درس قرآن
زمرہ : النور

إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَیٰ أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم لبِہِ إِنَّ اللَّہَ کَانَ سَمِیعًا بَصِیرًا

(سورۃ النساء: 85)
(اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے حوالے کر دو۔ اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کر رہے ہو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، یقیناً اللہ تمھیں بہت عمدہ نصیحت کر ہا ہے۔ بے شک وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔)

سورۂ نساء کا مرکزی موضوع

قرآن کریم کی تمام ہی سورتوں اور ان کے موضوع اور مطالب میں گہرا ربط و تعلق پایا جاتا ہے ،مگر ہر سورۃ اپنے مرکزی موضوع کے اعتبار سے منفرد اور ممتاز ہوتی ہے۔
یہ سورۂ بقرہ کے بعد سب سے مفصل احکامی سورت ہے۔ آغاز خدا کے تقویٰ اور وحدت بنی آدم سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد خاندان کی تنظیم، سماج کی تشکیل، اور تہذیب و تمدن کے ارتقاء سے متعلق تفصیلی ہدایات ہیں۔ اس میں جاہلیت کی تمام غلط رسوم و رواج کی بیخ کنی کی گئی ہے۔ معاشرے میں ظلم و عدوان کی تخم ریزی کرنے والوں کے لیے جہنم کی وعید ہے۔
مسلم امت کی ذمہ داریاں، باہمی اخوت، امانت داری، عدل و انصاف کے قیام، فواحش کے انسداد وغیرہ پر تفصیلی بحث ہے۔

ما قبل اور ما بعد آیات سے ربط

 ماقبل آیات میں اہل کتاب یہود کو تنبیہ کی گئی ہے، جنھوں نے امانت اور عدل کو بالکل فراموش کر دیا تھا، اور مسلمانوں کو یہ نصیحت ہے کہ اہل کتاب سے چھین کر امانت اور شریعت تمھارے سپرد کی جا رہی ہے تو تم بھی اس امانت میں خیانت کرنے والے نہ بن جانا اور ہر حال میں عدل پر قائم رہنا۔
اس کے بعد کی آیات میں اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کے ساتھ اولو الأمر کی اطاعت کی تلقین ہے،اور تنازعات اور اختلافات کی صورت میں کتاب اللہ اور سنّت رسول کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت ہے۔

شانِ نزول

 بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت فتح مکّہ کے موقع پر نازل ہوئی، جب آپﷺ نے خانۂ کعبہ کی کنجی عثمان بن طلحہ کے حوالے کی ،جو زمانۂ جاہلیت میں بھی کعبہ کے کلید بردار تھے۔ اور آپﷺ نے فرمایا :
یہ تا ابد تمھارے پاس رہے گی، اسے تم سے ظالم شخص ہی چھینے گا۔ اس کے بعد اِس آیت کی تلاوت فرمائی:

اِن اللہ یأمرکم ان تؤدو ا الامانات اِلی اھلہا

 مگر اس روایت کی سند ضعیف ہے۔

تفسیر آیات

 ’’اِن اللہ یأمرکم…‘‘ تاکیدی حکم ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے کہ ادائے امانت اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا واجب ہے۔خطاب امت مسلمہ کے ہر فرد سے ہے اور من حیث الجماعت حکّام اور اہل اقتدار سے ہے کہ یہی ان کی ذمہ داری ہے اور یہی امت کا بہترین کردار ہے۔
أن تؤدوا الامانات اِلیٰ أ ھلہا

ٔودّی یؤدی تأدیۃ اور أَداء۔ کسی شے کو مستحق کے حوالے کرنا۔

اِلیٰ اھلہا کی مزید تاکید ہے کہ حقیقی مستحق، مالک، مؤتمِن کو ادا کر دینا۔
الأمانات یہ أمانۃ کی جمع ہے اور مصدر ہے مفعول کے معنیٰ میں، ودیعۃ رہن، عاریہ، لقطہ وغیرہ۔ یہ لفظ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ ہر وہ مال یا قیمتی چیز جو بغرض حفاظت کسی کو ودیعت کی جائے۔ وہ قیمتی شے جس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔
جمع کا صیغہ تنوع اور کثرت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس میں عہدہ، منصب، ذمہ داریاں نیز وہ تمام امانتیں جو ہمارے رب نے ہمیں عنایت کی ہیں، قوت، صلاحیت، مال و اولاد کی صورت میں۔
ان امانتوں کا آغاز امانت کبریٰ سے ہوتا ہے، جس کا ذکر سورۂ احزاب،آیت : 27 میں ہے:

 اِنَّا عَرَضنَا الاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ وَالجِبَال…

وہ امانت جسے اٹھانے کے لیے آسمان و زمین اور پہاڑ تیار نہ ہوئے۔ اس کے بار سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ وہ امانت کیا ہے؟ وہ امانت ہے آزادیِ فکر و عمل کے باوجود صراط مستقیم پر گام زن رہنا اور عدل و انصاف کے ساتھ خلافت کا حق ادا کرنا، جیسا کہ اللہ نے حضرت داؤد ؑ سے فرمایا:

یا داؤد اِنا جعلنٰک خلیفۃً فی الارض فا حکم بین الناسِ بالحق و لا تتبع الہویٰ فیضلک عن سبیل اللہ۔ (سورۃ ص:ٓ 62)

(اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر اور خواہش نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔)
دین کی شہادت اس کی تبلیغ اور دعوت بھی عظیم امانت ہے، یعنی وہ تمام وسائل و ذرائع، قوت اور صلاحیت جو کسی فرد کو میسّر ہوں، انھیں کام میں لا کر غلبۂ دین کی جد و جہد کرنا۔ اسی امانت کی ادائیگی کے لیے یہ امّت برپا کی گئی ہے۔ اسلام کی دعوتی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم تاجروں کی امانت و دیانت اور اخلاق حسنہ ہی قبول اسلام کا سب سے بڑا سبب رہا، مگر بد قسمتی سے آج مسلمانوں کا یہ امتیاز باقی نہ رہا۔
پھر وہ امانتیں ہوتی ہیں جو انسانوں کی تفویض کردہ ہیں یعنی مال و اسباب کی امانت۔ اس کی ادائیگی کی تاکید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

فلیؤد الذّی أوتُمِنَ أمانتہ و لیتَق اللہ ربّہ (سورۃالبقرۃ: 382)

(جس کو امین بنایا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت کو ادا کردے اور ڈرے اللہ سے جو اس کا رب ہے۔)
وہ امانتیں بھی ہوتی ہیں جن کا تعلق حکومت اور رعایا سے ہوتا ہے، جیسے حقوق کی ادائیگی ،نصح، خیر خواہی، حق رائے دہی کا صحیح استعمال، ورنہ نا اہلوں کو عہدہ و منصب دینا بھی خیانت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :

اِذا وُسّد الأمر اِلیٰ غیر اہلہ فانتظروا الساعۃ

(جب امور مملکت نا اہلوں کے سپرد کر دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔)
اس اعتبار سے اداء امانت اور قیام عدل میں گہرا تعلق ہوتا ہے، اگر اقتدار غیر عادل لوگوں کو مل جائے تو عدل کا قیام نا ممکن ہوتا ہے۔ اس لیے امت کے ارباب حلّ و عقد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ذاتی مفاد اور اعزّہ پروری سے بچ کر صحیح انتخاب کریں۔ نا اہل اور خواہش مند کو ہرگز نہ دیں۔ حضرت ابو ذرؓ نے ایک بار آپ ﷺ سے خواہش کی کہ کہیں کی ولایت میرے سپرد کی جائے تو آپﷺ نے فرمایا :

یا أبا ذر! انک ضعیف و اِنّہا أمانۃ و انہا یوم القیامۃ خزی وندامۃ، اِلا من أخذہا بحقّہا و أدّیٰ الذی علیہا(مسلم : 5281)

افسوس! اس وقت مسلم امّت میں ے عہدہ اور منصب کی خواہش بڑھ گئی، کیوں کہ احساس ذمہ داری مفقود ہے، جب کہ ہر عہدہ اور ذمہ داری مسئولیت رکھتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:

ما من والٍ یلی رعےۃً من المسلمین فیموت و ہو غاش لہم اِلّا حرّم اللہ علیہ الجنّہ (صحیح بخاری)

( کوئی شخص مسلمانوں کا ذمہ دار بنتا ہے پھر وہ مرتا ہے ان کے ساتھ خیانت کرتے ہوئے تو اللہ ایسے شخص پر جنت کو حرام کر دے گا۔)
خیانت یہ بھی ہے کہ ڈیوٹی کے اوقات میں کمی کرنا، مقرر تنخواہ سے زیادہ (Allowances)لینا، اپنے عہدے کے زیر اثر لوگوں سے تحفے تحائف لینا۔
سیرت کی کتابوں میں ایک شخص کا واقعہ مذکور ہے جس کو آپﷺ نے زکوٰۃ اور جزیہ وصول کرنے پر مامور کیا، جب وہ واپس آیا تو زکوٰۃ اور جزیہ کی رقم آپﷺ کے حوالے کر دی اور کچھ تحائف کی طرف اشارہ کیا کہ یہ مجھے ملا ہے۔ تو آپﷺ نے ناگواری ظاہر کی اور فرمایا:

 أفلا قعدت فی بیتِ أبیک و امک فنظرت أیہدیٰ لک أم لا

(صحیح بخاری)
( تم اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھ کر دیکھتے کہ تم کو یہ تحائف ملتے ہیں یا نہیں۔)
سبحان اللہ! کس قدر بلیغ ہے خدائے حکیم کا کلام۔ اداء امانت کا فریضہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے اور نبی کریم ﷺ نے بھی ہدایت اور رہ نمائی، توضیح اور تشریح کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا۔
آپﷺ کا ارشاد ہے :

المُتَشَارُ مؤتمنٌ

(جس شخص سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔)
یعنی خیر خواہی سے مشورہ دینا اور پھر اس کی حفاظت کرنا، افراد کی بھی ذمہ داری ہے اور جماعتوں کی بھی۔ جیسے Advisory Boardپارلیمنٹ، دستور ساز کونسل اس طرح مساجد، مدارس، اوقاف، تنظیمیں اور تحریکات وغیرہ شامل ہیں۔ جو امانت اور دیانت کے بغیر مستحکم نہیں رہ سکتیں۔
غرض امانت کا پاس و لحاظ رکھنا اہل ایمان کی لازمی صفات میں سے ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا:

و الّذین ھم لا مٰنٰتہم و عہدھم راعون

(سورۃ المؤمنون : 8،سورۃالمعارج : 23)
وہ بندے جو اپنے رب کے معاملے میں بھی خائن نہیں ہوتے اور نہ بندوں کے ساتھ عہد شکنی اور خیانت کرتے ہیں ،اداء امانت اور ایفاء عہد کی تاکید آپﷺ اپنے خطبوں میں کثرت سے کرتے تھے۔

’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ و لا دین لمن لا عہدلہ.‘‘

اسے منافق کی علامت قرار دیا ہے :

آیۃ المنافق ثلاث، اذا احدّث کذب و اذا وعد أخلف و اذا اوتمن خان.

افسوس اتنی واضح تنبیہ کے بعد بھی افراد امّت کے اندر ان تینوں صفات میں لا پرواہی پائی جاتی ہے۔ ان اخلاقیات کی حساسیت باقی نہیں رہی جیسے بد عہدی اور خیانت سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرض، تجارتی معاہدے اور دیگر مالی معاملات کو لکھنے اور گواہ بنانے کی تاکید کی ہے۔
(سورہ البقرۃ: 282)
مگر اس کے باوجود لکھنے اور گواہ بنانے کو بے اعتمادی کی دلیل سمجھا جاتا ہے، خاص طور سے جب معاملہ دوست و احباب کا ہو۔ جب کہ کتنے ہی تعلقات اس کی وجہ سے خراب ہوتے ہیں۔
عوامی ملکیت، سرکاری اداروں کے ساتھ امانت و دیانت کے برعکس معاملات ہوتے ہیں، اور اس پر جواب دہی کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ جیسے ٹیکس کی کٹوتی، سرکاری بِلوں کی ادائیگی میں غفلت اور تساہل، ملازمت کے اوقات میں ذاتی کام کرنا، بلا ٹکٹ سفر کرنا وغیرہ، اور اس خیانت پر ندامت کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔

و اذا حکمتم بین الناس أن تحکموا بالعدل

 اس کے مخاطب ارباب حکومت، اولو الامر ،ولاۃ و قُضاۃ ہیں مگر انفرادی طور پر ہر فرد اپنے دائرہ ٔکار میں اس کا مکلّف ہے۔ انصاف سب انسانوں کے لیے عام ہونا چاہیے، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ۔عدل یہ ہے کہ جس کا جو حق واجب ہوتا ہے، بغیر کمی بیشی کے اس کو ادا کریں ،خواہ صاحب حق کم زورہو یا طاقت ور، وہ ہمیں محبوب ہو یا مبغوض۔
قانون کے دائرے میں امیر، غریب، شریف ،کالے، گورے کا کوئی فرق نہ ہو۔ انصاف خریدنی و فروختنی چیز نہ بن جائے۔ کسی دباؤ، کسی زور و اثر، خوف و لالچ کو اس پر اثر انداز ہونے کا موقع نہ ملے۔
احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عدل کے مکلّف اور مستحق تمام رعایا اور حکام ہیں۔ قال النبیﷺ :

ان المقسطین عند اللہ علیٰ منابر من نور الذین یعد لون فی حکمہم و اہلیہم و ما ولّوا.

) نبی ﷺ نے فرمایا:
یقیناً انصاف کرنے والے اللہ کے پاس نور کے مناروں پر جلوہ افروز ہوں گے جو عدل کرتے ہیں اپنے فیصلوں میں اور گھر والوں میں اور جس کے وہ ذمہ دار ہیں۔)
خدا کے یہاں امام عادل کی بہت فضیلت ہوگی۔ الامام العادل فی ظلّ العرش وہیں عدل سے غفلت پر وعید بھی دی گئی۔ قال النبیﷺ :

القضاۃ ثلاثۃ، اثنان فی النار و واحد فی الجنۃ رجلٌ عرف الحقّ فقضیٰ بہ( بلوغ المرام)

( قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ،ان میں سے دو جہنم میں اور ایک جنت میں ہوگا۔)
عدل کی مزید توضیح کے لیے اسی سورہ کی آیت: 531کا مطالعہ بھی مفید ہوگا، جس میں اہل ایمان کو عدل کو قائم رکھنے اور اللہ کے لیے گواہی دینے کی نصیحت کی گئی ہے۔ مزید فرمایا :

فلاتتبعوا الہویٰ ان تعدلوا(الآیہ)

یعنی اللہ کی ہدایت چھوڑ کر اگر تم نے اپنی خواہشات و بدعات کی پیروی کی تو تم عدل و قسط سے دور ہو جاؤ گے۔
دشمن قوم کے ساتھ بھی عدل کی ہدایت دی گئی ہے :

و لا یجرمنکم شنآن قومٍ علیٰ ان لا تعدلوا اعدلوا ہوا أقرب للتقویٰ

(سورۃالمائدہ : 8)
(کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو ،یہ خدا ترسی سے زیادہ قریب ہے۔)
ملک کی صورت حال اور جارحانہ رویوں پر ہمارا سلوک کیسا ہو؟ان آیات میں عظیم پیغام ہے جسے عام کرنا ہمارا فرض ہے۔
تہدیب و تمدن کی تمام ترقیوں، انسانی حقوق کے چارٹر، مساوات کے بلند بانگ دعووں کے باوجود پوری دنیا میں حقیقی انصاف نہیں پایا جاتا۔

اِن اللہ نعّما یعظکم بہ

یہ نعم ما کا مخفف ہے۔ اللہ تمھیںبہت عمدہ نصیحت کر رہا ہے ،اس صریح حکم کو اللہ تعالیٰ نے موعظت سے تعبیر کیا ،کیوں کہ نصیحت قلب پر زیادہ مؤثر ہوتی ہے اور رضاو رغبت کے ساتھ عمل پر آمادہ کرتی ہے۔

ان اللہ کان سمیعاً بصیراً

 یہ جملہ اس پورے معاملے کو اللہ کی نگرانی اس کی رجاء و خشیت سے وابستہ کر دیتا ہے، اور یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ فکر و نظر کے ساتھ امانت اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔
امام قرطبیؒ لکھتے ہیں :

’’ه‍ٰذه الآية من امّہاتِ الاحکام تضمنت جمیع الدین و الشرع“
اللہم و فقنا للعمل بہا، اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا.

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ستمبر۲۰۲۴