فروری ۲۰۲۴

خوف ایک جذباتی ردعمل ہے، جو ہر انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے۔یہ ایک نفسیاتی رویہ ہے جو کسی خطرے کے محسوس کرنے کی وجہ سے ذہن میں پیدا ہوتا ہے، یہ ایک ایسا ردعمل ہے جو ہر ذی ہوش کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے، کیوں کہ اگر انسان کے اندر خوف کی جبلت نہ ہو تو وہ جنگلوں میں خوفناک جانوروں کے درمیان بنا سوچے سمجھے چلا جائے، اور اپنی جان گنوا بیٹھے، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خوف وہ انسانی جبلت ہے جو انسان کے تحفظ کے لیے اس کے اندر رکھی گئی ہے، لیکن یہی خوف جب اپنے حدود سے متجاوز ہو جائے تو متعدد نفسیاتی بیماریوں کی وجہ بھی بن جاتا ہے۔
خوف اور گھبراہٹ کے کئی اقسام ہوتے ہیں، جس کو فوبیا بھی کہا جاتا ہے، اس کی بےشمار اقسام ہیں، ہر انسانی نفسیاتی طور پر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، اس لیے ان کے خوف کی قسمیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔
انسانی معاشرے میں اسٹریس اور اضطراب کا تجربہ یوں تو ہر انسان کرتا ہے، اس میں ڈپریشن اور اینگزائٹی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس نفسیاتی مرض کا سامنا کر رہی ہے، چوں کہ وہ اس مرض کے بنیادی علامات اور بنیادی احتیاطی تدابیر سے واقف نہیں ہوتے ،اس لیے وہ اس سے نکلنے کے بجائے اس گرداب میں الجھتے چلے جاتے ہیں ،اینگزائٹی بھی درحقیقت ایک طرح کا خوف ہے، جو مستقبل سے جڑا ہوتا ہے۔
اینگزائٹی ایک جذباتی ردعمل ہے ،جس میں بےچینی اور خوف کا شدید عنصر شامل ہوتا ہے، یہ اس قدر شدید ہوتا ہے کہ متاثر انسان کے معمولات زندگی کو متاثر کرنا شروع کر دیتا ہے، اس انسان کے ذہن پر ہمہ وقت ایک ان جانا خوف طاری رہتا ہے کہ جانے اگلے لمحے کیا ہو جائے؟ نہ جانے کون سی چیز اب مجھ سے چھننے والی ہے۔ حقیقت میں وہ سارے خوف اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے، لیکن یہ خوف متاثر انسان کے ذہن کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ وہ اس کے ہونے کے خوف کو اپنے اوپر سوار کر لیتا ہے، وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے باہر نہیں نکل پاتا، اسے Mental health disorder کہا جاتا ہے۔ جس کا علاج کروانا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ایک تشویش ناک کیفیت ہے ،جس کے ہوتے ہوئے زندگی میں سکون حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
آج’ ’اینگزائٹی‘‘ کے لفظ کا دور ہے۔ مطلب آج کے دور میں ہر دوسرا انسان یہاں تک کہ ایک بچہ بھی یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ اسے اینگزائٹی ہو رہی ہے، چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو بھی وہ اینگزائٹی کی طرح فیل کر رہے ہیں، اس کے کوپنگ میکانزم سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ اس سے ازخود باہر نکلنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی اس سے باہر بھی نکل جاتے ہیں، بعض اوقات چھوٹی سی بے چینی اور پریشانی کو بھی وہ اینگزائٹی کا نام دیتے ہیں۔ 2004ء کے بعد اس لفظ کی انٹرنیٹ پر تلاش میں 300 فی صد اضافہ ہوا،اور اس کی وجہ بھی ہے۔ امریکہ کی 31 فی صد آبادی اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں اس کا شکار ہوتی ہے، جو مختلف اشکال میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ طبی تشخیص سے ہٹ کر اب یہ لفظ ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے، اور اسٹریس کا متبادل بن چکا ہے۔ اکثر اس لفظ کا استعمال نہایت معمولی کاموں کو بھی منفی بنا دیتا ہے، جیسے ایگزام کے دوران پایا جانے والا فطری ذہنی دباؤ، جاب یا بزنس کرتے ہوئے محسوس ہونے والا دباؤ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کو وہ اینگزائٹی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں ،جب کہ یہ وقتی جذباتی ردعمل ہوتا ہے، جس کو مینیج کیا جا سکتا ہے، لیکن دوسری طرف اس کی طبی شکل ہے جس میں ڈس آرڈرز یا ذہنی مسائل لاحق ہو جاتے ہیں، جن میں ڈپریشن بھی شامل ہے۔
دنیا بھر میں لاکھوں افراد میں کسی نہ کسی ڈس آرڈر کی تشخیص ہوتی ہے۔ نوجوان افراد میں اس کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، باوجود اس کے کہ بہت سی کتابیں، علاج اور سائنسی تحقیقات موجود ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 18 فی صدنوجوان گھبراہٹ یا بےچینی کا شکار ہیں۔ تحقیق کے مطابق خواتین مردوں کے مقابلے میں 60 فی صد زیادہ اینگزائٹی کا شکار ہوتی ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ مرد لوگ اس مرض سے محفوظ ہیں، مردوں کی ایک بڑی تعداد اینگزائٹی کا شکار رہتی ہے،بےشک اس کا تناسب عورتوں سے کہیں کم ہوتا ہے۔
عورتیں فطری طور پر جذباتی ہوتی ہیں،جذبات ایک بڑی طاقت ہے جس کے ذریعہ بڑے بڑے مرحلے سر کیے جاتے ہیں، ایک ماں اپنے بچے کے لیے اپنی جان سے بھی کھیل جاتی ہے، اس کی وجہ جذباتی محبت ہی تو ہے، اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس منطقی ذہن نہیںہے، ہر صنف و مخلوق کی تخلیق اللہ نے اس طرح کی ہے کہ وہ اپنے سے جڑی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا سکے۔ خیر،اس وقت بات اینگزائٹی کی ہو رہی تھی تو یہ ایک طرح کی نفسیاتی بیماری ہے، اس سے نمٹنے کے لیےماہر نفسیات سے بروقت تشخیص کروانا ضروری ہوتا ہے، کیوں کہ وقت کے ساتھ یہ انسانی نفسیات کو بہت بری طرح متاثر کر دیتی ہے، معمولات زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے، ماہر نفسیات کی آراء کے مطابق اینگزائٹی کے مریضوں کو دوا کے ساتھ ساتھ کاؤنسلنگ لینا بھی ضروری ہوتا ہے۔
اینگزائٹی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے جیسے panic attack, phobia , O.C.D. social anxiety وغیرہ ذہنی دباؤ، برین کیمسٹری اور Genetic issues کی وجہ سے اینگزائٹی ٹریگر ہوتی ہے۔
اینگزائٹی کی علامتیں جسمانی، جذباتی و فکری بھی ہو سکتی ہیں، جسمانی علامات میں دل کی دھڑکن کا تیز ہونا، پسینہ آنا ، سانس لینے میں دقت اور کپکپانے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جذباتی علامات میں چڑچڑاپن، بے چینی اور خوف شامل ہو سکتے ہیں۔ فکری علامات میں دخل اندازی کرنے والے خیالات اور تیز آور خیالات شامل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کی پریشانی کے ساتھ رہنا بہت زیادہ تکلیف دہ ہو سکتا ہے، جس سے کئی طرح کے جسمانی بیماریوں کے ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
اس وقت ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اینگزائٹی یا اس طرح کی نفسیاتی بیماریاں کیسے پیدا ہوتی ہیں؟ امریکہ کے معروف سائکاٹرسٹ ڈاکٹر محمد قطب الدین ایک جگہ کہتے ہیں :
’’زندگی بھر انسان کا ذہن مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے، کیوں کہ دماغ ایک لچک دار عضو ہے، جو وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کرنے کی اپنے اندر صلاحیت رکھتا ہے ،اس کی اسی صلاحیت کی وجہ سے وہ اپنے اعصابی نظام کو نئی تبدیلیوں کے مطابق ڈھال لیتا ہے، دماغ کی اس صلاحیت کو Neuroplasticity کہا جاتا ہے، انسان کا دماغ اپنے ماحول اور ارد گرد کو دیکھتے ہوئے محسوس کرتے ہوئے اپنے اردگرد کو بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد قطب الدین کی اس بات پر اگر غور کیا جائے تو اس بات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ انسانی ذہن بنیادی طور پر کیسے کام کرتا ہے، اور وہ کس طرح منفی سے مثبت، مثبت سے منفی رخ اختیار کر لیتا ہے؟ دماغ کو کیا سوچنا چاہیے کیا نہیں؟ یہ آپ کا منطقی ذہن یعنی شعور طے کرتا ہے۔ اگر آپ شعوری طور پہ غیر صحت مند ہوں گے تو اپنے دماغ کو صحیح سوچ کا پابند نہیں کر سکیں گے، انسان کو اپنےتمام جذبات کو اعتدال میں رکھنا ضروری ہے، خواہ وہ پسند و ناپسند سے متعلق ہو یا خوف و خوشی سے متعلق ہو، جب کوئی جذبہ ایک حد سے زیادہ ہوتا ہے تو وہ ذہن کی فطری کارکردگی اور کیمیکلز کی مقدار کو ڈسٹرب کرتا ہے، جس کی وجہ سے انسانی ذہن کسی خاص کیفیت میں Stuck ہو جاتا ہے، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ انسانی ذہن اپنے ارد گرد سے متاثر ہوتا ہے۔
جب ہماری زندگی میں کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے ،جہاں پہ ہمیں اپنا مستقبل مخدوش نظر آنے لگتا ہے، تو ایسے میں خوف کی وجہ سے ہمارے ذہن میں موجود کیمیکلز میں تبدیلی آ جاتی ہے، ذہن اس کے مطابق ردعمل ظاہر کرتا ہے اور اگر ہم وقت کے ساتھ اپنے اس خوف پر قابو پانے کی کوشش نہیں کرتے، تو ذہن اپنے اعصابی نظام کو اسی کے مطابق ڈھال لیتا ہے، جو رفتہ رفتہ ہمیں اینگزائٹی کے مرض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے اپنا ایک جواز بھی رکھتا ہے ،یہ الگ بات ہے کہ وہ بےبنیاد ہو، ایک وقت کے بعد انسان کو اس سے باہر نکلنے کے لیے ماہر نفسیات کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے، ماہر نفسیات دواؤں اور تھیراپیز کے ذریعہ اس کو متوازن سطح پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر آپ اینگزائٹی کے ابتدائی مرحلے میں ہیں تو آپ کچھ بنیادی اصولوں پر عمل کر کے اس کیفیت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اپنے ذہن کے اعصابی نظام کو ایک طے شدہ مثبت اور حقیقت پسندانہ فکر کے ساتھ پھر سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنا، سب سے پہلے آپ اپنے اندر کے ہر خوف کا تجزیہ کریں، مثلاً یہ کہ اگر آپ کو یہ خوف ہے کہ وہ میرا فلاں پیارا کہیں مجھ سے دور نہ چلا جائے یا مجھے فلاں مرض نہ لاحق ہو جائے، یا مستقبل میں پتہ نہیں میرے ساتھ کتنا برا ہونے والا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہمہ وقت ایک خوف میں ڈر ڈر کر جینے کے بجائے اس کا سامنا کرنے کی ہمت خود میں پیدا کریں، اس کے لیے آپ کو سب سے پہلے اللہ پر بھروسہ رکھنا ہوگا ،دوسرے اپنے آپ پر ، رہی بات یہ کہ وہ مجھ سے دور نہ چلا جائے یا ایسا ویسا نہ ہو جائے ،تو تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیجیےکہ ایسا کچھ ہو چکا ہے، اب آپ کو کیا کرنا ہے؟ آپ کے پاس اس حقیقت کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا تو اس کے ہونے سے پہلے ہی اسے قبول کرنے پر خود کو آمادہ کر لیں۔
دوسری بات یہ ضروری نہیں کہ جیسا آپ سوچ رہے ہیں ویسا ہی ہو، کیوں کہ ماہرین کی رائے مطابق ہم جن چیزوں کے ہونے سے ڈرتے ہیں، ان میں سے نوے فی صد چیزیں کبھی ہوتی ہی نہیں ،یہ ہمارے اندر کا وہم ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری سوچ میں بڑی طاقت ہے، ہم جیسا سوچتے ہیں ویسی ہی ہماری زندگی ہوتی ہے ۔ دونوں ہی صورتوں میں یہ بات واضح ہے کہ ہم صحیح سوچ کے ذریعہ اپنے ذہنی اعصاب کو واپس ایک اچھے Form میں لا سکتے ہیں، ہمارا ذہن ایک لچک دار عضو ہے اس میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، ڈر کو پالنے کے بجائے اس کا سامنا کرنے کی ہمت خود میں پیدا کرنی چاہیے، بےشک زندہ رہنے کے لیے جذبات ضروری ہیں لیکن اس کے ساتھ عقل کا استعمال بھی ضروری ہے، عقل وہ راہ بر ہے جو راستہ دکھاتی ہے، یہ منزل اور راستوں کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اس کے بعد ہی جذبات کا عمل دخل شروع ہونا چاہیے، اس لیے اینگزائٹی جیسے کسی بھی تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہونے کی صورت میں ،بشرطیکہ وہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہو، آپ خود پہ توجہ دے کر اور دماغ اور ذہن کے کام کرنے کے طریقے پہ غور کر کے اس کے منفی اثرات سے بروقت خود کو بچا سکتے ہیں۔

Stephen R Covey نے اپنی کتاب The 7 Habits of Highly Effective People’’‘‘میں اینگزائٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی جڑ ناکافی اور عدم تحفظ کے احساس میں موجود ہوتی ہیں ۔ وہ اینگزائٹی پر قابو پانے کے لیے خود کی عکاسی اور خود اعتمادی پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ Covey افراتفری کے احساس یا کنٹرول کی کمی سے مغلوب ہونے کے بجائے زندگی میں اہم چیزوں کو ترجیح دینے اور ان چیزوں کو حل کرنے کے لیے قابل عمل اقدامات کرنے کی اہمیت پر بھی توجہ دینے کی بات کرتے ہیں۔ ذاتی نشوونما اور خود کی دیکھ بھال پر توجہ مرکوز کرنے سے، ہم اپنی پریشانی کو سنبھالنا اور بالآخر اس پر قابو پانا سیکھ جاتےہیں۔
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل تدابیر کو اختیار کر کے بھی کافی آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔اپنے دماغ اور جسم کو پرسکون کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مناسب و متوازن غذا کے ساتھ گہری سانس لینے کی مشقیں کریں، ذہن کو پرسکون رکھنے کے مؤثر طریقوں میں سے ایک طریقہ ذہن سازی کے لیے مراقبہ کی مشق کرنا ہے۔ اس میں آپ توجہ موجودہ لمحے پر مرکوز کرتے ہیں اور آپ کے خیالات اور جذبات کو بغیر کسی فیصلے کے آنے اور جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ جب ہم اپنے اندر موجود فکر کا حساب رکھتے ہیں تو ہم بآسانی منفی اور تکلیف دہ احساسات سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔
ان اشیاء سے پرہیز کرنا چاہیے جس میں کیفین، نکوٹین جیسے چائے، کافی، سگریٹ تمباکو وغیرہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہو ،کیوں کہ یہ اینگزائٹی کی علامات کو بڑھا سکتے ہیں۔ متوازن اور صحت مند غذا کو اپنی خوراک میں شامل کریں، اس سے بھی ذہنی صحت پہ ایک مثبت اثر پڑتا ہے، عام خیال کے مطابق متوازن غذا جسم کی نشوونما کرتی ہے جب کہ ماہرین کی رائے کے مطابق اس سے ذہنی نشوونما بھی ہوتی ہے۔ ہماری جسمانی، نفسیاتی، ذہنی و روحانی صحت ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طرح جڑی ہوئی ہیں ،ایسے میں کسی ایک کا غیر متوازن ہونا دوسرے کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
ذہنی یکسوئی یعنیMindfullness کی مشق کریں، اسے بتدریج اپنی عادت میں شامل کرنے کی کوشش کریں، یہ آپ کے لیے منفی خیالات اور اعتقادات کو دور کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ جو لوگ اینگزائٹی کی وجہ سے پریشان ہیں اور ہمہ وقت پریشان رہنا ان کی عادت میں شامل ہے۔ انھیں پتہ ہونا چاہیےکہ ہر ایک کو مختلف قسم کی اینگزائٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس کا کوئی ایک حل نہیں ہے جو ہر کسی کے لیے یکساں مفید ہو ،ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کے لیےکون سی تدبیر کارگر ہو سکتی ہے۔ اس کو جاننے کے لیے وقت نکالیں، ہو سکتا ہے کہ آپ ایک بار میں اسے نہ سمجھ سکیں، لیکن مسلسل تجزیہ کرنے اور مختلف تدابیر کو آزمانے سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کے لیے کون سا طریقہ زیادہ کارگر ہے؟ اپنی ذہنی صحت کی بہتری کو ہمیشہ اپنی پہلی ترجیح میں شامل رکھیں، یہ محض ایک بار توجہ دینے سے ہمیشہ معتدل نہیں رہ سکتی، اس کے لیے مسلسل کام کرتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھی کتابیں پڑھیں ،سوشل میڈیا پر اچھے مواد دیکھیں ،اچھے لوگوں کی صحبت میں رہنے کو ترجیح دیں، اس سے ذہنی و نفسیاتی صحت پرایک مثبت اثر مرتب ہوتا ہے۔

٭ ٭ ٭


یہ ضروری نہیں کہ جیسا آپ سوچ رہے ہیں ویسا ہی ہو، کیوں کہ ماہرین کی رائے مطابق ہم جن چیزوں کے ہونے سے ڈرتے ہیں، ان میں سے نوے فی صد چیزیں کبھی ہوتی ہی نہیں ،یہ ہمارے اندر کا وہم ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری سوچ میں بڑی طاقت ہے، ہم جیسا سوچتے ہیں ویسی ہی ہماری زندگی ہوتی ہے ۔

دونوں ہی صورتوں میں یہ بات واضح ہے کہ ہم صحیح سوچ کے ذریعہ اپنے ذہنی اعصاب کو واپس ایک اچھے Form میں لا سکتے ہیں، ہمارا ذہن ایک لچک دار عضو ہے اس میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، ڈر کو پالنے کے بجائے اس کا سامنا کرنے کی ہمت خود میں پیدا کرنی چاہیے، بےشک زندہ رہنے کے لیے جذبات ضروری ہیں لیکن اس کے ساتھ عقل کا استعمال بھی ضروری ہے، عقل وہ راہ بر ہے جو راستہ دکھاتی ہے، یہ منزل اور راستوں کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اس کے بعد ہی جذبات کا عمل دخل شروع ہونا چاہیے، اس لیے اینگزائٹی جیسے کسی بھی تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہونے کی صورت میں ،بشرطیکہ وہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہو، آپ خود پہ توجہ دے کر اور دماغ اور ذہن کے کام کرنے کے طریقے پہ غور کر کے اس کے منفی اثرات سے بروقت خود کو بچا سکتے ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے