مغرب میں خاندانی انتشارکی وجوہات

اسلام ایک مکمل دستور حیات و ضابطۂ زندگی پیش کرتا ہے، جس کو اللہ رب العزت نے بڑے ہی مفصل انداز میں بیان فرما دیا ہے ۔قرآن مجید کے اندر تمام ہی شعبہ ہائے زندگی سے متعلق رہ نمائی عطا کی گئی ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، معاشی زندگی سے ہو یا معاشرتی زندگی سے، سیاسی زندگی سے ہو یا سماجی زندگی سے۔
ارشاد باری تعالی ہے:

وَهٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسۡتَقِيۡمًا‌ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّذَّكَّرُوۡنَ

 (الانعام: 126)
(یہ راستہ تمھارے رب کا سیدھا راستہ ہے، اور اس کے نشانات ان لوگوں کے لیے واضح کر دیے گئے ہیں، جو نصیحت قبول کرتے ہیں۔)
موجودہ دور مغرب کے علمی اور فکری غلبے کا دور ہے، اسی غلبے کا نتیجہ ہے کہ آج مغرب کے افکار و نظریات ہر چہار طرف راج کرتے نظر آتے ہیں ،مغرب کے اس غلبے کے پیچھے دراصل مغرب کی محنت اور جدوجہد کے ساتھ ساتھ ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا طویل سلسلہ ہے۔
پھر بھی اس وقت مغرب میں بسنے والا ہر فرد ذہنی کش مکش اور روحانی طور پر اضطرابی کیفیت کے عالم میں ہے،مغرب کا معاشرہ ہو یا خاندانی نظام شدید مشکلات میں مبتلا ہے ،خاندان انسان کی پرورش کی سب سے پہلی سیڑھی ہوتا ہے،یہ خدائی قانون ہے کہ انسان ایک خاندان میں آنکھ کھولتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالًا كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِهٖ وَالۡاَرۡحَامَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيۡكُمۡ رَقِيۡبًا 

(سورۃ النساء: 1)

(لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا،اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا،اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے،اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر ایک دوسرے سے حق مانگتے ہو،رشتہ و قرابت کے تعلقات بگاڑنے سے پرہیز کرو ،یقین جانو اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔)
رشتے ناتےدین میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں،رشتوں کی قربت حسن سلوک کی بنیاد قرار پاتی ہے،سب سے زیادہ حسن سلوک کے حق دار ماں باپ،پھر بہن بھائی،بیوی بچے ہوتے ہیں۔رشتوں کا شعور کوئی فلسفہ نہیں،بہت سادہ سی بات ہے،ان کا احترام اور انھیں نبھانا کٹھن مگر غیر معمولی اوراہم ہے،اتناا ہم کہ رشتے ہماری جنت یا جہنم ہو سکتے ہیں۔
اسلام کی دی گئی تعلیمات پر عمل کے نتیجے میں مضبوط رشتے،مستحکم خاندان اور سماج کے افراد کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوتے ہیںاور رشتوں کی طاقت تحفظ کی مضبوط دیوار فراہم کرتی ہے۔
مغربی دنیا میں بھی جو اپنی سائنسی ترقی وایجادات کے سبب دنیا کی علمی و تہذیبی قیادت کر رہی ہے،وہاں بھی خاندان کا ایک مستحکم ادارہ ہوا کرتا تھا اور شادی کو ایک مقدس عمل مانا جاتا تھا،خاندان اور اس کے ارکان کے درمیان محبت و الفت کی کمی نہیں تھی،مگر مذہب سے بغاوت اور صنعتی ترقی نے مغربی دنیا کو نئی تہذیبی قدروں سے روشناس کروایا اور پرانی معاشرتی و مذہبی اقداروروایات کو ملیامیٹ کرنے کی تحریک چلا بیٹھا اور لادینیت ہی اس کا دین ٹھہری،اور صنعتی ترقی کے پیش نظر نصف انسانیت یعنی خواتین کو ورک فورس میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی،جس کے لیے انقلابی و پرفریب نعرے دیے گئے اور خوب صورت مستقبل کے سبز باغ دکھائے گئے،جیسےمساوات مرد و زن ،حقوق نسواں،آزادی نسوا ں ؛یہ نعرے اس قدر پرکشش تھے کہ مغرب کیا مشرق تک کی عورت ان جذباتی و انقلابی نعروں سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس کو احساس ہی نہیں ہوا کہ کہاں سے کہاں تک چلی گئی،اور میری زندگی میری مرضی،میرا جسم میری مرضی،ہم آج کی عورت،عورت بچہ پیدا کرنے والی مشین نہیں جیسے نعروں کے ساتھ خواتین نے اپنی آواز ملائی۔
محترم ایس امین الحسن صاحب لکھتے ہیں:
’’ یورپ سے اٹھنے والی اس تحریک نے عورتوں کے اندر جذبۂ بغاوت پیدا کیا ان کی اصل حیثیت جو امومت کی ہے،اس قبا کو انھوں نے چاک کیا۔عورتوں کی آزادی کا نعرہ دراصل خاندانی بندش سے آزادی کا نعرہ تھا ،جس سےشادی کا تقدس ٹوٹ گیا،خاندان کی حیثیت بدل گئی۔‘‘
محترم مزید لکھتے ہیں :
’’چار اہم ترین عوامل نے خاندان کی چولیں ہلا دیں۔
(1)شرح پیدائش میں کمی
(2)عورتوں کا طبقۂ مزدور میں شامل ہونا
(3)جنسی بے راہ روی
(4) طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح
امریکہ میں خاندانی نظام کے زوال کی صورت حال کا مطالعہ بتاتا ہے کہ طلاق کی شرح میں گذشتہ 25 سالوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے، پہلے ہزار شادیوں میں 30 شادیاں طلاق پر ختم ہوتی تھیں اور آج 25 سال بعد یہ تعداد بڑھ کر 135 ہو گئی ہے۔
اس صورت حال نے شادی کے متبادلات کو جنم دیا جو انسانی سماج کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہے،جب شادی کا بوجھ اٹھانے کے لیے لڑکا اور لڑکی تیار نہیں ہیں تو لے دے کے ایک جنسی تسکین ہی ہے جس کے لیے ایک دوسرے کی ضرورت پیش آتی ہے،جس کے لیے چور دروازے کھول دیے گئے ہیں۔
(1) زنا
(2) لیو ان ریلیشن شپ
(3) N-S-A-No string attached (بندش سے آزاد جنسی رشتہ)
(4) F-W-D Friend with benefit
(دوستی اور فائدے کا تعلق)
(5))O-N-S one night stand ایک رات کی مہمان نوازی)
(6)ہم جنسیت
یہ ہیں وہ جوہات جس کی بنا پر عورت اس مقام پر کھڑی ہے ،جہاں سے پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے تو اسے اپنا گھر اور خاندان تباہ ہوتا نظر آتا ہےاور آگے دیکھتی ہے تو تا حدنگاہ صرف ویرانہ ہے ۔
امریکی ادارے ریشنل سینٹر آن فیملی ہوم لیسنس میسا چوس(Rational center on family homelessness)کی رپورٹ کے مطابق 106 ملین بچے سڑکوں پر یا پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں،ان بچوں کے سربراہ مرد نہیں عورتیں ہیں،یہاں ہزاروں بچے اپنی ماؤں کے ساتھ گاڑی میں،پرانی عمارتوں میں،خراب بسوں میں،پلوں کے نیچے اور سڑکوں پر سوتے نظر آتے ہیں۔
کیوں کہ ان بچوں کا کوئی خاندانی حوالہ نہیں ہے، نہ یہ کسی کے بھتیجے ہیں نہ بھانجے نہ پوتے ہیں نہ نواسے، کیوں کہ ان کی ماں کسی کی بیوی نہیں تھی،اس کا ایک بوائے فرینڈ تھا جو اب چھوڑ کر جا چکا ہے،لہٰذا اب یہ تنہا ماں یعنی سنگل موم ہے۔

پیو ریسرچ کے مطابق امریکہ میں بالغوں کا محض 15 فی صد شادی شدہ ہے،یہاں 42 فی صدتنہا مائیں ہیں،انتہائی کس مپرسی کے عالم میں سانس کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے امدادی غذاؤں اور دواؤں کی منتظر ہیں،غیر شادی شدہ لوگ بوڑھے ہو رہے ہیںمگر نئی نسل پیدا نہیں ہو رہی ہے۔
20 مارچ 2024 ءکو معروف امریکی جریدے نیوز ویک نے ایک مضمون لکھا ہے کہ خاندانی نظام بکھر چکا ہے ،تنہائی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے،بیزاری، اداسی، تنہائی اور بے چینی عام ہے۔ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ کئی گنا بڑھ چکا ہے،منشیات اور ہتھیاروں کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے،شدید مایوسی اور بدحواسی کے عالم میں لوگ ایک دوسرے پر گولیاں برساتے ہیں یا خود کو گولی مار لیتے ہیں۔
مزید لکھتا ہے کہ امریکہ میں بہت سے لوگ یہ شکوہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ عجیب پاگل پن کے دور میں جینا پڑ رہا ہے ،مستقبل بہت تاریک دکھائی دے رہا ہے،مذہب سے دوری آج بھی فیشن کے درجے میں ہے، بہت سے نوجوان محض فیشن کے نام پر لادینیت اختیار کیے ہوئے ہیں ،فخر سے کہتے ہیں کہ میں تو کسی مذہب کو نہیں مانتا۔
مغرب کے مقابلے میں جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو خاندانی نظام اور اس کے استحکام کے انتہائی خوب صورت مناظر سامنے آتے ہیں۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 1 سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مرد وعورت کی تخلیق ایک ہی طرح سے ہوئی ہے ،دونوں کے جسمانی ساخت مختلف ہے مگر سفر زندگی میں دونوں ایک دوسرے کے ممدو معاون ہیں، ایک دوسرے کے بغیر زندگی کا سفر احسن طریقے سے طے نہیں کیا جا سکتا، چناں چہ نکاح کے مقدس بندھن میں بندھ کر دونوں ایک دوسرے کے ہم سفر بن جاتے ہیں،اسی مقدس بندھن کے بنا پر اعتماد، محبت اور بے تکلفی پیدا ہوتی ہے ۔
قرآن مجید زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے۔پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں گھر والوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہو، آپ نہ صرف ازواج مطہرات کے جذبات کا خیال رکھتے تھے ،بلکہ ان کی جائز تفریحات میں بھی شرکت فرماتے تھے،اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ اس قدر اعلیٰ ہے کہ کسی دوسرے سماج میں خواتین کے حقوق کا ایسا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔
یورپ جو کہ اپنی سیکولر سوچ کے باعث اپنا خاندانی نظام تباہ کر بیٹھا ہے،اب عمائد ین یورپ اپنی نسلوں کی بقا کے لیے مجبور ہیں کہ خاندان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سال بھر میں ایک دن اس مقصد کے لیے منائیں ،تاکہ سیلاب ،زلزلوں اور طوفانوں میں اپنے والدین اور بزرگوں کو ریاستی اداروں کے سپرد کر کے اپنے کتوں اور بلیوں کے ساتھ بھاگنے کے رویے سے باز آجائیں ۔
سیکولرازم کے اس رویے نے انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر بنا دیا ہے۔ مشرق و ایشیا میں انبیاء علیہ السلام کے آغاز کردہ نکاح کا ادارہ باقی ہے، تو دینی و مذہبی شعور کے باعث یہاں کے گھروں میں دن کا آغاز کسی بڑے کی آواز سے بیداری کے بعد ہوتا ہے، اور دن کا انجام گھر کی بزرگ خاتون کی کہانی یا لوری پر اختتام پذیر ہوتا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ مغرب میں خاندانی نظام کے انتشار کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ الحاد و بے دینی ہے۔
جب انسان اللہ کے وجود سے انکار کرے گا تو ظاہر ہے کہ تمام چیزوں میں خلفشار پیدا ہوگا،کیوں کہ کسی بھی معاشرے کو استحکام بخشنے کے لیے ایک لیڈر کی ضرورت ناگزیر ہے ،ہمارے رب نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے ،ہماری سوسائٹی کو برقرار رکھنے کے لیے وہی ہمارا اصل لیڈر ہے،جس نے ہمیں گائیڈنس دی ہیں،جب اس رب کو اپنا رب مان کر اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی تو اسی طرح کے خلفشار لازمی ہیں۔
(1)الحاد وبےدینی
(2)مادیت پرستی
(3)اقتصادی ترقی کے لیے عورتوں کا گھر سے نکل کر جدوجہد کرنا
(4)آزادا نہ اختلاط
(5)بے حیائی و عریانیت

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

1 Comment

  1. zakia Amatullah

    ما شا الله بهترين مضمون آجكے معاشرے کی زبردست عکاسی کرتے ہوئےاسلامی قرآنی نظریے کو پیش کرنے کی بھرپور کوشش
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔۔۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے