مثالی سماج کےخد وخال اسلامی اخلاقیات کے تناظر میں

اخلاق کیا ہیں؟

اخلاق ان اصولوں، اقدار اور رویوں کے مجموعے کا نام ہے جو یہ طے کرتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے ۔اخلاق وہ قواعد اور ضوابط ہیں جو انسانی کردار اور عمل کو رہ نمائی فراہم کرتے ہیں، تاکہ لوگ اپنے فیصلے اور عمل درست طریقے سے کر سکیں ۔ اخلاقیات کا مقصد یہ ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ عزت، انصاف اور نیکی کے ساتھ پیش آئے اور اپنے اعمال کے نتائج پر بھی غور کرے، اخلاق ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ کون سا عمل درست ہے اور کون سا عمل غلط ہے؟ یہ انسان کے کردار کو مضبوط بناتے ہیں اور اسے ایک بہتر فرد بننے میں مدد کرتے ہیں۔ اخلاقیات انسان کو سماجی فرائض اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری سکھاتے ہیں۔

ارادہ و اختیار کا تقاضہ

انسان کو اختیار اور ارادے کی آزادی دی گئی ہے، اس لیے کہ جہاں کوئی ارادہ اور اختیار نہ پایا جاتا ہو ،وہاں کسی اخلاق اور کردار کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاق کا تعلق انسان کے ارادے سے ہے، انسان کو دنیا میں ارادہ اور اختیار کی آزادی حاصل ہے، اس لیے اس کا ایک اخلاقی وجود ہے، یہی چیز ہے جو اسے عام حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔

اخلاق انسانی زندگی کا حسن

اخلاقی اصول اکثر مختلف معاشروں اور ثقافتوں میں مشترکہ ہوتے ہیں،جیسے:سچائی، ایمان داری اور دوسروں کی مدد کرنا وغیرہ۔
اخلاق انسان کے لیے کوئی ناخوش گوار بوجھ نہیں ہے، جیسے رنگ و بو پھولوں پر بوجھ نہیں ہیں، پرندوں کے پر پرندوں کے لیے کبھی بھی بوجھ ثابت نہیں ہوتے بلکہ یہ پر ان کے لیے باعث زینت بھی ہیں اور پرواز میں بھی مدد کرتے ہیں ،یہی حال پھولوں کے رنگ اور بو اور آنکھوں کی پلکوں کا بھی ہے۔انسانی زندگی میں بھی حقیقی حسن وخوبی اخلاق ہی سے پیدا ہوتی ہے،اخلاق سے عاری ہو جانے کے بعد انسان کے پاس کوئی قابل قدر چیز باقی نہیں رہتی۔
اخلاق دراصل ایک عالم گیر اور آفاقی اصول کا نام ہے۔ اخلاق ہی ہماری باطنی زندگی کا بھی قانون ہے، جس کے ذریعے انسان کی اندرونی زندگی میں توازن پیدا ہوتا ہے اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔اخلاق و کردار جب بلند ہوتے ہیں تو اخلاقی قوانین اور اصول انسان کے لیے اجنبی نہیں رہتے، بلکہ وہ اس کے اپنے ہی شعور اور احساس کا حصہ ہوتے ہیں ۔آدمی جس چیز کو اپنے دل کی گہرائیوں میں پاتا ہے اس کو اختیار کرنے کے لیے کسی خارجی قانون، ضابطہ اور دباؤ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

اخلاقی اصولوں کا اصل ماخذ مذہب

انسانی معاشرے سے انسان کا گہرا تعلق ہے، وہ اپنے سماج کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ کئی افراد مل کر سماج تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے سماجی ذمہ داریوں کو انسانی اخلاق سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اخلاق کا وہ اعلیٰ اور کامل تصور ہی ہے جس میں فرد کی فلاح اور اجتماعی لحاظ سے تمام انسانوں کی فلاح و کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ اعلیٰ اخلاق سے ہی مشکلیں آسان ہوتی ہیں، الجھے ہوئے مسائل حل ہوتے ہیں اور دل و دماغ کو سکون اور راحت حاصل ہوتا ہے۔
اخلاق کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلوؤں کے تذکرے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے لیے اخلاقی نظام کے واضح قوانین کہاں سے اخذ کیے جائیں؟ اس سوال کا صحیح جواب صرف مذہب کے پاس ہے۔ انسانی فکر کے سامنے اخلاق کے فطری تقاضے تو ابھر سکتے ہیں لیکن مذہب کے تعاون کے بغیر وہ مکمل نہیں ہو سکتے۔

دین اسلام میں اخلاق

اس سلسلے میں جب ہم اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں جو کہ کامل، مستند اور خدا کی طرف سے آیا ہوا آخری دین ہے تو ہمیں خیر و شر، نیک و بد اور صحیح و غلط کا واضح علم ہوتا ہے ۔اسلام میں علم کا اصل ماخذ خدا کی ہدایت، کتاب الٰہی اور رسول اللہ کی تعلیمات ہیں۔ خدا کے عطا کردہ قانون اخلاق ہی انسانوں کے لیے واجب الاطاعت ہیں۔انسان کے لیے فلاح و خیر اسی میں ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو جس کے لیے وہ اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ،اور اسی دنیا کے طرز عمل پر آخرت کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہے۔ خدا کی ہدایت ہی علم کا اصل ماخذ ہے، خدا کی محبت ،اس کی رضاو خوشنودی کی طلب اور اس کی ناراضگی سے بچنے کی فکر؛ اخلاق کی پابندیوں اور برے اخلاق سے بچنے کا اصل محرک ہے ۔
خدا شناس افراد سے مل کر جو سماج وجود میں آتا ہے، وہ صالح ہوتا ہے اور اس میں قانون کی پابندی پر آمادہ کرنے کے لیے فرض شناسی کا احساس بھی پورے طور پر کام کرتا ہے ،اور حق سے محبت اور باطل سے نفرت کا جذبہ بھی اس سلسلے میں محرک کا کام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وجود دے کر مقصد وجود کا علم بھی بخشا ہے اور وہ انسان کو حقیقی مقصد حیات کی طرف رہ نمائی بھی کرتا ہے،تاکہ اس کی زندگی درجۂ کمال تک پہنچ سکے۔ اپنے رب کی طرف بڑھنے سے ہی انسان کی تکمیل ہوتی ہے ،خدا سے بے نیاز ہو کر انسان پستی میں گر جاتا ہے ۔
اسلام نے پوری وضاحت کے ساتھ انسان کی اس طرز عمل کی طرف رہ نمائی کی ہے، جس سے اسے دنیا کے آزمائشی دور میں گزرنا ہے۔ اسلام نے جو تعلیم دی ہے اس سے فرد ہی نہیں بلکہ جماعت، قوم اور پوری انسانیت زندگی کی طرف بڑھ سکتی ہے ،اور ایک دوسرے کو آگے بڑھنے میں اور ایک دوسرے کی تکمیل میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے فطرت کے خلاف عمل کرنے کا نام بدی ہے اور اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان پستی اور گراوٹ کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے، جہاں کوئی بھی چیز اس کی پسندیدہ نہیں ہوتی، اور جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اس کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے ،جہنم ایک ایسا ہی مقام ہے جس تک آدمی کو اس کی اخلاقی گراوٹ ہی پہنچا دیتی ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ اخلاق کی اصل بنیاد انسان کی اپنی فطرت کی پہچان اور اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔
کسی شخص کی روح کی پاکیزگی یا گندگی کی سب سے نمایاں کسوٹی اس کے اخلاق ہوتے ہیں۔ باطن جس طرح ہوتا ہے اخلاق بھی ویسے ہی ظہور میں آتے ہیں۔اسلام میں حسن اخلاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے،آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:

بعثت لاتممہ حسن الاخلاق (مؤطا)

(میں اس لیے بھیجا گیا ہوں تاکہ حسن اخلاق کی تکمیل کر دوں۔)

البر حسن الخلق (مسلم)

(نیکی حسن خلق کا نام ہے۔)

اخلاق کا مستقل نظام

اخلاق کے بارے میں اسلام کا ایک مخصوص معیار اور مستقل نظام ہے۔ اچھے یا برے اخلاق کا فیصلہ شریعت اپنے اصول کے مطابق کرتی ہے۔ زمان اور مکان کی تبدیلی سے اس میں کوئی تغیر نہیں آ سکتا ۔سچائی اور دیانت داری ہر حال میں بہترین انسانی صفات رہیں گی، اپنا فائدہ ہو یا نقصان ہمیشہ انصاف ضروری ہوگا، وعدہ خلافی کسی کے ساتھ بھی نہیں کی جا سکتی، غرض یہ کہ اسلامی اخلاقی قدریں کسی بھی حال میں بدلنے والی نہیں ہیں۔
قرآن و حدیث میں ہم پہلے ان اخلاقیات کو دیکھیں گے جن کا تعلق انسان کی عام زندگی سے ہے، جو بنیادی نوعیت کے ہیں،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

وَاَحۡسِنۡ كَمَاۤ اَحۡسَنَ اللّٰهُ اِلَيۡكَ‌(سورۃ القصص)

(اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے۔)

وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‌ۚ ۞(سورۃ آل عمران)

(جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں،اور اللہ نیکوکاروں کو پسند کرتا ہے۔)

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوۡرٍ(سورۃ الحج)

(بلا شبہ اللہ کسی دغا باز ناشکرے کو پسند نہیں کرتا۔)

وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل)

(اور فضول خرچی نہ کر۔)

وَيۡلٌ لِّـكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ (سورۃ الہمزہ)

(ہلاکت ہے ہر طعنہ دینے والے اور عیب لگانے والے کے لیے۔)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’بلا شبہ سچائی نیکی کی طرف، اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے… اور جھوٹ بدی کی طرف، اور بدی جہنم کی راہ دکھاتی ہے۔‘‘( مسلم)
’’تھوڑی سی ریا (دکھاوا) بھی شرک ہے۔‘‘(ابن ماجہ)
’’ظلم کرنے سے بچو، کیوں کہ ظلم قیامت کے دن اندھیاروں کی شکل میں نمودار ہوگا۔‘‘ (مسلم)
’’ نرمی اختیار کرو، درشتی اور بد کلامی سے دور رہو۔‘‘ (بخاری)
یہ وہ اخلاق ہیں جن کا انسان کی عام زندگی سے تعلق ہے۔اسلام کی ان عام اور بنیادی تعلیمات کے بعد اب ہم ان اخلاقیات پر غور کریں گے جن کی تلقین زندگی کے مخصوص دائروں میں کی گئی ہے ۔انسانی زندگی میں اخلاق کا نمایاں اظہار حقوق کی ادائیگی کی صورت میں ہوتا ہے ۔
اخلاقی نقطۂ نظر سے انسان پر سب سے پہلا اور سب سے بڑا حق اس کے خالق اور مالک خدا کا ہے، خدا کے حقوق کی ادائیگی میں اس کی عبادت، اطاعت وغیرہ ساری چیزیں داخل ہیں۔
خدا کے حقوق کے بعد بندگانِ خدا کے حقوق ہیں، جن سے اس کے مختلف قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ۔خدا کے بندوں میں سب سے نمایاں حق والدین کا ہوتا ہے، والدین کے ساتھ جس رویے کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم اپنی بندگی کے فوراً بعد ہی دیا ہے:

وَاعۡبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡـئًـا‌وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا

(اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو۔)
اور مزید وضاحت کے طور پر فرمایا:

وَاخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىۡ صَغِيۡرًا

(ان کے لیے فروتنی کے بازوؤں کو رحمت (و محبت کے جذبہ) سے جھکا دو، اور دعا کرو کہ اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح کہ انھوں نے(رحمت و شفقت کے ساتھ) مجھے بچپن میں پالا ۔)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمھارے والدین تمھاری جنت اور دوزخ ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ )
’’ جو نیکوکار اولاد اپنے والدین پر محبت اور شفقت کی نظر ڈالتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ایسی ہر نظر کے بدلے میں ایک مقبول حج کا ثواب عطا فرماتا ہے۔‘‘(بیہقی بحوالہ مشکوۃ)
والدین کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کی تاکید کے بعد گھریلو زندگی کا دائرہ آتا ہے، جہاں اس کا اپنی بیوی اور بچوں سے ہر وقت کا ساتھ رہتا ہے، ہر شخص کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ فطری طور پر بڑی محبت ہوتی ہے، اس لیے وہ ان کے ساتھ ایثار اور قربانی کا سلوک بھی لازماً کرتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ سلوک محض ایک فطری تقاضے کے طور پر ہی نہ ہو، بلکہ یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے:

وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ (سورۃ النساء)

(عورتوں کے ساتھ بھلے طریقے سے رہو۔)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہوں۔‘‘
والدین اور بیوی بچوں کے بعد خاندانی زندگی کا دائرہ آتا ہے، جہاں انسان کا واسطہ بھائی ،بہن اور قریبی رشتہ داروں سے ہوتا ہے، رشتہ داروں سے تعلق کے بارے میں سورۂ نساء میں والدین سے احسان کے بعد ہی ’’ وبذی القربیٰ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح والدین کے ساتھ ان کے مرتبے کے مطابق حسن سلوک کرنا چاہیے، اسی طرح رشتہ داروں کے ساتھ بھی کرنا چاہیے۔ ان میں جو رشتہ دار جتنا زیادہ قریب ہوگا، اس کے حقوق اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
اس کے بعد پڑوس اور محلے کا دائرہ آتا ہے۔ پڑوسیوں سے حسن اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حق میں برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے خیال ہو چلا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے۔‘‘(بخاری)
’’جس شخص کا پڑوسی اس کی ایذاؤں سے محفوظ نہ ہو وہ جنت میں نہ جائے گا۔‘‘(مسلم)
اب گھر، خاندان اور پڑوس کے بعد پورے معاشرے کا دائرہ ہوتا ہے، جس کے اندر انسان کو مختلف قسم کے لوگوں سے سابقہ ہوتا ہے، اس کے بارے میں سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

… وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَ الۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡجَـارِ ذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡجَـارِ الۡجُـنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَـنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌

(اور اللہ نے حکم دیا ہے اچھا سلوک کرنے کا والدین کے ساتھ، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، پڑوسیوں اجنبی ہمسایوں، ساتھ بیٹھنے والوں، مسافروں اور غلاموں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔)
انسانی تعلقات کی جتنی بھی قسمیں ہو سکتی ہیں، اس آیت میں ان سب کے بارے میں جامع ہدایات دی گئی ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا رویہ احسان اور حسن اخلاق کا ہونا چاہیے۔
عام معاشرتی اخلاقیات کے بعد حکومتی دائرہ آتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر فرد کی سیاسی اور انتظامی پہلو سے بھی ایک حیثیت متعین ہوتی ہے ،وہ یا تو صاحب امر ہوگا یا مامور ہوگا، حاکم ہوگا یا رعایا؛اگر وہ حاکم ہے تو اپنی رعایا کے ساتھ اس کا جو طرز عمل ہونا چاہیے اس کی وضاحت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ جو کوئی امیر مسلمانوں کے معاملات کا ذمہ دار ہوتے ہوئے ان کے لیے جی جان سے کوشش نہیں کرتا ،اور نہ ان کی خیر خواہی کرتا ہے وہ ان کے ساتھ جنت میں نہ جائے گا۔‘‘
اگر وہ رعایا ہے تو اسے اپنے حاکم کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کرنا چاہیے، اس بارے میں یہ حدیث رہ نمائی کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘
پوچھا گیا:’’ کس کی نصح و خیر خواہی کا ؟‘‘
فرمایا:’’ اللہ کی ،اس کے رسول کی، مسلمانوں کے امراء کی اور سارے اہل اسلام کی۔‘‘
یعنی دین داری اور خدا پرستی کے تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حاکم کا رویہ اپنی رعایا کے ساتھ وفاداری اور خیر خواہی اور خلوص کا ہو۔
سماج میں مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ تعلق کس طرح کا ہو ؟اس کے بنیادی اصول پر قرآن مجید رہ نمائی کرتا ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوَّا امِيۡنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ‌ ۖ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَ لَّا تَعۡدِلُوۡا‌ ؕ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ

(سورۃالمائدہ)

(اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کےلیے خوب قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو جاؤ۔کسی قوم کی دُشمنی تمھیں ہرگز اس (بات ) پرآمادہ نہ کرےکہ تم عدل نہ کرو۔تم عدل کرو، وہ تقوٰی کے زیادہ قریب ہے۔اور تم اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ اس سے خوب باخبر ہے جو تم عمل کرتے ہو۔)
یہ ہیں وہ بنیادی حقوق جس پر اسلام انسان کے اخلاق زندگی کی تعمیر کرتا ہے،انھیںدیکھ کر ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اسلام نے تعلقات کے ہرباب میں مکمل رہ نمائی کی ہے، جس پر عمل کرنے سے ایک صالح اور ایک دوسرے کی ترقی میں معاون و مددگار معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے