اگست ۲۰۲۴

خوں ابلتا دیکھا ہے ہم نے کسی نخچیر سے
جانے کیا نکلے نتیجہ خواب کی تعبیر سے
اِس شکستِ فاش سے ثابت ہے اے خنجر بکف
میری شہ رگ تیز تر نکلی تری شمشیر سے
آج زیرِ نامرادی ہوں وگرنہ بارہا
کٹ گیا پتھر کا سینہ میرے ٹوٹے تیر سے
داستانِ شامِ غم نے اب تلک خائف رکھا
اور اب ہم ڈر رہے ہیں قصۂِ شب گیر سے
پھر تمنا و امید و آس کے لاشے اٹھے
مر گئے دب کر سبھی گرتی ہوئی تعمیر سے
کر دیا رخصت اسے دے کر نصیحت آخری
بیٹی مر جانا مگر شکوہ نہ ہو تقدیر سے
چاہیے ہے اب بہر صورت صدائے احتجاج
نغمۂِ پازیب سے اٹّھے یا پھر زنجیر سے
آسماں پر رشک سے جل بجھ رہا تھا ماہتاب
ہو رہی تھی گفتگو کل شب تری تصویر سے
کیا ضروری ہے محرر کا پتہ معلوم ہو
چلیے بس پہچان لیجے شوخیِ تحریر سے
نالۂِ دل اُس کا بھی اک شعر شور انگیز ہے
وہ سخن ور درس لیتا ہے جنابِ میر سے

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے