اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن

 آزادی کیا ہے؟

عمومی طور پر آزادی سے مراد انسان کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی امیدوں اور آرزوؤں کو بغیر کسی رکاوٹ کی تکمیل کے مواقع حاصل ہوں ۔انسان یوں بھی آزاد ہی پیدا کیا گیا ہے۔ اس لیے اس کا پہلا حق تو یہی ہے کہ اسے پیدائش کا حق دیا جائے، اس کے بعد یہ کہ اس کو اس دنیا میں اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے کسی کا پابند اور غلام نہ بننا پڑے، اسے اپنے ارتقاء کے لیے سازگار ماحول میسر ہو، وہ ایک آزاد فضا میں جی سکے۔ دوسری طرف اس کی ضدغلامی و محکومی ہے۔اپنے جذبات، احساسات، خیالات، امیدوں،آرزوؤں اور اپنی ضروریات کے لیے وہ دوسروں کا محتاج ہو، اپنی مرضی سے کچھ نہ کر سکے۔عام طور سے غلامی اور آزادی کا یہ مطلب لیا جاتا ہے،لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں آزادی کا جو تصور دیا جا رہا ہے کیا وہ آزادی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پہلے تو آدمی بنایا یابنی آدم کہا،پھر اسے یہ منصب عطا کیا کہ وہ ایک اشرف مخلوق ہے، یعنی تمام حیوانات میں حیوان ناطق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہتر مخلوق بھی ہے اور پھر بتایا:

وَلَـقَدۡ كَرَّمۡنَا بَنِىۡۤ اٰدَمَ وَحَمَلۡنٰهُمۡ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ وَرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰهُمۡ عَلٰى كَثِيۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِيۡلًا ۞(سورۃ الاسراء: 70)

(یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔)
اس رب نے انسان کو عزت اور شرف کا مقام عطا کیا۔ دنیا کی ہر چیز کو اس کے لیے مسخر کر دیا ،اس کے ہاتھوں میں اسے دے دیا کہ ان کا استعمال وہ اپنے لیے کرے ،خشکی اور تری میں سواری عطا کی ،کھیتی ،پھل پھول، غذائیں دیں، اسےمال اور اولاد سے نوازا لیکن یہ سب کس لیے تھا ؟ آدمی کے لیے؟ اس آدمی کے لیےجسے اللہ تعالیٰ مہذب اور با اخلاق انسان بنانا چاہتا ہے۔ غالبؔ نے خوب کہا:‌

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساںہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

تو یہ آزادی جو اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہے، اسے حدود اور قیود کا پابندی بنایا گیا ہے، اس کی کچھ حد بندی(Limitations)بھی قائم کی، جسے ہم اخلاقی حدود کہتے ہیں۔ لہٰذا، ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں کچھ اصول و ضوابط کے پابند ہیں۔ اسی اصول اور ضابطے کی بنیاد پرتہذیب و کلچر کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔حالاں کہ تہذیب کے ساتھ ثقافت بھی آتی ہے، لیکن تہذیب و ثقافت میں فرق ہے ،تہذیب و کلچر کسی بھی قوم میں جو اخلاقی قدریں ہوتی ہیں، ان کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے، ان کا رہن سہن ،کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا ،طرز زندگی تہذیب اور کلچر کہلاتا ہے، لیکن آج جس کو ماڈرن تہذیب، ماڈرن کلچر کہا جارہا ہے، یہ مغرب سے آئی ہوئی تہذیب ہے ،اسے Western culture بھی کہہ سکتے ہیں۔اسے ترقی و کامیابی کی نشانی سمجھا جا رہا ہے، اگرچہ کہ یہ کوئی تہذیب نہیں ہے ،کوئی تمدن نہیں ہے ۔
یہ وہ کلچر ہے جو آزادی کے نام پر انسان کو بے روک ٹوک جانور بنا رہی ہے ،اسے شتر بے مہار کی طرح آزاد کر رہی ہے، ایسے بے لگام اصولوں پر چلنے کا عادی بنا رہی ہے، جہاں پہنچ کر انسان ایک حیوان سے بھی بدتر ہو جائے۔ رات کو سو کر صبح اٹھے اور یہ کہے کہ میں اس قدر آزاد ہوں کہ اب میں یہ خواہش محسوس کرتا ہوں کہ میرے جسم میں ایک مرد کا وجود باقی نہ رہے، مجھے عورت بننا ہے تواس کے لیے پورے انتظامات اس سماج نے مہیا کروا دیے ہیں۔ ڈاکٹرز کی ٹیم موجود ہے ،دوائیوں کا،آپریشن کا ،ا سے چینج کرنے کا پورا انتظام ہے ۔کچھ دنوں بعد وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس وجود کے ساتھ وہ مطمئن نہیں ہے اور یہ محسوس کرے کہ مجھے اب عورت سے مرد بننا ہے، تو پھر اس کے لیے پورے انتظامات مہیا کروا دیے جائیں گے،یا پھر وہ یہ کہے کہ مجھے مرد عورت دونوں سے بیزاری اور بوریت ہو گئی، اب مجھے کتا یا جانور بننا ہے یا بنا دیا جائے تو یہ بھی انتظام موجود ہے، اسے کتوں کا سا لباس کھال کی شکل میں پہننے کے لیے دستیاب ہو جائے گا ایک زنجیر گلے میں باندھ کر اسے کوئی پکڑ کر سڑک پر گھمائے گا تو اسے خوشی محسوس ہو گی، گھر اور مکان سے بیزار ہو کر ایک پنجرا یا کیج بنا دیا جائے گا،تاکہ وہ کتوں کی طرح اس میں رہے ،کتوں کی طرح کھانے پینے لگے،پیالے میں منہ ڈال کر پانی پینے لگے اور کہے کہ یہ میری آزادی ہے ۔ یہ انسانی تہذیب اخلاقی قدروں سے عاری سماج کی بھیانک تصویریں ہیں ۔

اخلاقی قدریں کیا ہیں؟اور کیوں ضروری ہیں؟

آدمی کو حیوانی اور مادی وجود کے ساتھ ایک بہترین انسان بھی بننا ہے ،اس لیے اسے اخلاقی قدروں سے آراستہ کرنے کا انتظام اس مالک حقیقی نے بہت عمدہ اور بہتر طریقے سے کیا، جس نے اس انسان کو پیدا کیا، انسانی فطرت سے وہ بخوبی واقف ہے۔ اس نے انسان کو محاسن اخلاق سے آراستہ کرکےاسے کچھ حدود کا پابند بنایا ۔ایک مکمل با اخلاق وبا کردار انسان کی تخلیق مقصود تھی، چناں چہ اس کے انتظام کے لیے زمین پر اپنے بندوں کو ،ایسے کامل بندوں کو جنھیںانبیاء کہا جاتا ہے، ان کی بعثت کا انتظام فرمایا اس کے لیے کتاب ہدایت اتاری ۔اس کتاب کے اندر قواعد و قوانین اور ضوابط بتائے گئےاور انسان کو اس کا پابند کیا۔ زندگی کیا ہے؟ اسے کیسے گزارنی ہے؟ یہ طریقہ بتایا، اسی اصول و ضابطے اور قواعد و قوانین پر چل کر اسے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ،یہ شرط طے کر دی۔
اخلاقی قدریں کیا ہیں؟ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ انسان کی بنیادی اخلاقیات سے مراد وہ اوصاف ہیں ،جن پر انسان کے اخلاقی وجود کی اساس قائم ہے اور ان میں وہ تمام صفات شامل ہیں، جو دنیا میں انسان کی کامیابی کے لیے بہرحال شرط لازم ہیں۔ خواہ وہ صحیح مقصد کے لیے کام کر رہا ہو یا غلط مقصد کے لیے۔‘‘
انھیں اخلاقی قدروں سے آراستہ ہو کر انسان حیوانی عناصر سے پاک ہو کر اس بلندی کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، جہاں وہ ایک بہترین مخلوق بن کر اپنی زندگی کے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ زندگی کیا ہے؟ اسے اس کا استعمال کس طرح کرنا ہے ؟ انھیں اخلاقی اور روحانی منازل کو طے کر کے انسان کو زمین پر ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے، جہاں سے ایک صالح اور بہترین معاشرہ وجود میں آئے۔

 موجودہ دور میں آزادی کا مطلب

ہم دیکھ رہے ہیں،بد قسمتی سے یہ دور بڑی تیزی سے اخلاقی قدروں میں گراوٹ کی طرف بڑھ رہا ہے، اگر اس بڑھتے ہوے سیلاب پر بند نہ باندھا گیا تو تہذیب وتمدن، ثقافت و کلچر ،اخلاقی قدریں، سب کچھ اس سیلاب کی نذر ہو جائیں گی۔اب ہم یہ دیکھیں کہ اس کی بڑی وجہ کیا ہے ؟ شاید یہی کہ اس وقت آزادی کا معنی اور مقصد بدل گیا ہے ،خود مختاری کے نام پر بہت سے خیالات و نظریات لوگوں پر حاوی کر دیے گئے ہیں ۔ انھیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اخلاقی قدریں ہماری آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ اخلاقی اقدار و محاسن جو انسان کے لیے ضروری قرار دی گئی تھیں، جن کے اصولوں پر ہی تہذیب کی بنیاد یں قائم ہوتی ہیں، اسے آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جا نے لگا اور نتیجہ یہ نکلا کہ سماج بہت سی برائیوں کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔سماج میں کئی طرح کے سنگین جرائم پنپ رہے ہیں۔
دن بدن ان جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کی خبریں ہم تک پہنچتی رہتی ہیں، جنھیں سن کر انسانیت شرمسار ہو جاتی ہے۔ فحاشی، عریانیت جنسی بے راہ روی، ناجائز جسمانی تعلقات، منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، پڑھی لکھی ماڈرن اور ایجوکیٹیڈ سوسائٹی سے لے کر Slum ایریا تک اس برائی کے سیلاب میں بہتے چلے جا رہے ہیں،جسے روکنا ایک مشکل کام ہو گیا ہے۔ آزادی بنام’’ میری زندگی، میری مرضی‘‘اس طرح کے بےہودہ نعروں سے نوجوانوں کو بےراہ رو کیا جا رہا ہے ۔خواتین بھی ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ کے تحت اپنے جسم کا سودا بخوشی کرنے اور اپنے جسم کو کسی ساتھی کے ساتھ شیئر کرنے میں عار محسوس نہیں کرتیں۔ اس پر ستم یہ کہ حکومتیں بھی اس پر قانون پر قانون پاس کیے جا رہی ہیں۔+LGBTQ اور لیو ان ریلیشن شپ کے لیے بنائے جانے والے قوانین اور اس کی بڑھتی ڈیمانڈ دنیا بھر میں ایسے پریشان کن حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ انسانیت کو اس اخلاقی بحران سے باہر نکالنا ناممکن سا ہو گیا ہے ۔
ابھی حالیہ کولکاتہ میں ہونے والے واقعے نے انسانیت کو پھر ایک بار شرمسار کر دیا ۔اس سے پہلے کے واقعات کیا کم تھے؟ سر اٹھانے کی مہلت بھی نہیں ملی تھی کہ واقعہ پر واقعے،آئے دن میڈیااور سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والی خبریں ہمارے چین و سکون کو تباہ کر رہی ہیں، لوگ بے اطمینانی اور غیر محفوظ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہو گئےہیں۔

 ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

ایسے حالات میں اس سسکتی اور دم توڑتی انسانیت کو سیدھی اور سچی پاک و صاف شاہ راہ پر گام زن کرنے کے لیے ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ اول تو یہ کہ بحیثیت انسان ہم انسانوں کو برائی کے دلدل سے باہر نکالیں، دوسرے یہ کہ ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے جس کو اللہ رب العالمین نے ہدایت سے نوازا ہے ،جسے بہترین منصب پر سرفراز کیا ہے، جس کے پاس وہ سرچشمۂ ہدایت اور نسخۂ کیمیا ہے جو انسانیت کو اس دکھ درد سے نجات دلا سکتا ہے،اور اسی کے ساتھ ایک ایسی اعلیٰ شخصیت کا اسوۂ حسنہ بھی موجود ہے جو مکارم اخلاق کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائز تھے، جس کے بارے میں قرآن نے کہا :

انک لعلیٰ خلق عظیم

اس ذمہ داری کے تحت ہمیں یہ بیڑا اٹھانا ہے اور لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ اس برائی کے سیل رواں کو روکنے کے لیےآگے بڑھیں،ورنہ آنے والی نسلیں اور صدیوں تک ان کی نسلیں تباہی و بربادی کے دلدل میں پھنس جائیں گی اور گرتی چلی جائیں گی ،اس لیے اس وقت ہمارے سامنے ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے،جسے ادا کرنے کے لیے ہمیں باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے اور گھر گھر ،گلی گلی، محلہ اور بستی، ملک و قوم تک، پوری دنیا تک اس پیغام کو پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اخلاقی قدروں کی بحالی کے لیے انسان کو پھر ان ہی اخلاقی قدروں کا پابند بنانے کی ضرورت ہے ۔ وہ قدریں جنھیں آج غلامی کہا جاتا ہے اور جس سے آزادی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کے نتیجے میں سماج تباہی اور بربادی کے دہانے پر کھڑا ہو چکا ہے۔اس سے نجات دلانے کی خاطر ہمیں باقاعدہ بہت ہی پلاننگ کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔

ایک نئےجہاں کی تلاش میں

ہم کو ایک ایسا جہاں تعمیر کرنا ہے، جہاں انسان اخلاقی کردار سے آراستہ ہو کر اپنے آپ کو رب کی دی ہوئی تعلیمات کے مطابق پابند بنائے اور اس بے قید آزادی سے آزاد ہو کر رب کا فرماں بردار بنے۔ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے جہاں سکون ہو، امن ہو ،چین ہو، جہاں حیا ءہو، عفت ہو، عزت و عصمت کی پاسداری ہو، خواتین کا احترام ہو، انسان کی جان مال محفوظ ہوں۔ماؤں بہنوں کی عصمتیں وعظمتیں تار تار نہ ہوں، جہاں سڑک پر چلنے والا ہر انسان محفوظ و مامون ہو اور جہاں ایک دوسرے کے جذبات ،احساسات اور خیالات کی قدر کی جائے ،کسی تہذیب و تمدن کو زبردستی کسی پر تھوپا نہ جائے،مادہ پرستی، جنسی بے راہ روی، مال و دولت کی ہوس، فضول خرچی، ایک دوسرے پر طاقت کے بل بوتے مسلط ہونے کا مزاج، کم زور ،غریب و پس ماندہ، مجبورو بے بس لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے غریب کو غریب تر امیر کو امیر تر بنانا، اللہ کی سرزمین پر بدنظمی بے اعتدالی قائم کرنا ؛ان تمام چیزوں سے لوگوں کو مامون اور محفوظ کیا جا سکے۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ ہو، ایک ایسے جہان کی تعمیر ہو جہاں آنے والی نسلوں کو تباہی کے دلدل میں دھنسنے سے بچایا جاسکے ۔
انسانیت کو یہ تعلیم دینی ہوگی کہ:

سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

خواتین کیا کریں ؟

خواتین میں یہ سمجھ پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک بازار کی شے نہیں،جن کے جسم کا سودا کر کے شادی کے بندھن سے فرار حاصل کیا جا رہا ہے ۔آج ہندوستان کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ شادی سے پہلے لیو ان ریلیشن شپ میں زندگی گزار نے کو پسند کررہا ہے،جب کہ 2022 ءکی سروے رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ 69 فی صد امریکی شادی کے بجائے لیو ان ریلیشن شپ میں زندگی گزار تے ہیں۔ تو یہ صورت حال ہندوستان کی بدلتی اور دن بدن بگڑتی تصویر پیش کر تی ہے۔خواتین کے جسم کا سودا کیا جانے لگے،اسے بازار میں سامان تجارت بنا دیا جائے، پورنوگرافی کی انڈسٹری کو فروغ دےکر بڑی بڑی کمپنیاں پیسے کمانے کی دھن میں لگی ہوئی ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ رپورٹس کے مطابق 97بلین ڈالر پورنوگرافی کی انڈسٹری سے حاصل کیا جا رہا ہے اور یہ صنعت سب سے زیادہ آمدنی والا بزنس بن گئی ہے، مزید یہ کہ ان کو آمدنی کا موقع سوشل میڈیا کے ذریعے ویب سائٹ کے ذریعے حاصل ہو رہا ہے۔ ان کی رپورٹ کے مطابق 13 سال سے 18 سال کی عمر کے 73 فی صدبچے اس ویب سائٹ کا وزٹ کرتے ہیں، یہ صورت حال ہمارے لیے ایک خطرناک الارم ہے۔ انسانی جسم کی تبدیلی اور انسانی جسم کا سودا کیا جا رہا ہے، یہ بھی ایک بڑی تجارتی منڈی ہے، جہاں انسانی جسم کی تبدیلی ،خود کو خوب صورت دکھانے کے شوق نے بے تحاشا پیسہ کمانے کے مواقع ان کمپنیوں کو فراہم کیے۔اس کے نتیجے میں ماحول اس قدر بگڑ چکا ہے کہ اس کا اندازہ کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے، مگر کیا کہیں تہذیب حاضر کی اس چکاچوند کو؟ جس کی دھن میں لوگ مدہوش ہو چکے ہیں،اخلاقی قدروں سے عاری ہو چکے ہیں۔ مغرب کی مکاریوں اور عیاشیوں کے نت نئے ہتھکنڈوں سے بچنے کا جو طریقہ ہے وہ یہی ہے کہ ہم خواتین کو بیدار کریں، خبردار کریں، ہوشیار کریں اور یہ بتائیں کہ یہ تمام چیزیں چند روزہ ہیں، ان کی مدت بہت مختصر ہے اور یہ انسان کو تباہی کے اس دلدل میں ڈالنے والی ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہے ۔
آئیے !اس جہاں کی تلاش کریں، اس سفر پر چلیں جو کامیابی اور کامرانی کی طرف لے جاتا ہو، جس کی منزل ہمیں سرخ رو اور کامیاب کرنے والی ہو اور جو ہمیں سکون اور امن مہیا کرے،ہم ایسے سفر کی جانب رواں دواں ہوں۔

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے