ہمیں عریاں ہی رہنے دو!
ہماری بے لباسی ،نازک اندامی نے ہر منظر کو رنگینی عطا کی ہے
سر محفل بھی سر مستی ،سر بازار بھی رونق
ہمارے حسن رنگین سے گلی کوچے بھی رنگیں ہیں
ہمارے دم سے ہر سامان عشرت میں نکھار آیا
ہماری ہی بدولت تاجروں کے خواب رنگیں ہیں
ہمارے جسم ہی کی چاندنی پھیلی ہے
اخباروں، رسالوں میں ہمارا پیکر بے باک
کل آنکھوں میں چبھتا تھا
مگر تہذیب مغرب نے یہ رفعت ہم کو بخشی ہے
کہ ہم شاداں و فرحاں ہیں لباس بے لباسی میں
ہمارے پھول جیسے جسم پر ہر پیرہن ایک بوجھ بنتا ہے
کہ ہم نالاں بہت ہیںپارچہ بافی کی صنعت سے
یہ شاید اس تمدن کی ہے سب سے بے ضرورت شے
لباسوں کے تکلف سے ،تصنع سے
قدامت کے پرستاروں نے کیوں انسان کو بوجھل بنایا ہے؟
کہ فطرت نے ہمیں خوش رنگ و د ل کش جلد بخشی ہے
خدا کی کوئی بھی مخلوق کپڑوں کی نہیں مرہون منت ہے
برا کیا ہے اگر ہم دور وحشت میں پلٹ جائیں؟
چلو یہ خیریت ہے میڈیا ہے مہربان ہم پر
کوئی مشکل نہیں ہے جستجوئے جسم عریاں اب
کہ اخباروں رسالوں کے مدیروں نے یہ بیڑا خود اٹھایا ہے
کہ اب ملبوس سے بیزار عورت ہرگلی کوچے پہ حاوی ہے
ابھی تو اس سفر کی منزلیں کچھ اور باقی ہیں
ابھی زنبیل میں مغرب کے ہیں کچھ اور بھی ساماں
عریانیت کی صدائےاحتجاج
زمرہ : سخن سراپا
Comments From Facebook
ستمبر۲۰۲۴
0 Comments