وَلَنَبلُوَنَّکُم
( اور ہم تمھیں آزمائیں گے ضرور ۔)( سورۃ البقرہ: 155)
آزمائش انسان کی سانسوں کے ساتھ جڑی ہے ۔ زندگی کے تانے بانے میں آزمائش کا جال ہمیشہ رہتا ہے ۔ زندگی کی اس کتاب میں آزمائش کے صفحات ہوتے ہی ہیں ۔ مومن کی زندگی آزمائش سے پر ہے ۔ جب وہ شعور کی منزل پر قدم رکھتا ہے تب آزمائش آتی ہیں،مشکلات آتی ہیں ،مسائل رکاوٹیں آتی ہیں۔ان مصائب ومشکلات سے ہیرے کی مانند نکھرنے کی صورت میں انعام کا پیغام ملتا ہے، وہیں بھٹکنے کی صورت میں اپنا آپ کھو بیٹھتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ آزما کر جانچتے ہیں کہ ہمارے مقصد حیات میں کتنی پختگی ہے ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے ۔ وہ ہمیں تکلیف دینے کے لیے نہیں آزماتا اور مستقل نہیں آزماتا،بلکہ ایک وقت تک اور ایک حد تک آزماتا ہے،اس وقت میں ہم صبر اور شکر کا دامن تھامے رہیں گے تو روشنی اور کھلی فضا ہماری منتظر ہوتی ہے ۔
صبح کا سورج یہی پیغام دیتا ہے کہ زندگی میں جتنا غم آئے گا وہ ختم ہوجانے والا ہے ۔ وقت کا پہیہ تیزی کے ساتھ چل رہا ہے ۔
مصیبت اورپریشانی عذاب ہے یا آزمائش ؟یہ جاننے کاطریقہ مولانااشرف علی تھانویؒ نے یہ بتائی ہے کہ جس مصیبت کے ساتھ انسان کی اللہ تعالی کی طرف توجہ ،اپنے گناہوں کا ادراک اور توبہ و استغفار کی رغبت زیادہ ہوجائے، وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ سزا یا قہر نہیں بلکہ مہر اور عنایت ہے اور اس کے مقابلے میں جب مصیبت اللہ کی ناشکری کا سبب بنے،گناہوں میں اور زیادہ انہماک بڑھ جائے تو وہ قہر الٰہی اور عذاب کی علامت ہے ۔ ہر ذی روح پر آزمائش آتی ہی ہے ،چاہے وہ اجتماعی شکل میں ہو یا انفرادی ۔ اب یہ ہمارے لیے غور و فکر کا مقام ہے کہ جن مصائب میں ہم مبتلا ہیںوہ ہمارے لیے عذاب الٰہی ہیں یا آزمائش ؟
اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزمائش کے اصول و ضوابط سکھائے ہیں ۔ مصیبت اور آزمائش کی گھڑی میں صحابۂ کرامؓ کا جذبۂ صبروایثار ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔ آزمائش سے گزرتے وقت ضروری ہے کہ حوصلہ رکھیں ،صبر و استقامت کے ساتھ مشکلات کا سامنا کریں ،اپنے مقصد پر ثابت قدم رہیں،نگاہیں منزل پر ہوں اور راہ میں آنے والے کانٹوں کو ہٹاتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتے چلے جائیں،اس یقین کے ساتھ کہ بالآخر کامیاب ہوں گے ۔
ناصر افتخار لکھتے ہیں:
’’ زندگی کی بھٹی میں جلتی سخت آگ میں بلا خوف و خطر کود جانے والے ہی بالآخر ظفریاب ہوا کرتے ہیں ۔‘‘( خود سے خدا تک )
طلبہ و طالبات کی حوصلہ شکنی امتحان کے نتائج پر ہوتی ہے، جس کا نتیجہ تناؤ،ڈپریشن اورخودکشی ہوتا جارہا ہے ۔ جب ہم مشکلات سے اکتا جاتے ہیں،مایوس اورحوصلہ شکنی کے شکار ہوتے ہیں ،کہیں کوئ سبیل نظر نہیں آتی،تب یہ آیت حوصلہ دیتی ہے:
اِنَّ مَعَ العسر یسراً(سورۃ الانشراح: 6)
(بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔)
ہر تنگی کے بعد فراخی آتی ہے، غم کے بعد خوشی آتی ہے،سختی ومشکلات ہمیشہ باقی نہیں رہتیں،غم کے بادل چھٹتے ہیں،صبح روشن ہوتی ہے، رات کی ہر تاریکی طلوع سحر کا مژدہ سناتی ہے ۔
مشقت کے ساتھ آسانی تدابیر سے ممکن ہے،اسباب تلاش کرنے سے ممکن ہے ۔ محنت، جدوجہد ،مشقت،یقین،دعا؛ ان آلات کو استعمال کرکے ہم اپنے لیے آسانیاں فراہم کرسکتے ہیں ۔ آسانیاں میسر آسکتی ہیں اور یہ کوششوں پر ممکن ہے ۔
زندہ ہر اک چیز ہے کوشش ناتمام سے
بغیر کوشش کیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے معجزے کا انتظار کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ہمیں اللہ پر توکل ہے،بھروسہ ہے ،تو یہ ایسا ہے جیسے بغیر بیج بوئے درخت کے آنے کا انتظار کرنا ۔ قرآن کہتا ہے :
’’ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے کوشش کی ہے ۔‘‘ ( سورۃ النجم: 38 )
امیر جماعت تحریر فرماتے ہیں:
’’توکل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے مقصد کے لیے ساری ممکنہ تدبیریں اختیار کرے اور پھر اللہ پر بھروسہ کرے ۔ تدبیر سے گریز توکل نہیں ہے ۔
ممکنہ تدابیر اختیار کرنے کے باوجود خوف اور اندیشوں کا شکار ہوجانا یہ بھی توکل کے خلاف ہے ۔ توکل یہ ہے کہ جو کچھ ممکن ہے اسے کر گزرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور جو بات ہمارے دائرۂ اختیار سے پرے ہے، اسے اللہ پر چھوڑ دیا جائے اور اس سے اچھی امید رکھی جائے ۔‘‘( مسلم امت منزل اور راستہ )
خرم مراد رقم طراز ہیں:
’’مقصد سے جتنی گہری وابستگی ہوتی ہے انسان کوششیں کرنے پر اتنا ہی آمادہ ہوتا ہے ۔ اگر انسان کی فطرت،اس کا دل اور اس کا دماغ اس کے مقصد سے ہم آہنگ ہو تو پھر ترقی کی کوئی بھی منزل ایسی نہیں ہے جہاں وہ پہنچ نہیں سکتا۔‘‘( احیائے اسلام اور معلم )
جسے مقصد سے والہانہ محبت ہو اس کے حصول کی راہ میں آنے والی سخت سے سخت آزمائش کو وہ مشکل نہیں سمجھتا ۔ محبت قربانی کا تقاضا کرتی ہے جو قربانیاں دیتا ہے، کوششیں کرتا ہے، دل شکستہ نہیں ہوتا ،وہ کہیں نہ کہیں جاکر کامیاب ہو ہی جاتا ہے اور اس بات کا یقین ہو کہ اگر میں صحیح ہوں اور اس پر عمل کرے تو ضرور کامیاب ہوگا ۔
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ کوشش کے ساتھ یقین ہو اللہ پر، تقدیر پر بھروسہ ہو ۔ مشکل حالات میں خیر کا پہلو تلاش کرنا،اللہ سے اچھا گمان رکھنا ہمارے لیے مفید ثابت ہوتا ہے ۔ جو ہم گمان کریں گے وہی پائیں گے ۔ حالات چاہے جتنے مخالف ہوں، گمان اپنی منزل پر پہنچنے کا ہو تو ضرور کامیاب ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’ میں اپنے بندے کو اس کے گمان کے مطابق دیتا ہوں ۔ ‘‘
حتی الامکان کوشش کے باوجود یقین نہ ہو ،اچھا گمان نہ ہو تو وہی ملے گا جس کا گمان ہو ۔ انسان وہی پاتا ہے جس کی طلب پورے خلوص کے ساتھ اس کے دل میں ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ جو ہم چاہتے ہیں وہ ہمیں دے۔ وہ تو ہمیں آزماتا ہے ورنہ’’ کن‘‘ کہتے ہی سب ہوجاتا ہے ۔
آزمائش کے وقت انسان مایوسی ،ناامیدی اور تناؤ جیسی کیفیات کا شکار ہوتا ہے، اس سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہو ۔ ہم اس کی یاد سے غافل نہ ہوں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے بڑھ کر اطمینان قلب کا نہ کوئی ذریعہ ہے نہ کوئی سامان ۔
الاَ بِذِکرِاللہِ تَطمَئِنَّ القُلوب (سورۃ الرعد : 28 )
(ذکر الٰہی سے دلوں کو طمانیت ملتی ہے ۔)
جب کوشش کریں گے،یقین ہوگاکہ حَسبُنا اللّہُ وَ نِعمَ الوَکیل،دعائیں کرتے رہیں گے، تو دل سے تسلی بخش آواز آئے گی کہ:
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
٭ ٭ ٭
اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزمائش کے اصول و ضوابط سکھائے ہیں ۔ مصیبت اور آزمائش کی گھڑی میں صحابۂ کرامؓ کا جذبۂ صبروایثار ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔ آزمائش سے گزرتے وقت ضروری ہے کہ حوصلہ رکھیں ،صبر و استقامت کے ساتھ مشکلات کا سامنا کریں ،اپنے مقصد پر ثابت قدم رہیں،نگاہیں منزل پر ہوں اور راہ میں آنے والے کانٹوں کو ہٹاتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتے چلے جائیں،اس یقین کے ساتھ کہ بالآخر کامیاب ہوں گے ۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ماشاءاللہ بہت بہترین مضامین اس میگزین میں رہتے ہیں اگر اسکی hard copy بھی شائع کی گئی ہے تو وہ کہاں سے مل سکتی ہے
ماشاءاللہ بہت اچھے مضامین ہیں پڑھنے میں بہت دلچسپی محسوس ہوتی ہے تقریبا پورے مضامین کو پڑھنے میں مزہ اتا ہے اور پڑھنے کی طرف رغبت بڑھتی ہے ہمیں اپنے درس تخاری میں بھی مدد ملتی ہے