مغرب کے بعد کا وقت تھا۔ فرزین حسب معمول مسجد سے لوٹ کر اپنا ہوم ورک یاد کررہا تھا۔
’’18 سپٹمبر، بامبو ڈے ‘‘انگریزی میں وہ جلدی جلدی کچھ دہرا رہاتھا۔ قریب ہی تخت پر دادی اماں شام کے اذکار میں مشغول تھیں۔ فرزین کے انگریزی جملے ان کی سمجھ سے باہر تھے۔ انھوں نے اپنا وظیفہ مکمل ہونے پر فرزین سے دریافت کیا کہ وہ کیا دہرارہا ہے؟
فرزین کو دادی ماں کا پوچھنا بہت اچھا لگا۔ وہ بڑوں کے انداز میں دادی ماں کو سمجھانے لگا:’’ دادی ماں! میں جو انگلش میں یاد کررہا تھا اصل میں وہ ہوم ورک ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں 18 سپٹمبر کو بامبو ڈے منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بامبو کے پیداوار میں اضافہ اور عوام میں روز مرہ کی زندگی میں اس کے استعمال کی اہمیت بتانا ہوتا ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘ دادی اماں نے بھی حیرت سے آنکھیں پھیلا کر اس کی باتیں سنیں۔فرزین کو لگا کہ اب وہ بھی بہت معلومات رکھتا ہے۔دادی ماں سے زیادہ۔
’’دادی ماں! آپ جب اسکول جاتی تھیں، آپ نے بامبو کے متعلق کچھ نہیں پڑھا تھا؟‘‘فرزین نے پوچھا۔
دادی اماں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے بلایا،اور اپنے قریب بٹھا کر کہنے لگیں:’’ بیٹا!ہمیں بامبو ڈے تو معلوم نہیں، البتہ ہماری دادی نے بچپن میں ہمیں بامبو کے استعمال پر ایک سچی کہانی سنائی تھی۔جو مجھے آج بھی یاد ہے۔‘‘
’’آپ کی دادی نے سنائی تھی۔‘‘
اب فرزین کی حیرانی دیدنی تھی۔’’ کیا کہانی تھی؟ہمیں بھی سنائیےپلیز!‘‘
’’ نہیں نہیں،ابھی نہیں! آپ اپنا سبق یاد کرلیجیے۔ کھانے اور عشاء کے بعد سونے سے قبل ضرور سناؤں گی۔‘‘
فرزین نے جلدی سے اپنی پڑھائی مکمل کرلی۔ ابو کے ساتھ مسجد میں عشاء کی نماز ادا کی، اور کھانے کے بعد فوراً دادی ماں کے پاس آبیٹھا۔آج اس نے سلانے کے لیے مما کو بھی تنگ نہیں کیا۔ دادی اماں کہانی جو سنانے والی تھیں۔ بامبو کی سچی کہانی۔
’’فرزین میاں ! سنیے وہ بامبو کی سچی کہانی۔‘‘ دادی اماں گویا ہوئیں۔
’’ ایک تاجر کو اپنے بزنس کے لیے کچھ رقم کی شدید ضرورت آپڑی۔اس شہر میں اس کا کوئی جان پہچان والا نہیں تھا۔وہ ایک امیر شخص کے پاس گیا اور ایک ہزار دینار کا مطالبہ کیا۔‘‘
’’ یہ دینار کیا ہے دادی ماں؟‘‘ فرزین نے پوچھا۔
’’بیٹا !یہ بنی اسرائیل کے زمانے کی کرنسی تھی۔ ‘‘دادی اماں نے سمجھایا۔
’’ دادی ماں !آپ کی دادی ماں بنی اسرائیل کے زمانے کی ہیں؟‘‘فرزین کے بھولے پن پر دادی اماں بے اختیار ہنس پڑیں۔
’’نہیں بیٹا! یہ واقعہ یعنی جو سچ میں ہوا، بنی اسرائیل کے دور کا یعنی پیارے نبی ﷺ کے دور سے بھی بہت پہلے زمانے کا ہے۔‘‘
دادی اماں نے گہری سانس لی، اور فرزین کو حوالہ دیا کہ یہ واقعہ پیارے نبیﷺ نے صحابہؓ کو سنایا اور صحابہؓ نے اپنے بعد والے لوگوں کو سنایا، انھوں نے اپنے بعد والوں کو،اس طرح یہ ہم تک پہنچا۔
’’ ہاں تو وہ امیر شخص ایک ہزار دینار دینے کے لیے تیار تو ہوگیا، مگر اس نے گواہ مانگا۔‘‘
تاجر نے کہا : ’’میں اس شہر میں اجنبی ہوں۔ میرا وکیل اللہ اور گواہ بھی وہی ہے۔‘‘
اجنبی تاجر سے یہ جواب سن کر مال دار شخص مان گیا اور اس نے ایک ہزار دینار وقت مقررہ کے لیے بطور ادھار اسے تھمادیے۔اب وہ ہزار دینار لے کر بحری سفر پر روانہ ہو گیا ۔وہاں جب اس نے اپنا کام مکمل کر لیا تو واپسی کے لیے سواری کی تلاش میں آیا کہ وقت مقررہ پر وہ آ کر امانت لوٹا دے، مگر وہاں کوئی سواری نہ تھی جس پر سوار ہو کر وہ قرض دینے والے کے پاس جاسکے ۔یہ صورت حال دیکھ کر اس نے سمندر قریب سے ایک بامبو کا ٹکڑا لیا اور اس کے اندر کے کھوکھلے حصے میں ایک ہزار دینار رکھے اور ایک نوٹ لکھ دیا، اور اس کا منہ کیل ڈھونڈ کر بند کر دیا، اور اس کو ہزار دینار کے مالک کی جانب سمندر میں پھینک کر روانہ کر دیا اور ساتھ ہی سمندر کی کنارے کھڑا ہو کر کہنے لگا: ’’اے میرے اللہ !تجھے معلوم ہے کہ میں نے تجھے گواہ بنا کر اس مال دار شخص سے ایک ہزار دینار ادھار لیےتھے۔آج جب رقم لوٹانے کا وقت آگیا ہے تو مجھے کوئی سواری نہیں مل رہی ہے ۔اے اللہ! اب میں یہ امانت تیرے سپرد کرتا ہوں ۔
‘‘وہ بامبو کا ٹکڑا سمندر کی لہروں میں گم ہو گیا ۔
ادھر مال دار شخص جس نے ادھار دیا تھا ،مقررہ تاریخ پر یہ دیکھنے کے لیے کہ شاید کوئی جہاز یا کشتی اس تاجر کو لے کر آرہی ہو ۔
وہ کنارے پر کھڑا تھا ،مگر ادھر تو کوئی کشتی نہ جہاز ۔اچانک سمندر کی لہروں سے ایک لکڑی کا ٹکڑا ہچکولے کھاتاہوا ادھر آتا دکھائی دیا۔ وہ غیر ارادی طور پر رک گیا۔سمندر کی ایک تیز لہر آئی اور وہ لکڑی کا ٹکڑا ساحل سمندر پر اس کے قدموں میں آگرا۔ اس نے بے اختیار اس لکڑی کے ٹکڑے کو اٹھالیا۔ دیکھتا کیا ہے کہ وہ ایک بامبو کا ٹکڑا ہے ۔اس نے جلدی سے اسے پھاڑا تو اس میں سے ایک ہزار دینار اور ایک رقعہ برآمد ہوا۔ لکھا تھا:
’’اللہ کی قسم !میں نے سواری کی بے حد کوشش کی تاکہ آپ کا مال اپ تک پہنچاؤں مگر مجھے کوئی سواری میسر نہ آسکی۔ اللہ کو گواہ بنا کر یہ رقم آپ کو بھیج رہا ہوں ۔‘‘وہ شخص خوشی خوشی اللہ کا شکر ادا کرتے اپنی رقم لیے گھر لوٹ گیا۔
ادھر دادی ماں کہانی سنا تے سناتے تھک گئیں ، ادھر فرزین کہانی کو تصور کرتے کرتے ۔دادی ماں نے پانی کا گلاس لیا اور پینے لگیں۔
’’دادی ماں!کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟بغیر فون بغیر انٹرنیٹ۔؟‘‘ فرزین نے سوال کیا۔
’’ ہاں راجا! جب بندہ اللہ پر یقین رکھے۔ اس کو قادر مطلق سمجھے ۔پھر اللہ کے حکم سے کائنات کی ہر چیز سمندر ، اس کی لہریں، ہوائیں بامبو جیسی بے جان و بے وقعت چیزیں بھی بندے کے تابع ہوجاتی ہیں۔ بس ہم اللہ کے تابع یعنی اطاعت گزار بن جائیں۔‘‘اور فرزین سوچنے لگا کہ دادی اماں کتنا نالج رکھتی ہیں!
٭ ٭ ٭
0 Comments