ماؤں کےلیے بچوں کی تربیت کے رہ نما اصول

میں نے دوران مطالعہ ایڈیسن کاواقعہ پڑھا، جس کو بہت پہلے میں نے اپنے شوہر سے سنا تھا، لیکن اب جب کہ اس واقعے پر میری نظر پڑی اس نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں تربیتی انداز پر ایک تحریر لکھوں، جو ہماری اصلاح کا ذریعہ بنے۔
آج کے اس پرآشوب دور میں نئی نسل کی حفاظت ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ فلسطین کی تحریک آزادی کے مرد مجاہد نے کہا تھا کہ ہمارا اور ہمارے دشمن کا اصل جھگڑا آئندہ نسلوں پر ہے ۔ یا تو وہ انھیں ہمارے ہاتھوں سے چھین کر ہمیں شکست دیں گے یا پھر ہم اپنی نسلوں کو ان کے پنجے سے بچا کر انھیں شکست دیں گے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہی ہمارے بچوں کا اغوا کیا جا رہا ہے، کسی بھی فرد یا قوم و ملت کے لیے اپنی آنے والی نسل سے بڑا اثاثہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہوگا، آدمی اپنے گھر والوں کا نگہ بان ہے اور اسے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘ (مسلم )
تربیت اولاد میں عام طور پر عورت کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔تربیت اولاد میں ماں اور باپ دونوں برابر کے شریک ہیں اور دونوں اللہ کے حضور جواب دہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کی طرح اولاد دے کر والدین کو آزماتا ہے کہ وہ ان کی اچھی تربیت کر کے انھیں اللہ کا سچا بندہ بناتے ہیں یا نہیں۔ اولاد کی تربیت کیسی ہوگی؟ اس بات کا انحصار بہت حد تک انتخاب کردہ زوج(Spouse) پر ہے۔ رشتہ کرتے وقت اپنے ساتھی میں اپنے آنے والی نسل کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس وقت کے مسلمانوں کو مشورہ دیا گیا تھا کہ:
’’ ایک مومن لونڈی مشرک خاندان کی عورت سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمھیں پسند ہو، ایک مومن غلام مشرک شریف مرد سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمھیں پسند ہو۔‘‘ (سورۃ البقرہ : 221)
مسلمان گھرانوں میں اکثر شادیاں والدین طے کرتے ہیں ،انھیں یہ نصیحت یاد رکھنی چاہیے کہ جن مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے دین و اخلاق پسندیدہ ہوں، انھیں بہو یا داماد بنائیں ۔ محض شکلوں اور تن خواہوں پر فیصلے نہ کریں، مبادا افسوس ہو کہ ان کے خاندان سے دین و اخلاق اور اقدار کی وراثت رخصت ہو گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹے کی شکایت لے کر آنے والے باپ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ بچے کے باپ پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے لیے اچھی ماں کا انتخاب کرے، اس کا اچھا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے۔ جب ہم تربیت اولاد کےتعلق سے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ سورۂ صافّات میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’ جب وہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گیا، تو اس نے کہاکہ میرے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں تو غور کر لو، تمھاری کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرے ابا آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اس کی تعمیل کیجے! آپ ان شاءاللہ مجھے ثابت قدموں میں پائیں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بطور مثال فرماں بردار اولاد کے پیش کرتا ہے۔ دنیا کے دانش مند ششدر و حیران ہیں کہ اس نوجوان کے قلب و جگر ،کردار و گفتار میں تسلیم و رضا کا یہ جذبہ کیسے ودیعت ہوا؟

یہ فیضان نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

 باپ اللہ کے عشق میں ڈوبا ہوا تھا تو بیٹا بھی خلاق عالم کی آزمائش میں صبر و ثبات کا پیکر بنا نظر آتا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے ماتھے پر آج بھی ثبت ہے۔الغرض حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی تربیت کا اثر ہی اسماعیل کی شخصیت میں نمایاں تھا۔ ایک صنف نازک ہو کر انھوں نے اپنے اوپر ڈر اور خوف کو غالب ہونے نہیں دیا ،اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ اس بنجر اور بے آباد وادی میں حوصلے، صبر اور توکل کے ساتھ وقت گزارا۔ وہ اکیلی تھیں، اپنے بچے کی تربیت انھوں نے ہی کی تھی، کبھی تنہائی کا شکوہ انھوں نے نہیں کیا۔
ماں جیسی مہذب وبا اخلاق ہوگی یقینا ًاس کی اولاد بھی ویسی ہی ہوگی۔ عورت کاتعلیم یافتہ، باشعور اور اللہ تعالیٰ کی فرماں بردار ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک باشعور ماں ہی بچے کی بہترین انداز میں تربیت کر سکتی ہے۔ نیپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ تم مجھے ایک اچھی ماں دے دو، میں تمھیںایک اچھی قوم دوں گا۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر ہم دیکھتے ہیں تو جتنے بھی اب تک دنیا میں بڑے بڑے کردار گزرے ہیں ،چاہے انھوں نے دین میں سرفرازی حاصل کی ہو یا دنیا کے اعلیٰ منصب حاصل کیےہوں، جب بھی انھیں ٹٹولا گیا تو ہر کردار کے پیچھے ان کی والدہ کا ہاتھ رہا ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے لکھتے ہیں:

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کی ساز سے ہے زندگی کا سوز و دروں

 زندگی کے سارے رنگ عورت کے بغیر ادھورے ہیں، زندگی کے ہر روپ میں عورت کا ایک مقدم مقام ہے اور وہ اہم کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس مقدس کردار کی بدولت ہی اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔ عورت کے اندر تین صفات ایسی ہیں جن سے اس دنیا میں انسانی وجود ابھی تک قائم ہے:
(1)عورت پیدا کر سکتی۔
(2)عورت پرورش کر سکتی ہے۔
(3) عورت تبدیل کر سکتی ہے۔
دنیا کی تقریبا ًہر صحت مند عورت بچے پیدا کر سکتی ہے، پرورش کرنے کا کام بھی کرتی ہے لیکن عورت کی ذمے جو تیسرا بڑا کام ہے یعنی تبدیل کرنے کا کام ،یہ کام صرف ایسی عورتیں انجام دے سکتی ہیں ،جنھیں صحیح معنوں میں اپنی اہمیت اور حیثیت کا احساس ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں نہ صرف دنیا میں انسانی وجود قائم رکھتی ہیں بلکہ دنیا کی ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے اپنی اولاد کی تربیت کرتی ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کی ترقی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔

 اس دنیا میں ہر بچہ بالکل سادہ پیدا ہوتا ہے، ماں کی گود اس کے لیے پہلا مدرسہ ہے اور بچہ کردار، گفتار اور رفتار ماں سے ہی حاصل کرتا ہے۔ ہر بچہ بالکل سادہ سلیٹ کی مانند ہوتا ہے، اس سلیٹ پر ابتدائی عبارتیں ماں کے ذریعے ہی لکھی جاتی ہیں، بچہ بڑا ہو کر کیا کرے گا؟ کیا بنے گا؟ یہ سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ اس کے بنیادی نظریات و اقدار کیسے ہیں؟ بنیاد جتنی مضبوط اور مثبت ہوگی ،اتنی ہی زیادہ مضبوط اور مثبت شخصیت کی تعمیر ہوگی ۔ترقی دینے والی عورتیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے بچوں میں بلند خیالات، اقدار اور اخلاقیات کی پرورش کرتی ہیں۔ آئندہ نسلوں کی ترقی کی ذمہ داری جب تک عورتیں اپنے اوپر نہیں لیں گی، نسل پروان نہیں چڑھ سکتی، کیوں کہ پروان چڑھنے اور پرواز کرنے کے لیے بلند خیالات، اقدار اور اخلاقیات کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیزیں بچے ماں سے ہی حاصل کر سکتے ہیں، ایسی مائیں ہی تصویر کائنات میں رنگ بھرتی ہیں ،ان ہی کے ساتھ سے زندگی کا سوز دروں نہ صرف باقی رہتا ہے بلکہ مسلسل ترقی کرتا ہے۔ جارج برنا ڈشا انگریزی کے عظیم ادیب ہیں، انھوں نے لکھا ہے کہ جب وہ چھوٹے تھے تو ان کے دس میں سے نو کام غلط ہوتے تھے ،لیکن ان کی ماں ہمیشہ لوگوں کو اس کام کے بارے میں بڑے فخر سے بتاتی تھیں جو کام مجھ سے صحیح ہو جاتا تھا ۔رفتہ رفتہ میرے صحیح کاموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ،کیوں کہ اپنی ماں کی تعریف حاصل کرنے کے لیے میں دو گنا زیادہ محنت کرتا تھا۔ ہمیں بچوں کی شخصیت کو اہمیت دینا چاہیے، انھیں سننے کی کوشش کرنی چاہیے، انھیں اظہار خیال کا موقع دینا چاہیے، انھیں احساس دلانا چاہیے کہ وہ بہت اہم ہیں۔ اکثر والدین بچوں کو صرف سناتے رہتے ہیں اور سمجھاتے رہتے ہیں ،اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ بچوں کو پہلے سمجھیں پھر سمجھانے کی کوشش کریں ،اگر والدین بچوں کی گفتگو سنتے ہیں تو بچوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، وہ اپنی آئندہ زندگی میں پر اعتماد ہوتے ہیں، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں ،یہاں پر تھامس ایڈیسن کے بچپن کےواقعے کا تذکرہ ضروری سمجھتی ہوں کہ ایک دن جب ایڈیسن اسکول سے گھر آیا تو اس نے اپنی ماں کو ایک خط دیا جو اس کی ٹیچر نے اس کی ماں کو لکھا تھا۔ اس نے کہا کہ ماں !ٹیچر نے یہ خط دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کو صرف تم پڑھ سکتی ہو۔ اس کی ماں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، جب اس نے تیز آواز میں اس خط کو اپنے بیٹے کے سامنے پڑھا کہ تمھارا بچہ بہت جینیئس ہے، اس چھوٹے اسکول میں ایسے ٹیچرز نہیں ہیں ،جو اس کو تعلیم دے سکیں، اس لیے اسے آپ خود پڑھائیں۔ جب ایڈیسن کی ماں کا انتقال ہوا تھا اس وقت وہ صدی کا سب سے بڑا سائنٹسٹ اور متعدد چیزوں کا موجد بن چکا تھا۔ ایک دن اس نے الماری سے بہت خستہ حالت میں ایک خط جو اس کی ٹیچر نے اس کی ماں کو لکھا تھا ،نکالا۔ اس نے جب اس خط کو پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ تمھارا بیٹا ذہنی طور پر معذور ہے، اب ہم اسے اور زیادہ برداشت نہیں کر سکتے،اسے ا سکول سے نکال دیا گیا ہے۔ ایڈیسن اسے پڑھ کر رونے لگا اور اپنی ڈائری میں لکھا کہ تھامس ایڈیسن ذہنی طور پر معذور تھا، جس کو اس کی ماں نے صدی کا سب سے بڑا سائنٹسٹ بنا دیا۔ ایڈیسن نے اپنی زندگی میں 1093 چیزیں ایجاد کیں۔اس میں الیکٹرک بلب بھی ایک اہم ایجاد ہے۔ جب تھامس ایڈیسن کا انتقال ہوا تو پورے امریکہ میں لائٹیں بجھا دی گئی تھیں،کیوں کہ دنیا کو روشن کرنے والا اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔ ایڈیسن کو ایڈیسن بنانے میں ایک ماں کے اس جملے کا کردار تھا جو اس نے اپنے بیٹے کے لیے کہا تھا۔
ہمیں بھی اپنے بچوں سے گفتگو کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے،ہم اپنے بچوں سے جس طرح گفتگو کرتے ہیں وہ یہ طے کرتا ہے کہ بچہ اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے اور اس کا یہ سوچنا طے کرتا ہے کہ بچہ کیا بنتا ہے؟ ہم اکثر بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں، دوسروں کے سامنے ان کی تعریف کرنے کے بجائے برائیاں اور غلطیاں بیان کرتے ہیں، بچوں سے کہتے ہیں کہ تم کسی کام کے نہیں ہو، نالائق ہو وغیرہ، تو اس طرح بچہ خود اعتمادی کھو دے گا ۔اگر بچہ تنقید کے ماحول میں رہتا ہے تو ناکارہ بنتا ہے، مخالفت کے ماحول میں رہتا ہے تو فسادی بنتا ہے ،شرمندگی کے ماحول میں رہتا ہے تو مجرم بنتا ہے، حوصلہ افزائی کے ماحول میں رہتا ہے تو خود اعتماد بنتا ہے، صفائی ستھرائی کے ماحول میں رہتا ہے تو انصاف سیکھتا ہے ،حفاظت کے ماحول میں رہتا ہے تو وفاداری سیکھتا ہے، پسندیدگی کے ماحول میں رہتا ہے تو خود کو پسند کرنا سیکھتا ہے ۔اگر ہم مثبت طرز پر بچوں کی تربیت کریں گے تو بچوں پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ہم بچوں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو بچہ ترقی کرے گا، اعتماد کریں گے تو بچہ ذمہ دار بنے گا، برداشت کریں گے تو بچہ غلطیوں کا اعتراف کرے گا، معاف کریں گے تو بچہ ا حسان مند بنے گا، عزت کریں گے تو بچہ عزت کرنا سیکھے گا،،دوستانہ رویہ رکھیں گے تو بچہ اپنا مسئلہ آسانی سے بیان کرے گا ، وعدہ پورا کریں گے تو بچہ زبان کا سچا اور وعدے کا پابند بنے گا، اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ درست رویے کے ساتھ تربیت کرنے کی کوشش کریں، تاکہ بچے کی شخصیت کی نشونما صحیح سمت میںہو سکے اور وہ معاشرے کا ایک قیمتی فرد بن سکے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

3 Comments

  1. Surayya

    Bahut behtareen MashaAllah
    Very knowledgeable

    Reply
  2. .Musarrat Jahan

    k liye behtareen tehreer.
    MashaAllah Mummylo

    Reply
  3. Dr Asifa Nisar

    Subhanallah very well, written.A real picture
    presented in very nice, simple way, Jazakallah khairan kaseera for this beautiful reminder.May Allah SWT Guide us all to always please Him alone. Ya Rab bless my sister withthe best in both duniya and Akhira Aameen.

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے