مجرم کون ؟ سماج، حکومت یا ہمارا نظام؟

کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو
سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں

حادثے زندگی کا حصہ ہیں۔ کسی برے واقع یا تکلیف دہ حادثے کو سننا اور پھر اس پر تبصرہ کرنا بھی معمول ہے، کسی اچھی خبر کے ملنے یا پڑھنے پر دل کا خوش ہو جانا بھی معمول کا حصہ ہے۔ گذشتہ چند روز پہلے پوری دنیا اولمپکس کے پیچھے تھی، کس ملک نے کتنے میڈلز جیتے؟ کس کھلاڑی کی کارکردگی کیا رہی؟قریب قریب ہر کوئی جیتنے والے کے لیے خوش اور ہارنے والے کے لیے افسوس کا اظہار کر رہا تھا ۔یہ خبریں ٹی وی، اخبار یا آپ کے موبائل فون تک محدود تھے۔ پر نو اگست کی رات ایک ایسا حادثہ بلکہ حادثہ نہیں بربریت کہیے، پیش آیا جس نے نہ صرف ایک لڑکی کی زندگی کو دردناک انجام تک پہنچایا، بلکہ اپنے ساتھ 48.45 فی صدہندوستانی عورتوں کے دل میں موجود احساس تحفظ کا بھی قتل کر دیا۔ یہ خبر ہماری اسکرین یا اخبارات تک محدود نہیں رہی ،بلکہ گلی کوچوں سے احتجاج اور غصے کی شکل میں نکلتی ہوئی پورے ملک تک پھیل گئی۔ مجرم صرف ایک لڑکی یا اس کے خاندان کا مجرم نہیں رہا، بلکہ اس سماج میں رہ رہی ہر ایک لڑکی کا مجرم ہے۔
یہ حادثہ خصوصی طور پہ میرے لیے نہایت دل شکن ہے ،کیوں کہ یہ حادثہ میرے شہر کولکاتہ میں پیش آیا۔ آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل وہی اسپتال ہے جہاں میں نے پہلی دفعہ آنکھیں کھولیں، میری والدہ ہفتوں ایڈمٹ رہیں، میرے بھائی کا آپریشن ہوا، میرے والد یہاں کے مریضوں کو آمد و رفت کی سہولت دیتے رہیں اور نہ جانے کتنی ہی بار ہم نے اس اسپتال سے اچھی اور بری خبریں وصول کیں۔ گھر سے محض 10 منٹ کی دوری پر موجود یہ اسپتال بچپن سے ہماری ہر بیماری کا مسیحا تھا۔ یہاں کے ڈاکٹروں کی ہم نے عزت کی ہے اور ہمیشہ قدر کی نظروں سے دیکھا ہے۔ اسی اسپتال کی ایک ٹرینی ڈاکٹر کی دل دہلا دینے والی خبر جب آنکھوں کے سامنے آئی تو یقین ہی نہیں آیا کہ ایسا کیسے ممکن ہے ، نہ جانے کتنی بار کتنے چینلوں پر میں نے اس خبر کو سنا اور دیکھا۔
31 سالہ ٹرینی ڈاکٹر 36 گھنٹے ڈیوٹی کرنے کے بعد جب آرام کے لیے کانفرنس ہال میں جاتی ہے تو اسے کیا پتہ کہ اندر کیا ہونے والا ہے؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق صبح تین بجے سے پانچ بجے کے بیچ اس کے ساتھ زیادتی کی انتہا کی گئی، اس کے چہرے پر زخم، آنکھوں میں چشمے کی کرچیاں اور رستا خون، جسم کے ہر حصے پر زخم جو کہ جنسی تشدد کا چیخ چیخ کر پتہ بتاتے ہیں، ٹوٹی ہڈیاں اور گلا گھونٹ کر جان سے مار دینے کی رپورٹ جو کہ قریب قریب چار صفحات پر مشتمل ہے، سامنے آئی۔ ماں باپ کے مطابق گھنٹوں منت سماجت کے بعد ان کو بیٹی کی شکل دکھائی گئی، ان کے مطابق لڑکی کی آنکھوں اور منہ سے خون رس رہا تھا، ٹانگیں رائٹ اینگل میں اور جسم نیم برہنہ حالت میں تھی۔ لڑکی کے اس حالت کو اسپتال انتظامیہ اور پرنسپل کی طرف سے خود کشی قرار دیا گیا جو کہ انتہائی لا پرواہ ردعمل تھا۔ سرکار کی بھی پوری کوشش رہی کہ کیس کسی طرح دبایا جائے۔ اب تک ایک مجرم کو گرفتار کیا گیا ہے اور پرنسپل نے استعفیٰ دے دیا ہے،پراحتجاج جاری ہے۔
قتل کیس کی سماعت منگل (20 اگست) کو سپریم کورٹ میں ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس ڈی وائی چندر چور نے چیف منسٹر ممتا بنرجی کی حکومت سے تیکھے سوالات کیے۔چیف جسٹس نے ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سینیئر وکیل کپل سبل سے پوچھا کہ جب آر جی کار میڈیکل کالج اور اسپتال میں توڑ پھوڑ کر رہے تھے تو پولیس کیا کر رہی تھی؟چیف جسٹس نے کہا کہ کولکاتہ عصمت دری اور قتل کا معاملہ ایک سنگین معاملہ ہے ،کیوں کہ اس کا تعلق صحت کارکنوں کی حفاظت سے بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ خاتون ڈاکٹر کے خلاف کیے گئے جرم کا علم ہونے کے بعد میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر سندیپ گھوش نے اسے خودکشی قرار دیا۔

جہاں بی جے پی، ممتا بنرجی سے استعفیٰ کی مانگ کر رہی ہے، وہیں راہل گاندھی کا بیان آیا کہ میں متاثرہ خاندان کے ناقابل برداشت درد میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انھیں ہر قیمت پر انصاف ملنا چاہیےاور مجرموں کو ایسی سزا ملنی چاہیے کہ یہ معاشرے میں ایک مثال بن جائے۔
بنگال حکومت اور پولیس کی لا پرواہی اور غیر ذمہ داری نے پورے صوبے میں ان کے اعتبار کو ختم کر دیا ہے۔ حیرت ہے کہ ممتا بنرجی جو خود چیف منسٹر، ہوم منسٹر اور ہیلتھ منسٹر ہیں ،اپنے ہی ریاست میں احتجاج کر رہی ہیں اور یہ احتجاج کس کے خلاف ہے ،کوئی نہیں جانتا۔
ہندوستانی حکومت تقریبا ًہر ریاست میں عورتوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے، چاہے حکومت بی جے پی کی ہو، کانگریس کی ہو یا ترنمول کی۔
2012 ءکے دلی نربھیا کیس، 2019 ءکے حیدرآباد کے ڈاکٹر کیس اور 2020 ءکے ہاتھرس دلت کیس کے بعد بڑے پیمانے کے احتجاج کے ساتھ یہ 2024 ءکا سنگین کیس ہے۔ یہ معاملہ محض عصمت دری کا نہیں بلکہ ملک بھر میں عورتوں کے کام کی جگہ حفاظت اور خصوصاً ڈاکٹروں کے تحفظ کا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 75 فی صدڈاکٹرکسی نہ کسی صورت میں جسمانی تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں ریپ کیس کی شرح دن بہ دن بڑھتی ہوئی دکھ رہی ہے، رپورٹ کے مطابق ہر روز قریب 85 ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جن میں سے کئی کی رپورٹ بھی درج نہیں کروائی جاتی۔ کولکاتہ کے اس کیس کے بعد جس طرح لوگ بھڑکے اور جگہ جگہ احتجاج وغیرہ دیکھنے کو ملے ہیں، اس کے بعد تو امید یہ تھی کہ اب سی بی آئی تفتیش کرے اور انصاف ہو، تحفظ کے لیے ٹھوس قدم اٹھائےجائیں، پر کیا آپ کو معلوم ہے کہ اسی مہینے کے اندر اس طرح کے اور بھی واقعات مختلف ریاستوں میں ہوئے ہیں، جیسے اتراکھنڈ میں ایک نرس کی آبرو ریزی اور قتل، مہاراشٹر کے بدلا پور میں چار سالہ بچی کا ریپ، بنگلور میں 21 سالہ طالبہ کے ساتھ عصمت دری وغیرہ۔ یہ حادثے رکنے کا نام نہیں لے رہے ،بلکہ دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔
ایسے مجرموں کے پیچھے تین طرح کی وجوہات کارگر ہوتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ یہ اپنے طاقت کا زور دکھانا چاہتے ہیں، اور عورت کو کم زور ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان کے اندر غصہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہوتا ہے اور یہ کسی طرح اس کو باہر نکالتے ہیں اور تیسرا یہ کہ یہ اس قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو تکلیف میں اور اذیت میں رکھ کر خود خوشی محسوس کرتے ہیں، یہی آخر الذکر لوگ ہیں جو قتل سے پہلے مقتول کو تڑپاتے ہیں اور اس سے سکون پاتے ہیں، ان کو نہ سزا کا خوف ہوتا ہے نہ عدالت کا، یہ بھاگنے کی بھی کوشش نہیں کرتے اور دوبارہ موقع ملے تو پھر اس طرح کی حرکت کرتے ہیں، ان کو شرمندگی کا ذرہ برابراحساس نہیں ہوتا ۔
حکومت کےلیےاشد ضروری ہے کہ جلد از جلد زمینی سطح پر اس کا حل نکالے اور ساتھ میں ہمیں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے لڑکوں کی تربیت پر دھیان دیں، اپنے گھروں میں ایسے کسی بھی چیز کو مذاق میں نہ لیں جس سے ایک لڑکی کی نا قدری ہو یا اس سے وہ خود کو کم تر محسوس کرے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. ناضیرہ مسرور

    بہت بہترین مضمون ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے