شخصیت کی ارتقاء سے ہے ممکن اجتماعیت کا ظہور

اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق انسانی کے ساتھ ساتھ نظامِ زندگی و مقصدِ حیات بھی متعین کر دیا ہے ۔چناں چہ ارشادِ ربانی ہے کہ ہم نے انسان کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی جان سے اس کے کئی جوڑے بنائے اور جس سے خاندان، برادری ،قوموں، جماعتوں کا ظہور عمل میں آیا ۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم میں کا ہر فرد اپنی آفرینش کے مطابق روز محشر بھی تن تنہا اپنی قبروں سے اٹھایا جائے گا اور اپنے محاسبےکا مکلف بھی وہی تنہا ہوگا۔ یہاں انسان کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی زندگی کی شاہ راہ خود متعین کرے اور اس کے مطلوبہ سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالے،حصولِ مقاصد کی لگن و جستجو ہو۔
درحقیقت فرد کے علم و ادب اس کے اخلاق و اعمال کے ارتقاء کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ہے، جو محض اس کی شخصیت تک محدود نہیں ہے ،بلکہ پوری نوعِ انسانی پر منحصر ہے۔ انسانی زندگی کا ہر گوشہ باہمی تعلقات سے وابستہ ہے۔ ہمارےخوش گوار تعلقات ایک صالح معاشرے کے ضامن ہیں۔ اخلاقی اعتبار سے اتمام حجت کردینے والی ذات تو انبیاء ورسلؑ کی ذات ہے۔
اسلام نے اپنے پیروکارں کو امت مسلمہ سے مخاطب کیا۔ گویا ایک ایسا جتھا جیسے ایک ’’ام‘‘ کی اولاد ،واحد قائد کی وفادار اور ایک کتاب کی علم بردار ہو۔
بقولِ اقبال:ؔ

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر

امت کے اندر پنپنے والی تحریکات و جماعتوں کے اندر کوآرڈینیشن اس کی اصل روح ہے۔ حصولِ مقصد کی تڑپ میں علمی ،ذہنی و فکری ہم آہنگی ہو، خلوصِ نیت کے ساتھ افہام و تفہیم، فراخ دلی و یک جہتی کا طرز عمل ہو، جسے قرآن دشمن کے مقابلے میں ’’بنیان مرصوص‘‘ سے تشبیہ دیتا ہے۔اس کے برعکس باہمی منافرت ،کشیدگی ،اخلاقی گراوٹ اجتماعیت کی جڑوں کو کھوکھلا بنا دیتی ہے۔ مولانا مودودی علیہ الرحمہ کا قول ہے کہ بازار میں خالص سکہ درکار ہے، تانبے کے سکےپر اشرفی کی مہر بازار میں نہیں چلے گی۔ملت اسلامیہ کا ایک عظیم الشان ماضی منفرد تاریخ کی حامل ہے۔ تحریکات کے اندر نشیب و فراز کا پایا جانا ایک فطری عمل رہا ہے۔ اللہ رب العالمین نے جس قوم کو ’’فضلتکم علی العالمین‘‘کا شرف بخشا تھا، آگے چل کر وہی قوم ’’ضربت علیکم الذلۃ و المسکنۃ‘‘ کا شکار ہوگئی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خورشید مبیں کا مطالبہ کرتے ہوئے تنبیہ کی ہے کہ جو متحد جماعت کو منتشر کرے، اس کی گردن مار دو ،خواہ وہ کوئی بھی ہو اور مزید فرمایاکہ جماعت سے ایک بالشت بھی ہٹ کر موت آجائے تو وہ جاہلیت کی موت ہوگی ۔( مسلم )
دنیا میں نظام جمہوریت قائم ہوتا ہے۔ افراد کے متحد ہونے سے مادی وسائل رکھنے کے باوجود قومیں فاتح نہیں بلکہ شکست خوردہ کہلائیں۔ اجتماعیت کے نظم و ضبط پر قائم رہنے اور تفرقہ سے گریز کرنے کا حکم قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے ۔
واعتصموابحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا
( تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔)
آج مسلم ممالک کراہ رہے ہیں ، ’’العطش ‘‘کی صدائیں لگا رہے ہیں۔ ہم سے ان آیتوں میں موجود احکام کی تعمیل اور ان کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Naziya tabassum

    Maa sha allah
    Behtareen

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے