راحیلہ بچوں کے کام پہ چلے جانے کے بعد سارے گھر میں اکتائی ہوئی پھرتی۔ گھر کی ہر جگہ، ہر کونا اس کے شوہر کی یادوں سے بھرا پڑا تھا۔جواد کو جدا ہوئے دو سال ہونے کو آئے، زندگی معمول پر تو تھی، بس دل کہیں چین نہیں پاتا تھا۔ بچے بڑے تھے، ان کی اپنی مصروفیات تھیں، ویسے بھی یہ لڑکے ذات ٹک کر کہاں بیٹھتے ہیں؟
راحیلہ کام سے فارغ ہونے کے بعد دروازے پر کھڑی ہو جاتی۔ گلی میں کھیلتے ہوئےبچوں کا شور دل کے سناٹے کو کچھ کم کرتا۔ آس پڑوس میں سبھی قریبی رشتہ دار ہی بستے تھے، مگر وقت برا تھا، شوہر سے محروم تھی، اس لیے اس سے منسوب رشتوں نے بھی منہ موڑا ہوا تھا ۔سبھی نمازی تھے۔ دیور کالج میں لیکچرر تھا، اس کے علاوہ بھی درس وتدریس کا کام کرتا تھا، سسر ،جیٹھ ،چچا سسر؛ سبھی حاجی نمازی معاشرے کے متقی لوگوں میں نامزد تھے ،مگر راحیلہ کی خبر گیری کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں تھا، کیوں کہ سبھی کو اپنی روٹین میں فرق نہیں آنے دینا تھا ۔عبادتوں میں کوتاہی کی بڑی درد ناک سزا ہے اور آخرت میں اللہ کو جواب بھی تو دینا ہے، تو ایک بیوہ عورت جس کا بیوہ ہونا ہی اس کے لیے جرم تھا، اس کی کسے فکر تھی؟ اب جب تک زندگی تھی،اسے اپنے آس پاس اسی طرح کے سرد رویوں کو اپنا مقدر سمجھ کر خندہ پیشانی سے برداشت کرنا تھا ،بیوہ جو ٹھہری۔
آج بھی گھر کے کام ختم کرتے ہی دروازے پرکرسی لگا کر بیٹھ گئی۔ گلی چوں کہ عام راستہ نہیں تھا ،چناں چہ سامنے سے دیور آتا دکھائی دیا۔ سلام کا جواب دینے کےبعد یوں ہی سرسری سی بات کرنے کے لیے بات شروع ہی کی تھی کہ دیورانی نے کرخت آواز میں اپنے شوہر کو آواز دی:
’’کیا تم بھی باتوں میں لگ گئے۔ بھابھی کے پاس تو فرصت ہی فرصت ہے۔ سارا دن سڑک پر کرسی لگائے بیٹھی رہتی ہیں، آپ کو تو ایک سیمینار میں جانا ہے ناں؟‘‘
دیور کا سر تائید میں اسپرنگ کی طرح ہلنے لگا ۔سیمینار اٹینڈ کرکے اپنی رپوٹیشن کو بھی تو برقرار رکھنا تھا ۔
’’اور بھابھی! کیا آپ بھی فری بیٹھی رہتی ہیں، کچھ تلاوت ہی کر لیا کیجیے، جواد بھائ کا کچھ بوجھ تو کم ہوگا ۔‘‘ دیورانی نے زور سےگیٹ کو بند کرتے ہوئےکہا۔
راحیلہ دھندلاتے عکس کو گیٹ سے ہوتے ہوئے گھر کے اندر جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ گال گیلے ہوئے تو چہرے کو ٹٹولا ۔
’’آنسو کیوں نکل جاتے ہیں اللہ میرے بار بار؟‘‘ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔
٭ ٭ ٭
0 Comments