عالمی یوم قلب29ستمبرکو منایا جاتا ہے۔خالق کائنات کی مخلوقات میں انسان تخلیق کا بہترین شاہ کار ہے ،بنیادی طور پر وہ دو عناصر کا مجموعہ ہے، ایک روح اور دوسرا جسم ، اس کے علاوہ وہ نہ صرف جسمانی و روحانی مخلوق بلکہ بیک وقت جذباتی، نفسیاتی ،عقلی اور سماجی مخلوق بھی ہے ۔
انسان کے روحانی تقاضوں اور مادی ضروریات دونوں کے طرف اس کے میلان کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی خود اس کے خالق نے اس کا تعارف احسن تقویم اور اسفل السافلین؛ دونوں خطابات سے نوازا ہے ،اس کو ایک طرف خالق کی روح اور صفات الٰہی کا مظہر اور اشرف المخلوقات اور خلیفہ یا نائب کہا گیا ہے ،تو دوسری طرف اس کی زمینی فطرت کو بھی مخاطب کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ اکثر ناشکرا ،جلد باز اور جھگڑالو واقع ہوتا ہے ،اور اس کو تھڑدلا اور ضعیف پیدا کیا گیا ہے ،پھر یہ بھی کہا گیا کہ اس کی نیک بختی اور بدبختی کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ کہنے کا منشا یہ ہے کہ انسان جیسی مخلوق کو خود انسان نے سمجھنے میں غلطی کی ہے اور آج کے مادہ پرست ذہنوں نے انسان کے مادی وجود کو تو تسلیم کر لیا، اور روحانی وجود کو نظر انداز کر دیا، جس کی وجہ سے انسان کی زندگی کے بیش تر مسائل کو حل کرنے میں خود انسان ناکام ہے ۔چوں کہ انسانی جسم کو مشین سے تشبیہ دی گئی اور جسمانی بیماریوں کا علاج بھی مشین کے پرزوں کو ٹھیک کرنے کی طرح کیا جانے لگا۔
انسانی جسم اپنے اندر ایک عالم ہے ،اس کی پیچیدگیوں کو کامل طور پر سمجھنا خود انسانی عقل سے بالاتر ہے، اس کے لیے وحی الٰہی اور حقیقی علم کے سرچشمہ کی ضرورت سے انسان مبرا نہیں ہو سکتا ۔
اسی طرح انسانی جسم کا ایک اہم عضو جو کہ قلب کہلاتا ہے، وہ انسان جسم میں روح کا اصل مبدا ہے۔ بیک وقت جسم کو زندہ رکھنے اور جسم اور روح کا رشتہ جوڑے رکھنے کا ذریعہ ہے۔انسانی زندگی کے لیے مستقل حرکت کا سرچشمہ ہے، تشریح الاعضاء کے اعتبار سے قلب ایک عضلی عضو ہے، جس کی ساخت نہایت قوی اور مستحکم ہوتی ہے ،اس کی شکل مخروطی ہے اور یہ اپنے غلاف کے اندر دونوں پھیپھڑوں کے درمیان سینے کے اندر ہوتا ہے۔ قلب حرارت غریضی کا سر چشمہ اور دوران خون کا مرکز ہے۔ قلب کا وزن مردوں میں تقریباً 25 سے 30 تولہ یعنی 300 گرام اور عورتوں میں 20 سے 25 تولہ یعنی 250 گرام ہوتا ہے، اس کی لمبائی اور چوڑائی 12X9 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔
قلب کے حصے
قلب کا اندرونی خول ایک درمیانی دیوار کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ نیچے والے دو حصوں کو بطن اور اوپر والے دو حصوں کو ازن کہتے ہیں۔ غرض قلب چار خانوں میں منقسم ہوتا ہے ۔ (1) دایاں اذن (2) دایاں بطن (3)بایاں اذن(4) بایاں بطن ۔دائیں ازن اور دائیں بطن کے بیچ ایک کواڑی ہوتی ہے جس کے تین پٹ ہوتے ہیں ،اس کو سکرے ثلاثی یا صمام ثلاثی(Tricuspid Valve) کہتے ہیں ۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ دائیں اذن کا خون دائیں بطن میں آسانی سے چلا جائے اور واپس نہ لوٹ سکے، دائیں بطن میں تقریباً 5 تولہ خون سما سکتا ہے، اس میں ہمیشہ وریدی خون دونوں اجوف ( superior & inferior vena cava) سے آتا ہے،پھر دائیں بطن سے شریان ریوی اور ورید شریانی (pulmonary artery & trunk) کے ذریعے پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے جو د خان سے بھرا ہوتا ہے ،پھیپھڑوں میں نسیم کے ذریعے دخانی خون تبدیل ہو کر سرخ و شوخ خون بن جاتا ہے اور شریان وریدی( pulmonary veins ) کے ذریعے پھیپھڑوں سے بائیں اذن میں پہنچ جاتا ہے ،پھر بائیں اذن سے بائیں بطن میں دو پٹ کی کواڑی -جس کو سکر یا صمام ذوراسین (Bicuspid or Mitral Valve) کہا جاتا ہے -کے ذریعے بائیں بطن میں داخل ہوتا ہے اور بائیں بطن سے شریان اعظم یعنی اور طہ Aorta) ) کے ذریعے تمام جسم میں تقسیم ہوتا ہے۔ اس خون کے ساتھ روح حیوانی ہوتی ہے، جو تمام اعضاء کو گرم رکھتی ہے، اور طہ کے دہانے پر ہلالی شکل کے تین پٹ ہوتے ہیں اس لیے اس کو صمام ہلا لی یا صمام سینی (valves semilunar) کہتے ہیں ۔ ان کواڑیوں کو سکر اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ خون کو واپس لوٹنے سے روکتے ہیں، سکر اس تختہ یا پھاٹک کو کہتے ہیں جو پانی روکنے کے لیے نہروں میں لگایا جاتا ہے۔
قلب میں عروق شعاریہ کے علاوہ جو اعصاب پائے جاتے ہیں، ان کا تعلق عصب راجع سے ہے۔
قلب کی عام تشریحی بیماریاں
(1) سوئے مزاج قلب
(2) وجع القلب
(3) خفقان یا اختلاج
(4) اذن القلب کا ورم
(5) تقشر قلب یعنی قلب کا چھلنا
(6) قذف قلب یعنی قلب کا باہر نکلنا
( 7) استسقاء قلب یعنی قلب کا پانی میں تیرنا
(8)جذب القلب یعنی قلب کا نیچے کی جانب کھینچنا
(9) ورم بطان قلب
(10) افلاس قلب
(10) امراض صمامات قلب
بھی عام ہیں، جیسے اورطہ اور کواڑیوں کے امراض جس میں ان کا تنگ یا بند ہو جانا شامل ہیں۔ دور حاضر میں اچانک دل کے دورےجواچانک اموات کا سبب بن رہے ہیں اور اکثر نوجوانوں میں عام ہیں ،اس کا سبب حاد یا مزمن دونوں ہو سکتے ہیں، مسئلہ پہلے سے موجود ہوتا ہے لیکن تشخیص دیر سے ہوتی ہے، رگوں میں یا خون میں چکنائی کا جمنا ،قلب کے شریانوں کے خون میں گاڑھا پن ،جس کی وجہ سے شریان کا تنگ ہو جانا اور پھر اچانک بند ہو جانا،دوران خون کے عمل میں رکاوٹ کا ذریعہ بننا ،یہ تمام تدریجی عمل ہوتا ہے، جس کی عام وجوہات میں ہماری طرز زندگی، سستی وکاہلی اور بے حرکتی ،کھانے پینے اور سونے جاگنے کے غلط طریقے ، تازہ ہوا نسیم اور سورج کی روشنی سے محرومی ،پھر انفعالات نفسانی بھی اس کا ایک اہم سبب ہے، جس میں دماغی صدمات، اچانک خوشی وغم ،مستقل خوف اور بد امنی کی کیفیت، غصہ و غضب، نفرت و انتقام کے جذبات کا حاوی رہنا شامل ہے، چوں کہ قلب ایک لحمی عضو کے ساتھ جسمانی وروحانی عضو بھی ہے ،اس لیے تو حدیث میں:
تقوی ہا ھنا
یعنی تقوی کا مرکز قلب کو قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ہم قلب کو خالص مشینی عضو اور قلب کی بیماریوں کو صرف جسمانی بیماریوں کی حد تک محدود رکھیں گے تو ایک بڑی حقیقت کو نظر انداز کریں گے۔ قلب کی مکمل صحت کے لیے قلبی و روحانی اور باطنی بیماریوں کا علاج بھی اتنا ہی ضروری اور اہم ہے، جتنا کہ اس سے متعلق جسمانی بیماریوں کا ہے۔ باطنی بیماریوں میں تمام منفی جذبات شامل ہیں ،جس میں غصہ ، نفرت،کینہ، بغض، تعصب، حسد ، جلن ،بدخواہی، دل کی سختی، غفلت، نفاق، شکم پرستی، شہوت پرستی، نفس پرستی ،لالچ وحرص جیسے جذبات شامل ہیں، اور یہی جذبات غلط اعمال کا محرک بنتے ہیں، جس کے نتیجے میں بخیلی، ریا کاری، دشمنی، انتقام ،سستی وکاہلی ،موٹاپا،جہالت،تکبر، مایوسی جیسے نتائج سامنے آتے ہیں اور بالآخر انسان کو نفسیاتی ،ذہنی ،روحانی اور پھر جسمانی مریض بنا دیتے ہیں ۔
اسی لیے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دور حاضر میں جو عالمی یوم قلب منایا جاتا ہے اس کے تھیمز میں مند رجہ ذیل کوٹس شامل ہیں جیسے:
(1) ہمدردی اور محبت کو عام کرو، ایک صحت مند دل کو حاصل کرو۔
(2) دل لگاؤ انسانیت سے۔
(3) دل بساؤ محبت اور ہم دردی سے۔
(4) کھیلو،بھاگو،تیرو اور مسکراؤ اور عہد کرو کہ اپنے دل کا خیال رکھیں گے، کیوں کہ آپ کے پاس ایک ہی دل ہے۔
اور اس سال 2024 کے لیے جو تھیم طے ہوئی ہے وہ ہے:’’ یوز ہارٹ فار ایکشن‘‘ یعنی’’ دل کو عمل کے لیے استعمال کرو ‘‘مطلب اپنے جذبات کو اپنے اعمال کا محرک بناؤ ۔ چوں کہ دل ہمیشہ با حرکت رہنے والا عضو ہے، اس لیے زندگی کو بھی با حرکت اور با مقصد بناؤ، کیوں کہ حرکت میں ہی برکت ہے۔ دل کی ہر دھڑکن زندگی کی شہنا ئی ہوتی ہے، اس کو بھرپور جیو اور اس کی حفاظت کرو ۔ دل کا گہرا تعلق جذبات سے ہے، اس بات کو تقویت دینے کے لیے یہ عینی مشاہدہ بھی کافی ہے، جس پر ازل سے انسانی زندگی کی تاریخ شاہد ہے اور ہمارے ادب ، لٹریچر ،افسانے ،غزل، شاعری ، جس سے بھرے پڑے ہیں۔جب محبت اور نفرت کی باتیں ہوتی ہے، خوشی اور غم کی کیفیت،رضاءالٰہی یا محبت الہی یا مودت و رحمت مابین خلائق گفتگو ہوتی ہے یا انسان کی فطری محبتوں کا ذکر ہوتا ہے جس میں مال ،زر ،زن ،زمین ،رشتے ناتے شامل ہیں، تو یقینا ًدل کا ذکر ہوتا ہے۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے ؟
علامات امراض قلب(Symptoms)
عام علامات جو دورۂ قلب سے پہلے ظاہر ہوتی ہیں:
(1) سینے میں درد ،کبھی تناؤ جیسا کبھی چبھن جیسا، کبھی جلن جیسا جو اعصاب کی شمولیت کی وجہ سے بائیں بازو میں بھی محسوس ہوتا ہے، اور بائیں جبڑے تک بھی پہنچتا ہے۔
(2) پسینے کی زیادتی عام حالت میں بھی
(3) دھڑکن کا تیز ہونا
(4) دھڑکن کا سست ہونا
(5) دھڑکن کا محسوس ہونا
(6) کھانے کے بعد گلے میں جلن اور اس کے ساتھ کبھی کبھی کھانسی
(7) سانس کا پھولنا، عام چہل قدمی یا بنا ریاضت اور ورزش کے
(8) ہاتھوں اور پیروں کی مزمن سوجن
(9) امراض صمامات قلب میں قلب کی طبعی آواز میں رد و بدل ہوتا ہے
عوامل خطرات (Risk Factors )
(1) عمر، 40 کے بعد
(2) جنس،عورتوں کی نسبت آدمیوں میں زیادہ
(3) تمباکو نوشی اور شراب نوشی
(4) صحت بخش تغذیے کی کمی
(5) بے حرکتی اور سستی وکاہلی کی طرز زندگی
(6) تناؤ بھراطرز زندگی
(7) انفعالات نفسانیہ
(8) بیماریاں جیسے کہ فشار الدم، ذیابیطس ، موٹاپا، بڑھا ہوا کولیسٹرول وغیرہ
دل یا قلب کی تن درستی کے لیے ایک دن کی محنت کافی نہیں ہے، اس کے لیے صحیح علم و آگاهی اور مستقل شعور کے ساتھ طرز زندگی میں مثبت تبدیلی ضروری ہے ،تبھی ہم آخری سانس تک ایک صحت مند اور خوش مزاج دل کے ساتھ بھرپور اور خوش گوار زندگی گزار سکتے ہیں۔حفظ ما تقدم (preventive Measures) روز مرہ زندگی کی معمولی چیزوں میں مستقل مزاجی سے عمل بڑے اور بہتر نتائج کا ضامن ہوتی ہے، جیسے حدیث میں ارشاد مبارک ہے:
’’ وہ عمل بہتر ہے جو روز کیا جائے، چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
اور طبی اصول اصول بھی یہی ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
(1) صحت بخش غذائوں کا استعمال جس میں پھل، سبزیاں،ترکاریاں،دالیں، مچھلی،خشک میوے، ادرک، لہسن ،لیموں اور کچھ تغذیہ بخش تیل شامل ہیں۔
(2) حرکت نفسانی اور حرکت بدنی یعنی روزانہ کی ورزش
(3) کھلی اور تازہ ہوا کا استعمال
(4) تناؤ بھری زندگی سے پرہیز اور سادہ طرز زندگی
(5) محبت وہم دردی کے جذبات، خوش مزاجی اور امن پسندی
(6) تمباکو نوشی اور شراب نوشی سے پرہیز
(7) منفی جذبات سے دوری
آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں دل کے امراض کا تناسب بہت تیزی سے بڑھ گیا ہے، جس کی اصل وجہ ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی ہے۔پچھلے 20 سال میں 2.7 ملین سے 4.7 ملین لوگ اس مرض میں اضافہ کا شکار ہوئے ہیں، یعنی% 52 آبادی امراض دل میں مبتلا ہے اور ہندوستانی میں ہر پانچواں انسان دل کا مریض بن چکا ہے۔ عالمی سطح پر ہر سال 20 ملین لوگ امراض دل کی وجہ سے اموات کے شکار ہیں۔دور حاضر کے ماہرین طب اور ماہرین قلب اطباء امراض قلب کی پیچیدگیوں کو حل کرنے کےلیےکئی نےجراحی کےطریقے ایجاد کیے، جس میں بائی پاس سرجری،اینجیوپلاٹیی ،اوپن ہارٹ سرجری ،اور پیس میکر فکسنگ وغیرہ شامل ہیں ،جس سے انسانیت فیض یاب ہو رہی ہے ،لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ تشخیص کی غلطیاں ،کچھ طبیبوں کا پیشہ ورانہ طرزِ عمل اور مادہ پرستانہ ذہنیت اور بڑے اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی لوٹ مار کےبازار بےشمار مریضوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ان کی غلط رہ نمائی کرکے ان کو علاج کے نام پر غیر ضروری جراحات کے ذریعے مریض اور اس کے سارے خاندان کو جانی ،مالی اور نفسیاتی اذیت میں مبتلا کر رہے ہیں، جس سے چوکنا رہنے کی ہم کو ضرورت ہے۔
تشخیص کے لیے معاون ٹیسٹ
(1)ای سی جی
(2) ایکو کارڈیو گرام
(3) تناؤ امتحان
(4) کارڈیک سی ٹی اسکین
(5) کارڈیک ایم آر آئی
اس عالمی یوم قلب پر ہمیں یہ عہد لینے کی ضرورت ہے کہ ہم سب اپنے دل کی شعوری طور پر حفاظت کریں گے اور اپنے دل کو صحت مند رکھنے کی تمام تدابیر پر خود بھی عمل کریں گے، اور دوسروں کو بھی اس کی آگاهی اور ترغیب دیں گے، ان شاءالله۔
٭ ٭ ٭
0 Comments