شوہر کی اطاعت کس حد تک؟

 سوال:
میں نے ایک دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے، دینی فکر رکھتی ہوں۔ نو(9) برس سے گورنمنٹ جاب میں ہوں۔ دو برس قبل نکاح ہوا ہے۔
شوہر کا مطالبہ ہے کہ میں گھر بنانے کے لیے ہوم لون(Home loan) لوں۔ میں سود کی وجہ سے اس میں الجھنا نہیں چاہتی، اس لیے نظر انداز کر رہی ہوں۔ اسی طرح حمل ٹھہرنے کے بعد شوہر چاہتے تھے میں اسقاط کروا لوں،اس پر بھی میں تیار نہیں ہوئی۔
اب شوہر سمجھنے لگے ہیں کہ میں ایک نافرمان بیوی ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان معاملات میں مجھے شوہر کا کہنا ماننا چاہیے۔ شوہر کی ناراضی پر عورت کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ وہ مجھے جہنمی بیوی کہتے ہیں۔ آپ رہ نمائی فرمائیں، میں کیا کروں؟

جواب:
دین پر چلنے کے معاملے میں زوجین کو ایک دوسرے کا معاون بننا چاہیے۔ یہ کام اس وقت بہتر صورت میں ہو سکتا ہے جب نکاح کرتے وقت ہی دین دار ی کو ترجیح دی جائے۔ لڑکا اور اس کے سر پرست کوئی لڑکی تلاش کریں تو مال و دولت، حسب و نسب اور خوب صورتی پر دین داری کو فوقیت دیں۔ اسی طرح لڑکی کے سرپرست کسی دین دار بااخلاق لڑکے کا رشتہ پائیں تو اس سے اپنی بیٹی کا بہ خوشی نکاح کر دیں۔ دین داری کے پہلو سے اگر زوجین کے درمیان ہم آہنگی ہو تو ازدواجی تعلقات بہت خوش گوار رہتے ہیں اور پورا گھرانا الفت و محبت کے سائے میں پروان چڑھتا ہے، لیکن اگر اس معاملے میں ہم آہنگی نہ ہو تو تعلقات میں کھٹاس پیدا ہونے لگتی ہے۔
ہر مسلمان کی، چاہے وہ مرد ہو یا عور ت، ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑے اور اس سے سر تابی کا مظاہرہ نہ کرے۔ وہ ہر کام میں دیکھے کہ شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں؟ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اس کی اجازت دی ہے یا اس کے کرنے سے اللہ کی نافرمانی لازم آئے گی؟ اگر وہ کام ناجائز اور اللہ کی معصیت کا باعث ہو تو ہر حال میں اس سے بچے، چاہے انسانوں میں سے کسی کی مخالفت لازم آتی ہو۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:

لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (الجامع الصغیر للسیوطی : 9884)

 (خالق یعنی اللہ کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔)
شوہر اگر بیوی کو کسی غیر شرعی اور ناجائز کام کا حکم دے تو اس کے لیے اس کا حکم نہ ماننے کی اجازت ہے۔ اس کا شمار شوہر کی نافرمانی میں نہیں ہوگا۔ آپ نے جن دو کاموں کا تذکرہ کیا ہے، ان کے معاملےمیں شوہر کی بات نہ مان کر آپ نے غلط نہیں کیا۔ بیوی کے لیے نان و نفقہ اور سکنیٰ( رہائش) فراہم کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ گھر کا خرچ چلانے کے لیے بیوی کا ملازمت کرنا ضروری نہیں ہے۔ البتہ وہ شوہر کی اجازت سے کوئی ملازمت اختیار کر سکتی ہے، لیکن وہ اپنی کمائی کی خود مالک ہوگی۔ شوہر کا اس کی کمائی پر قبضہ کر لینا درست نہیں۔ وہ چاہے تو اپنی مرضی سے شوہر اور اپنی سسرال والوں کا مالی تعاون کر سکتی ہے۔عام حالات میں سود پر مبنی کسی طرح کا لون لینا جائز نہیں ہے۔ شدید مجبوری نہ ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔ آپ نے بالکل صحیح کیا کہ ہوم لون لینے سے اجتناب کیا۔ اسی طرح استقرارِ حمل کے بعد عام حالات میں اسقا ط جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ کو ناراض کرنے والا عمل ہے۔ مسلم جوڑے کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
اس کے ساتھ ایک اہم بات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا۔ وہ یہ کہ آپ شوہر اور سسرال والوں کے سامنے اپنا موقف نرمی اور دل سوزی کے ساتھ رکھیے۔ آپ کا رویہ ہم دردانہ اور محبت بھرا ہونا چاہیے۔ شوہر سے ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے نرم لہجے میں بات کیجیے۔ سسرال والوں کو بھی نرمی اور اپنائیت کے ساتھ قائل کرنے کی کوشش کیجیے۔ کسی کو یہ احساس نہ ہونے دیجیے کہ آپ کا لہجہ اور انداز سرکاری ملازمت کی وجہ سے متکبرانہ ہے۔ آپ دوسروں کو اپنے سے کم تر اور حقیر سمجھتی ہیں۔ ان کے سامنے واضح کیجیے کہ جن کاموں کا آپ سے مطالبہ کیا جارہا ہے، انھیںنہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ دینی اور شرعی اعتبار سے ناجائز ہیں اور اللہ کی ناراضی کو دعوت دینے والے ہیں۔ امید ہے ،اس تدبیر سے آپ اپنے شوہر اور سسرال والوں کو اپنا ہم نوا بنا لیں گی۔
آخری بات یہ ہے کہ شوہر کی اپنی بیوی کو نافرمان کہہ دینے سے وہ نافرمان نہیں ہو جاتی۔ دین کے معاملے میں بیوی شوہر کی کوئی بات نہ مانے تو شوہر کو اسے جہنمی کہنے کا حق نہیں۔ جہنمی وہ عورت یا مرد ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کام کرے اور اس کی معصیت کی کوئی پرواہ نہ کرے۔ جو عورت ازدواجی معاملات میں شوہر کی اطاعت کرے، اسے گھر کے ماحول میں سکون فراہم کرے، سسرال والوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے اور اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو پیش نظر رکھے، وہ جہنمی نہیں، بلکہ جنتی عورت ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے