زندگی بعض اوقات ہمیں ایسے مقام پر لے آتی ہے کہ ہمیں محسوس ہوتا ہے جیسے سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ کسی شعبے میں کی گئی محنت کا رائیگاں ہوجانا، کاروبار کا اچانک تباہ ہوجانا ، کسی عزیز کا رخصت ہوجانا، کسی ہنستے کھیلتے انسان کا اچانک معذور ہوجانا یا ناگہاں زندگی میں تباہی کا آنا، کبھی کبھی تو ایسے حالات کا سامنا ہوتا ہے انسان بےبسی کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ ذہنی توازن کھونے لگتا ہے ۔
مذکورہ تمام حالات میں اکثر لوگ اپنا حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں اور انھیں اپنے اردگرد فقط اندھیرے ہی نظر آتے ہیں۔ مزید اس پر لوگوں کی مایوس کن اور حوصلہ شِکن باتیں ،وہ خیال کرنے لگتے ہیں جیسے زندگی اُن کے لیے ختم ہوگئی ہو۔ وہ اس خوب صورت زندگی کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیںاور اکثر ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں ،لیکن چنندہ لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو بغیر کسی خوف اور گھبراہٹ کے ان تمام حالات کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں، لوگوں کی باتوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں ،نتیجۃًکام یابی ان کا خیر مقدم کرتی ہے اور خوش گوار زندگی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ آخر وہ کون سی قوت ہے جو ان چنندہ لوگوں کو مسائل کے آگے سرنگوں نہیں ہونے دیتی ؟اس قوت کو کہتے ہیں قوت ارادی۔
انسان کے اندر عزم، ہمت، ارادہ اور اختیار کو مضبوط کرنے والی ایک طاقت ہوتی ہے، جو ارادے کو کم زور ہونے نہیں دیتی۔ قوتِ ارادی کی ضرورت نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی پڑتی ہے۔ مادّیت کے اس دور میں قوتِ ارادی کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو انسان کی زندگی کا رُخ موڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر جہدِ مسلسل، مستقل مزاجی اور مضبوط قوتِ ارادی سے کام لیا جائے تو نا ممکنات کو ممکنات میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ انبیاء کرام کا مصیبتوں کی انتہا پر بھی ثابت قدم رہنا ، صحابۂ کرام کا بے سروسامانی کی حالت میں مدینہ جاکر ازسرنو زندگی کی تعمیر کرنا ، اولیاءا ﷲ کا مصیبتوں پر بھی شکر ادا کرنا ، قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا نزول وحی کے فوراً بعد گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرلینا ، یہ سب مضبوط قوت ارادی کی مثالیں ہیں ۔ جنھوںنے عزم کرلیا ،وہ راہوں میں آنے والی مصیبتوں پر ٹھہرتے نہیں ،چلتے جاتے ہیں ،چاہے پیروں میں آبلے پڑیں یا ان سےلہو رِسے، انھیں صرف منزل سے سروکار ہوتا ہے، کیوں کہ یہ منزل کے حصول کا مصمم ارادہ کرچکے ہوتے ہیں ۔
اروما سنگھ جو دونوں پیروں سے معذور ہونے کے باوجود ماؤنٹ ایوریسٹ کو پار کر کے دنیا کو حیران کرگئی ، وک جک جو دونوں ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہونے کے باوجود کئی کمپنیز کے مالک ہیں اور مثالی ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہ چند مثالیں مضمون کی طوالت کا خیال رکھتے ہوئے پیش کئی گئی ہیں ۔ اس کےلیے کئی ایسی شخصیات زیرِ تحریر ہوسکتی ہیں جنھوں نے ناگفتہ بہ حالات میں قوت ارادی کے سبب اپنی زندگی آسان کی ہے ۔ اگر آپ کو لگتا ہے آپ کے حالات ایسے ہوگئے ہیں جن سے نکلنا ممکن نہیں تو میں آپ کو فلسطین کی سرزمین پر لے چلتی ہوں، وہاں آپ دیکھ سکتے ہیں بموں کے سائے تلے زندگی گزار رہے لوگوں کا ارادہ کس قدر پختہ ہے کہ وہ شہید ہورہے ہیں ، بے سرو ساماں ہورہے ہیں ، جسم کٹے جارہے ہیں لیکن قوت ارادی دیکھیں ان کی !وہ ایک قدم بھی اپنی سرزمین سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔
کیا آپ کے حالات ایسے ہیں ؟کیا آپ کی زندگی بے سروسامانی والی ہے؟کیا آپ اپنے کسی عزیز کو تڑپتے ،بلکتے اور روز مرتے دیکھ رہے ہیں؟ نہیں نا ں۔ تو شکر بجا لائیے اور اپنی موجودہ حالات کو بدلنے کےلیے قوت ارادی کا استعمال کرتے ہوئے اسے تبدیل کیجیے۔ حالات کا رونا رونے سے سوائے ذلت کے کوئی چیز ہاتھ نہیں آتی ۔ مضبوط ارادہ رکھنے والے افراد ہمیشہ ہر طبقےمیں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں ،دوسرے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ،لوگوں کی باتیں ان پر بے اثر ہوجاتی ہیں، جب کہ کم زور ارادے والے افراد ہمیشہ آوارہ کتوں کی طرح ہوتے ہیں ،دشمن ان پر چھا جاتے ہیں اور لوگوں کی باتوں سے یہ روز اپنے معمولات میں تبدیلی کرتے ہیں ۔
مشہور فلاسفر گوئٹے کہتا ہے کہ پختہ ارادہ رکھنے والا شخص دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق بدل سکتا ہے۔ایک فرانسیسی ماہر نفسیات یاڈوین کے مطابق مریض اپنے نفس پر خود اثر انداز ہو اور اپنی ذہنیت کو اپنی قوت ارادی کے تحت کردے، اس طرح کرنے سے اگر وہ اپنے نفس کو ترقی ، صحت مند ، تن درستی یا کامیابی کی دعوت دیتا رہے گا تو وہ یقیناً کامیاب ہوجائے گا اور اگر وہ مریض ہے اور اپنے نفس کو شفایابی کا یقین دلاتا ہے تو وہ یقیناً شفایاب ہوگا ۔
موجودہ دور میں ہمارے نوجوانوں کاتساہل اور گم نامی کی سرفہرست اسباب میں سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انکی قوت ارادی کم زور ہے ۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ مشکلات لمحۂ زدن میں ختم ہوجائے جب کہ قوت ارادی ایک مستقل عمل ہے۔ پچیس تیس برس کی ناکامی کو لمحوں میں ٹھیک نہیں کیا جاسکتا لیکن ہاں ! اگر قوت ارادی مصمم ہے تو آہستہ آہستہ یقیناً اس مسئلے کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔یہاں چند ایسے نکات پیش کیے جارہے ہیں جس کی مدد سے ہر شخص اپنی قوت ارادی میں اضافہ کرکے کامیاب زندگی بسر کرسکتا ہے :
خدا سے تعلق
ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر مسٹر شیلر تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ صدی کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنا رابطہ اپنے تخلیق کار سے جوڑلیں۔ جتنا مضبوط رشتہ ہوگا، آپ کے دل سے تمام خوف دور ہو جائے گا اور آپ کی قوت ارادی میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔ ہمیشہ یہ سوچتے رہنے سے کہ آپ کو بھی خدا نے ہی بنایا ہے۔ آپ کی زندگی میں ایک ملکوتی نور سے بھر جائے گی اور پہلے سے کہیں زیادہ پر اعتماد ہو جائیں گے اور آپ کی قوت ارادی اور خود اعتمادی میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہو جائے گا ،جتنا آپ خدا کے ساتھ تعلق بڑھاتے جائیں گے اور جتنا آپ اس کی ذات میں مگن ہوں گے، اتنا ہی آپ زیادہ پر اعتماد اور پر سکون طریقے سے مشکلات پر قابو پا کر منزلیں حاصل کرتے چلے جائیں گے۔
ہدف کا تقرر
زندگی میں ہدف متعین کرلینے سے ایک سمت متعین ہوجاتی ہے، آگے کن افعال پر توجہ مرکوز رکھنا ہے، یہ طے ہوجاتا ہے، اور ہدف ہی انسان کو کسی مخصوص نقطےپر مرکوز رکھتا ہے ۔
مثبت سوچ
کچھ لوگ خود سے بدگمان ہوتے ہیں ،خود کو ہر وقت کم زور اور نالائق سمجھتے ہیں، ایسے لوگ اپنی نفی کرکے اپنی قوت ارادی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب آدمی مثبت اور تعمیری مقاصد کو اختیار کرتا ہے تو اس کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ خود اعتمادی سے ذہنی جمود ٹوٹتا ہے اور آدمی مستقبل کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ سوچ مثبت رکھنا یعنی ہر پہلو میں کوئی خیر کا نقطہ تلاش کرلینا،اس طرح کرنے سے نئے نئے پہلو روشن ہونے کے امکان ہوتے ہیں اور انسان استقامت کے ساتھ نئے مراحل کےلیے تیار ہوتا ہے ۔
تسلسل و مستقل مزاجی
مثبت سوچ کے بعد یہ لازم ہے کہ آپ اپنے مقصد کے حصول کےلیے مستقل مزاجی اختیار کریں۔ روزانہ کی بنیاد پر اسے تھوڑا تھوڑا انجام دیتے رہیں ۔ یقیناً مشکل سے مشکل کام بھی تسلسل سے کیا جائے تو وہ آسان ہوجاتا ہے ۔
مشکلات سے مقابلہ
ہرکام کسی نہ کسی مسئلے یا مشکل کو جنم دیتا ہے یا یوں کہہ لیں بڑی منزل کے مسافر کی راہوں کو کھار دار جھاڑیوں کا آنا لازم ہے ۔اس لیے پہلے سے ہی اس کےلیے تیار رہیے ۔ مشکلات کے سامنے آنے پر مت گھبرائیے اور ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیجیے، جس کے اختتام پر خوش گوار منزل آپ کا خیر مقدم کرے گی۔
اس طرح چند نکات کو اپنا کر ہم اپنی قوت ارادی کو مضبوط بناسکتے ہیں ۔ قوت ارادی کی بنیاد پر ہی حکمرانی قائم کی جاسکتی ہے چاہے نفس پر ہو یا ملک پر ۔
٭ ٭ ٭
0 Comments