بنیادی طور پر انسان ایک سماجی زندگی گزارنا پسند کرتا ہے۔ انسان سے انسان کا تعلق باعث سکون ہے ،اسی لیے نفسیاتی طور پر ایک فرد کے نزدیک اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ لوگ اس کے عمل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ آیا یہ سرگرمی سماج میں قبول کی جاتی ہے یا سماج کے پیراڈئم سے مختلف ہے ؟اگر مختلف بھی ہے تو کیا اسے اس کی سوسائٹی سماج یا مذہب یا دین اس بات کی اجازت دیتا ہے ؟یہ تمام باتیں انسان کے لاشعور کا حصہ ہوتی ہیں ۔
انسان کاوجود ہی’’ کل مولود یولد علی الفطرۃ ‘‘ سے شروع ہوتا ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہاں فطرت سے مراد انسان کی سلیم الطبعی ہے،طبعیت کوراس آنے والی باتیں انسان کو بھلی لگتی ہیں جب کہ جو باتیں انسان کی فطرت سے میل نہیں کھاتیں، انسان ان کے کرنے کے بعد احساس جرم کا شکار ہوجاتا ہے، اس بات کا اللہ نے انسان کو احساس بھی دلایا ہے جو اس آیت سے صاف واضح ہے کہ کرۂ ارض پر بسنے والا ہر انسان اپنی ذات سے سرزد ہونے والی اچھائی برائی کو بخوبی جانتا ہے:
فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ۞ وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮهَا ۞
(اور نفسِ انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا،پھر اُس کی بدی اوراُس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔)
یہاں اللہ رب العالمین نے نفس انسانی کو ہموار کرنے کی بات کہی ہے، انسانی نفس کو ہموار کردیا ،اس طرح اسے لطیف بنایا کہ فطرت کے خلاف گناہ کا بوجھ برداشت نہیں کرتا اور فوراً انسان جان لیتا ہے کہ وہ یہ گناہ کا کام کررہا ہے ۔
موجودہ دور نے انسان کو گناہ کے احساس سے آزاد رکھنے کے لیےاسے آزادی کا تصور دیا ہے ۔ آزادی کوئی بری چیز نہیں ہے، اسلام کی نظر میں آزادی لفظ کی ایک قدر ہے ۔
اسلام کی نظر میں آزادی
دین اسلام میں اسلام کی تعلیمات کی تکمیل کے بعد پیارے نبیﷺ کے خطبے کے الفاظ سےآزادی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ آج یہ دین مکمل ہوچکا ہے ،کسی کو کسی انسان پر فوقیت نہیں ہے ،ہر انسان آزاد ہے اور اپنے عمل کے اعتبار سے اللہ کو جواب دہ ہے ،تاہم انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر اللہ کا بندہ بنانا اسلام کا مطمح نظر ہے ۔
یہ فطری تقاضا بھی ہے کہ انسان ہزار آزادی کے باوجود خود کو اپنے بنائے اصول کا پابند رکھنا پسند کرتا ہے ۔
چوں کہ موجودہ دور نہ صرف ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہر لمحہ علم کے اعتبار سے بس ایک جنبش کا محتاج ہے ،بلکہ اسی طرح انسان نے اپنی آزادی کو محسوس کیا اور سہولتوں کی ارزانی اسے حاصل ہے۔ نتیجۃًہماری نسلیں حتیٰ کہ بڑے بھی ایک ان دیکھے حصار میں محصور ہیں، جسے ہم ڈیجیٹل حصار کہہ سکتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کے حدود و قیود سے آزاد بے لگام زندگی گزانا چاہتے ہیں۔بالیدہ نظر شادی شدہ جوڑے بھی اپنی زندگی میں سنجیدہ نہیں ہیں ،نتیجۃً ایکسٹرا میریٹل افئیرز ، نوجوانوں میں لیو اینڈ ریلیشن شپ کے واقعات ہوں یا گھر سےبھاگ کر شادی کرنے والی طالبات ، بے لگام زندگی میں بوائے فرینڈ کے ساتھ چیٹ پر وقت گزاری ہو یا جنسیات کے بے راہ روی ہو، اوپن سیکس کے نام پر ان نسلوں کو مادر پدر ازآدی کا تصور دے دیا گیا حتی کہ اخلاقیات یا حدود و قیود یا اصول ضوابط سے ہم نسلوں میں بیزاری دیکھتے ہیں ۔
مغرب کے آزادی کے تصور نے جنسی آزادی کی ارزانی کی اس حد تک اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جنسی ضرورت کو کہیں بھی کبھی بھی اور کسی سے بھی پوری کرنے کی اجازت دیتے ہیں ،اور طرفہ تماشہ ہے کہ یہی جنسی آزادی کے متوالے ہر جگہ تہذیب و تمدن کے علم بردار نظر آتے ہیں ۔
جنسیات بھی دیگر جبلتوں کی طرح ایک جبلت ہے، جیسے انسان کو بھوک لگ جائے تو کھانا کھاتا ہے، کھانے کے لیے پہلے یہ چیک کرتا ہے کہ کھانا جانور کے لیےتو نہیں ہے ؟ یہ انسانوں کا کھانا تو ہے ؟ یہ بھی چیک کرتا ہے کہ کھانا اسی نے خریدا یا پکایا ہے ؟ بھوک کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ہوٹل پر کسی اور کی آرڈر کی گئی پلیٹ پر ٹوٹ پڑیں ، آپ اپنے آرڈر کا انتظار کرتے ہیں ۔
انسانی ذہن یہ تمدن تو سیکھ لیتا ہے کہ شکم کی بھوک کیسے برداشت کرے؟کیسے صبر کرے؟ اپناکھانا آنے تک انتظار کرے، حتیٰ کہ آپ کی کیفیت دیکھ کر دوسرا آفر بھی کردے، تو آپ اجنبی کے ساتھ کھاناکھانے پر فوراً راضی نہیں ہوتے، بالکل اسی طرح جنسیات بھی آپ کے اپنے استحقاق کے ساتھ، جس سے آپ کا نکاح ہواہے، اس سے آپ قریب ہوتے ہیں، کلوز ہوتےہیں، حتیٰ کہ بہت نجی گفتگو بھی اسی شخص سے کرتے ہیں، جائز حدود کا خیال اسی کو کہتے ہیں۔ جدید تھیوری میں اپنے آپ کو جانتے ہوئے اپنے رویے کو پورے شعور کے ساتھ سیٹ رکھنا آپ کا ایموشنل انٹیلجنس کہلاتا ہے ۔سیلف کنٹرول ، ایموشنل انٹلیجنس میں بہت اہم مانا جاتا ہے ۔
ملٹی پل رلیشن رکھنا یا اپنے جذبات ہر جگہ ظاہر کرنا ، جذباتی لطافت کو کھودینا، ایک عاقل اور باشعور نوجوان سے اس کا صدور انتہائی فضول ہے، جو انسان کی شخصیت کی تباہی کا باعث ہے ۔
اخلاقیات کے نفسیات پر گہرے اور اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسان کی اخلاقی اصولوں پر مبنی زندگی اس کی نفسیاتی حالت، جذباتی سکون، اور ذہنی توازن کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ جہاں یہ بات درست ہے کہ بداخلاقی اورحدود کی پامالی کے شخصیت پر برے اثرات پڑتےہیں ،وہیں یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ گھر کے ماحول کی وجہ سے بچے نفسیاتی طور پر کم زور ہو کر برائی کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں ۔
اللہ رب العالمین نے ہر شخص کے نفس کو خود اس کے اپنے عمل پر گواہ بنادیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سماج میں ناپسندیدہ عمل ہونے کا احساس ایک فرد کو احساس جرم کے قعر مذلت میں دھکیل دیتا ہے ۔
اخلاقیات دراصل ان اصول و ضوابط کا نام ہےجس میں انسان خود اپنی ذات پر تحدید لگاتا ہے، خود کو پابند کرتا ہے، جیسے جب کوئی شخص اپنی زندگی میں اخلاقی اصولوں پر عمل کرتا ہے تو اس کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اندرونی سکون اور جذباتی استحکام محسوس کرتا ہے۔اس کے برعکس انسان ہر پابندی سے آزاد ہو ، جذباتی اعتبار سے کم زور ہو، دوسرے کو اپنی ذات کی کم زوری بناکر حدود کو پائمال کرے تو اس کو احساس جرم گھیر لیتا ہے ۔احساس جرم نفسیاتی طور پر انسان میں رویے کی تبدیلی کا سبب بنتا ہے ۔
احساس جرم: نفسیاتی کم زوری
احساس جرم انسان کی ایک طرح سے جذباتی کم زوری بھی ہے، اعتماد کی کمی کو بھی پیدا کرتا ہے، اس کے متضاد رویے میں جارحیت ، حسد ، سفاکی بھی پیدا ہوتی ہے ۔کبھی کبھی یہی احساس جرم انسان کو خود اذیتی کا شکار بھی بنادیتا ہے جسے Self-harmکہتے ہیں ۔اکثر آپ نوجوان نسلوں میںSexual مایوسی پائیں گے، وہ جذباتی طور پر کنفیوز ہوں گے یا اپنی جنسی کم زوریوں سے پریشان نظر آئیں گے۔ دراصل عنفوان شباب ہی سے بچے اپنے اپنے پارٹنر کی تلاش میں رہتے ہیں، انھیں باقاعدہ یہ سمجھایا جارہا ہے کہ اپنا پارٹنر رکھنا گویا زندگی کی ضرورت ہے، جس کے صلے میں نسلوں کو Multiple affairs or Multiple couples کے ساتھ تعلقات رکھتے ہوئے دیکھاجاتا ہے ۔ جب یہی تعلقات نبھ نہیں پاتے ہیں تو یہ ڈپریشن میں رہنے لگتے ہیں یا احساس جرم کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
جذباتی لطافت میں کمی
انسان کے جذبات بہت لطیف ہوتے ہیں ،جذبات کی زبان بھی بہت لطیف ہوتی ہے ، جذبات کے محسوسات بھی لطیف ہوتے ہیں ، لیکن جب یہی جنسیات اور بد اخلاقی کے حوالے سے بے نیاز ہوکر ایک مرتبہ حدود پامال کردیں تو وہ لطافت چلی جاتی ہے، اخلاقی ارازانی پیدا ہوتی ہے ۔دوسروں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا جھوٹ ، فریب ، اور وعدہ خلافی شیوہ بن جاتا ہے۔ اس کی حرمت بھی دل سے چلی جاتی ہے، اسی طرح ہمیشہ کے لیے وہ نوجوان چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، جنسی لطافت کھو دیتے ہیں۔ بعد کی زندگی میں بھی اپنے زوج کے لیے وفاشعار بن کر رشتہ استوار کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں ۔جنسی لطافت کو باقی رکھنے کے لیےیہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کو بچپن سے بے حیائی کی گفتگو سے باز رہنے کی بھی تلقین جائے ۔ آپ دیکھیں گے کہ آزادی کا فلسفہ دینے والے مغرب پرست معاشرے میں بات بات پر انتہائی بے ہودہ گالی دینے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور تہذیب و تمدن اور لحاظ کے حدود سے بغاوت بچوں کو سکھا ئی جاتی ہے ۔ ایک مرتبہ بھی بے ہودہ گفتگو کی عادت پڑ جائے یا حد پار کرلی جائے تو جنسیات پر گفتگو کرنا عادت ثانی بن جاتا ہے ۔
اخلاقی زوال اور خود اعتمادی میں کمی
اخلاقی اعتبا ر سے خود کو ارفع رکھنے کی شعوری کوشش انسان کے اعتماد کو بڑھاتی ہے ۔مطلب یہ کہ ایک نوجوان شعوری کوشش کرے کہ وہ کسی کو جذباتی اعتبار سے تکلیف دینے یا کسی سے ناجائز تعلق بنانے جیسے حالات پیدا نہیں ہونے دے گا ، یا کسی کو نقصان نہ پہنچانے اصول کو مقدم رکھے گا، یہ کوشش اس کے اعتماد کو رفعت بخشے گی اور اس کی زندگی مین بھی وہ اپنے زوج کے ساتھ ایمان داری قائم رکھ پائے گا ۔
جو افراد مسلسل اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کی خود اعتمادی متاثر ہو سکتی ہے۔ وہ خود کو کم تر محسوس کرتے ہیں ،اپنی زندگی میں ایک خالی پن محسوس کرتے ہیں اور ان کی کیفیت کسی چیز سے سکون نہیں پاتی ،وہ ہر وقت عدم تسکین کا شکار ہو سکتے ہیں۔جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں چھپ کر کسی گناہ میں مبتلا ہیں، یہ احساس انھیں ہر کام میں تذبذب کا شکار بنادیتا ہے، وہ ہر وقت کسی راز کے کھل جانے کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔وہ اپنے زوج کے ساتھ بھی اعتماد میں کمی کو محسوس کرسکتے ہیں، نظریں چراتے ہیں ،دوری بنانے کے لیےغیر ضروری سنجیدگی خود پر طاری رکھتے ہیں۔
اصول و ضوابط شکنی
اصول شکنی ایک طرح سے انسان کو سماجی نظام کا جارح بنادیتی ہے ۔جو لوگ اپنے اصولوں اور اخلاقیات پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں، ان کی خود اعتمادی اور عزت نفس عموماً بلند ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں مقصدیت محسوس کرتے ہیں، جو ان کے نفسیاتی توازن کے لیے مفید ہوتی ہے۔ایک بامقصد زندگی گزارنے والے انسان کے نزدیک دنیا میں بے شمار کام ہیں جو اسے انسانوں کےلیے نفع بخش بنادیتے ہیں ۔جو لوگ جنسی تعلق میں عہد شکن ہوتے ہیں وہ ہر جگہ عہد شکن ثابت ہوتے ہیں ۔ اصول پسندی انسان میں وقار پیدا کرتی ہے ۔
مینٹل ہیلتھ
دماغی صحت کا انحصار بھی بڑی حد تک جرم کے احساس سے تعبیر ہے۔ غیر فطری عمل کو انسانی روح برداشت نہیں کرتی اور انسان اس جرم سے نکلنے کی کوشش میں اپنی شخصیت تباہ کرلیتا ہے ۔نوجوان نسلیں اپنی دماغی صحت کو تباہ کررہی ہیں ۔جنسی خواہشات کے لیے تنہائی پسند بن جانا، رشتوں سے نگاہ نہ ملا پانا، یا معاشرے میں بے حیائی کو نارمل اور ایکسپٹیبل بنانے کے لیے دوسروں سے گفتگو کرنا، یا نشہ کا سہارا لینا جیسی شخصی کم زوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔اس کے برعکس دماغی صحت اچھی ہوتو ایک فرد کی شخصیت میں توازن پیدا ہوتا ہے، اس میں اچھی Interpersonal skills اچھی ہوتی ہے، وہ لوگوں سے بہترین تعلق استوار کرسکتا ہے، اس کا سماجی دائرہ وسیع ہوتا ہے۔پیارے نبی ﷺ کا قول ہے کہ تم میں وہ شخص بہتر ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو ۔یہ بات واضح ہے کہ احساس جرم پر پردہ پڑا رکھنے کے لیے انسان گھر والوں کی نگاہ میں خود کو مجروح کرلیتا ہے ۔
کم زور سہاروں پر تعلقات
اسی طرح جو سب سے خطرناک چیز نوجوانوں میں در آئی ہے وہ ہے LGBTQ+ ،یہ بھی جنسی بیانیے کے زیر اثر نوجوانوں میں اپنی ذات کا عدم اعتماد ہی سمجھ لیجیے، جب انھیںاحساس ہوتا ہے کہ وہ خود میں اعتماد کی کمی پاتے ہیں تو وہ اپنی جنس کے تئیں تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ ہم اپنےمخالف جنس کے ساتھ تعلق استوار کرنے کے بجائے ہم یکساں جنس کے ساتھ بہتر ایڈجسٹ ہوسکتے ہیں ۔ اس کے دور رس اثرات پر نہ ان کی توجہ ہوتی ہے نہ کوئی مقصد زندگی ہوتا ہے ،انتہائی کم زور سہاروں پر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ساری زندگی کے لیے ناکارہ بن جاتے ہیں۔آزادانہ شہوت رانی ہو یا بے حیائی کی انتہا ہو، ہمیں جو چیز اعتماد بخشتی ہے وہ یہی ہے کہ اپنی ذات کو نفسیاتی امراض سے بچانے کا واحد راستہ بےحیائی سے مکمل اجتناب وپرہیز ہے۔
٭ ٭ ٭
تبصرہ السلام علیکم الحمدللہ بہت ہی پیارے انداز میں اپ نے ہمیں سمجھایا ہے انشاءاللہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے
Muhim. Per achchi peshkash