماں صوفیہ سے پوچھا۔

صوفیہ:’’کہاں بیٹا! کوئی لڑکی ہمارے لیول کی مل ہی نہیں رہی ہے۔‘‘
صفورہ:’’مما! ایک سال ہوگیا ہے ،کب سے آپ لڑکیوں کو دیکھتی جارہی ہو اور ٹھکراتی جارہی ہو،اگر ایسا کروگی تو بھیّا آنے کا وقت قریب آجائے گا اور لڑکی بھی نہیں ملے گی اور شادی بھی نہیں ہوگی۔‘‘
’’السلام علیکم!‘‘(مشاطہ اندر آتے ہوئے۔ )
صفورہ:(پکار کر)’’مما!مشاطہ خالدہ آگئی۔‘‘
(صوفیہ کچن سے بھاگتی ہوئی آتی ہے۔)
صوفیہ:’’بی آپا! جلدی سے چائے بنائیے۔خالدہ آپا آگئی۔‘‘(کچن سے آتی ہوئی۔)
صوفیہ:’’السلام علیکم خالدہ باجی!بہت دنوں بعد نظر آئیں آپ،لگتا ہے آج تو مجھے مایوس نہیں کریں گی۔‘‘
مشاطہ:’’خوش ہوجائیے باجی خوش!ایسی لڑکی کی فوٹو لائی ہوں،دیکھ کر آپ کے ہوش اڑ جائیںگے۔‘‘
صوفیہ:(خوشی سے)’’سچ میں!جلدی بتائیں جلدی۔‘‘
’’صفورہ صفورہ!‘‘ (اپنی بیٹی کو آواز دیتی ہے۔)
مشاطہ تصویر آگے بڑھاتی ہے، صوفیہ لڑکی کی فوٹو اور بایوڈاٹا دیکھ کر۔
صوفیہ:’’ارے! ماشااللہ کیا بات ہے! میری خواہش کہ مطابق لڑکی کی فوٹو لائی ہو۔‘‘
مشاطہ:’’ہاں باجی! جیسا آپ نے کہا کہ لمبے بال،صراحی دار گردن، پتلے ہونٹ،کلی دار آنکھ،ویل ایجوکیٹیڈ،اچھے خاندان کی اوراکلوتی بیٹی ہے۔ایم بی بی ایس کررہی ہے،باپ بھی سرکاری افسر ہے۔گھر بھر سامان اور نیچے سے اوپر تک سونا تو آئےگاہی۔‘‘
(صوفیہ انگلی سے آہستہ بولنے کااشارہ کرتی ہے،اور مشاطہ کے قریب آکر آہستہ سے کہتی ہے)
صوفیہ:’’دیکھو بہن! یہ میرے لڑکے کو بالکل نہیں پسندہے،وہ تو صرف چائے بسکٹ پر عقد کرنا چاہتا ہے،امریکہ جاکر اور بھی پابند ہوگیا ہے،یہ تو میری خواہش ہے۔ارے بھائی!ہم نے خون پسینہ ایک کرکے پڑھایا،لکھایا،قابل بنایا اور ہم اس کے لیےکچھ نہ کرے۔ہم اپنے لیےتھوڑےہی مانگ رہے ہیں، یہ تو ان کے مستقبل میں ہی کام آئےگاناں! تھوڑا بہت ہم خرچ بھی کرلیںتو کیا حرج ہے؟ہم تو بچی کو بیٹی بناکر ہی رکھیں گے ناں؟‘‘
مشاطہ:’’ہاں تو صحیح بات کہی آپ نے، پھر کب چلیں لڑکی کو دیکھنے؟‘‘
صوفیہ:’’جب تم کہو۔‘‘
مشاطہ:’’ابھی چار بجے چلتے ہیں ،میں فون کر لیتی ہوں۔‘‘
(پرس سے فون نکال کر فون کرتی ہے۔)
صوفیہ: (خوش ہوکر)’’چلیے!جلدی ہوجائے گا تواور اچھا ہوگا،ویسے فیضان ایک ہفتے میں آرہا ہے،اس کے آنے سے پہلے بات چیت ہوجائے،تو اچھا ہوجائے گا۔‘‘
صوفیہ،صفورہ،مشاطہ تینوں لڑکی کے گھر جاتے ہیں۔گھر میں داخل ہوکر سلام کلام ہوتاہے۔سب بیٹھتے ہیں ۔
صوفیہ کا اکڑنا تو سا ویں آسمان پر تھا،بیٹے کو امریکہ بھیج کر ایسا سمجھتی تھی کہ دنیا میں صرف اس کا ایک لڑکا ہی گیا ہو۔لڑکی والوں کے گھر کی چیزیں دیکھ کر منہ ٹیڑھا کررہی تھی اور بیزار ی سے آئی ہو۔جیسے کانٹوں پر بیٹھی ہو۔
صوفیہ:’’جلدی کیجیے! صائمہ کو جلدی لائیے ،ہم کچھ نہیں کھائیں گے۔‘‘
لڑکی کی ماں:’’ جی جی!ابھی لائی ۔‘‘
صائمہ( لڑکی):’’السلام علیکم!‘‘
صوفیہ:’’وعلیکم السلام بیٹھو بیٹا! ‘‘(پورا نام اور پڑھائی پوچھتی ہے۔نیچے سے اوپر تک دیکھتی ہے ۔)
صوفیہ:’’صفورہ بیٹا!ذرا دیکھو تو بھابھی کو۔‘‘ (صفورہ ایسے چیک کرتی ہے جیسے بھابھی کو لے جاکر شوکیس میں رکھنا ہو۔)
صفورہ:’’مما! بال بہت چھوٹے ہیں ۔‘‘(صائمہ کے بال اٹھا کر چھوڑ دیتی ہے ۔)
صوفیہ:’’ذرا بیٹاچل کر بتائو اور چپل اتار کر میری بیٹی کے ساتھ ٹھہرو۔بس بیٹھ جائو۔‘‘
’’ٹھیک ہے بہن! اب ہم چلتے ہیں، بہت جلد جواب دیں گے، ساری ڈیمانڈ ہم خالدہ آپا کو بتادیں گے۔اللہ حافظ!‘‘
(تینوں گھر آتی ہیں اور باتیں کررہی ہوتی ہیں کہ گھر کی بیل بجتی ہے۔‘‘
صوفیہ:’’ذرا دیکھو !دروازے پر کون ہے؟‘‘(اپنی بیٹی صفورہ سے کہتی ہے۔)
صفورہ:(دروازہ کھول کر )’’السلام علیکم آنٹی! آپ؟اندر آئیے ناں۔مما!سارہ آنٹی آئی ہیں۔‘‘
سارہ (پڑوسن):’’ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ! کیسی ہو بیٹی؟‘‘
صفورہ:’’بس ٹھیک ہوں آنٹی!‘‘
پڑوسن:’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ صوفیہ بہن!‘‘(مشاطہ کو دیکھ کر)
’ارے!خالدہ باجی آپ یہاں کیسے؟‘‘
صوفیہ:’’ہاں!سارہ بہن بس فیضان کے رشتے کے سلسلے میں آئی تھی۔‘‘
سارہ:’’ماشاءاللہ رشتہ! اللہ آسان کرے۔کیاہوا؟‘‘
صوفیہ:(نا اُمیدی سے)’’نہیں سارہ! بس لڑکی کے بال بہت چھوٹے ہیں،لڑکی تو پڑھی لکھی ہے ،لیکن گھرانہ مجھے سمجھ نہیں آیا۔‘‘
سارہ: ’’خوب سیرت بھی نہیں ہے کیا؟دیکھو بہن خوب صورت، پڑھی لکھی لاکر شوکیس میں رکھنا ہے تمھیں؟ایسی لڑکیاں زیادہ دن گھر نہیں بسا سکتیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر رشتہ دیکھنا ہے تو لڑکی میں چار چیزیں دیکھو۔پہلا دین داری، خاندان، خوب صورتی، آخری دولت۔اگر یہ چاروں چیزیں مل جائیں تو سونے پہ سہاگہ ،اگر ان میں ایک چیز دیکھنا ہو تو تم دین داری کو ترجیح دو۔لڑکی کے اخلاق اچھے ہوں توتمھیں اور تمھارے لڑکے کو سکون دےگی۔
پتہ ہے ؟ہمارے رشتہ داروں میں شادی ہوئی، اتنی سادگی سے کہ لڑکے والے آئے لڑکی کو دیکھے اور پندرہ دن میں عقد کیا،عقد میں صرف پانچ لوگ آئے،نہ ڈھول نہ بجا،نہ بارات نہ مہندی، بس ولیمہ بہت ہی شان دار طریقے سے ہوا۔‘‘
صوفیہ:’’ارے بہن! لڑکا پڑھا لکھا نہ تھا ہوگا۔‘‘
سارہ:’’ارے نہیں نہیں!لڑکا تو ڈاکٹر ہے، حیدرآباد کے بڑے اسپتال میں نوکری ہے۔شادی جتنی سادگی سے ہوگی، اتنی برکتیں پیدا ہوں گی۔‘‘
(اچانک سے فیضان دروازے پر کھڑا نظر آتا ہے )
صفورہ:’’مما! بھیا آگئے؟ذرا دیکھیے تو سہی۔‘‘
فیضان:’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘
صوفیہ:’’وعلیکم السلام! یوں اچانک کیسا آنا ہوا؟‘‘ (گلے ملتے ہوئے)
فیضان:’’میں تو آپ لوگ کو Surprise کرنے والا تھا،لیکن یہاں آکر میں نے آپ لوگوں کی باتیں سن لی ہیں۔امی !کیا آپ مجھے جہنم رسید کرنا چاہتی ہے یا میں یہ سب رسم و رواج میں حصہ لے کر سماج والوں کے سامنے ذلیل و رسوا ہوں،اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہو جاؤ،اللہ معاف کرے مجھے،میں نے سارہ آنٹی کی ساری باتیں سنی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری شادی سادگی سے ہو۔‘‘
صوفیہ:’’خالدہ باجی لڑکی والوں کے یہاں فون کرکے بتائیں کے ہم آرہےہیں،عقد پڑھا کر لے جانے۔بیٹا !مجھے معاف کر دو، میں بہت بڑی غلطی کرنے جارہی تھی،اس جہیز کی بیماری نے تو مجھے اندھا کردیا،اللہ معاف کرے!‘‘
سارہ:’’ہر کوئی ایسی ہی شادی کرے تو سماج میں کوئی لڑکی بن بیاہی نہ رہے گی،اور نہ ہی لڑائی جھگڑے ،طلاق، خلع کی کہانیاں سامنے آئیں گی۔اللہ سب کو ہدایت دے۔آمین!‘‘

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر۲۰۲۴