فروری ۲۰۲۴
زمرہ : ٹی ٹائم

سرکاری کرسی

سچ تو یہ ہے کہ سرکاری کرسی اچھے خاصے انسان کا حلیہ بگاڑ دیتی ہے۔اس کی فطرت ٹیڑھے ترچھے سانچوں میں ڈھلنے لگتی ہے۔نگاہ کا زاویہ بہت حد تک بھینگا ہوجاتا ہے۔دفتر کی فضا میں سانس لینے کے بعد باہر کھلی ہوا میں گھومنے والے ایک دوسری مخلوق نظر آنے لگتے ہیں۔دفتری ماحول زندگی کے ہر پہلو پر ایک کثیف غبار کی طرح چھا جاتا ہے اور زندگی کی بے اندازہ وسعت سمٹ سمٹا کر ایک چھوٹے سے گرداب میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔

کتاب:شہاب نامہ،از:قدرت اللہ شہاب

یہ منہ اور مسور کی دال؟

واجدعلی شاہ کا ایک باورچی ان کے خاتمۂ سلطنت کے بعد ایک رئیس کا نوکر ہوااور ان کےلیے مسور کی دال پکائی۔وہ دسترخوان کی اور چیزوں کو بھول گئےاور دال ہی کھا کر انگلیاں چاٹتے رہے۔باورچی سے بےحد خوش ہوئےلیکن جب انھوں نے دال پکانے کی ترکیب پوچھی تو پتہ چلا کہ صرف تین پیسے کی دال اور اس میں ڈالےگئے باقی اجزاء چھتیس روپے کےتھے۔
رئیس چلا اٹھے کہ تین پیسے کی مسور میں چھتیس روپے خرچ ہوئے!؟
یہ سن کر باورچی اٹھ کھڑا ہوا اور یہ کہتا ہوا چلاگیا:’’ یہ منہ اور مسور کی دال!‘‘
اسی وقت سے یہ محاورہ رائج ہوگیا۔

کتاب:ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے تمدنی جلوے،از:صباح الدین عبدالرحمان (ایم اے)

گھڑی چور

ایک لڑکا استاذ بننے کے بعد جب اپنے اس استاذ سے ملنے گیا اور ان کو بتایا کہ آپ کی وجہ سے آپ کی طرح میں بھی استاذ بن گیا ہوں۔
استاذ نے پوچھا کہ وہ کیوں؟
تو شاگرد نے بتایا کہ ایک دن میں نے اپنے ہم جماعت کی گھڑی چرالی تھی، آپ نے دروازے بند کروا کے تلاشی کا کہا تھا، مجھے لگا کہ آج میں پھنس گیا، تب آپ نے فرمایا کہ سب آنکھیں بند کر لیں، آپ نے سب بچوں کی تلاشی لی، ان کی آنکھیں بند تھیں، آپ نے گھڑی میری جیب سے نکالی اور مجھ سے بعد والوں کی بھی تلاشی لی، تب میں نے عزتِ نفس اور زندگی کا سبق سیکھا تھا۔
استاذ کی آنکھوں میں اجنبیت دیکھ کر شاگرد نے پوچھا کہ استاذ محترم! آپ مجھے کیسے بھول گئے؟
استاذنے جواب دیا:’’ کیوں کہ میں نے اپنی آنکھیں بھی بند کر لی تھیں۔‘‘

بھینس

بھینس بہت مفید جانور ہے۔پنجاب کے بیش ترعلاقوں میں اسے ’’مج‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔قد میں عقل سے تھوڑی بڑی ہوتی ہے۔چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے جو موسیقی کا ذوق رکھتا ہے، اس لیے لوگ اس کے آگے بین بجاتے ہیں۔بھینس دودھ دیتی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوتا،لہٰذا باقی دودھ گوالا دیتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے شہریوں کا کام چلتا ہے۔

کتاب:اردو کی آخری کتاب،از:ابن انشاء

تیسرا شخص

میاں بیوی میں نوک جھونک اور جھگڑا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ،پر ہاں! غیر معمولی تب بنتا ہے جب دونوں اپنا جھگڑا تیسرے چوتھے فریق کے پاس لے جائیں ۔قصور کسی کا بھی ہو، یاد رکھنا !بیوی کے رشتہ دار بیوی کی اور شوہر کے رشتہ دار شوہر کی سائیڈ لیتے ہیں۔ بڑے بزرگ معاملہ رفع دفع کروا دیتے ہیں،پھر سے میاں بیوی امن آشتی سکون سے رہنے لگتے ہیں، پر جان لیجیے! بیوی کے گھر والوں کی شوہر اور شوہر کے گھر والوں کی نظر میں بیوی کی وہ قدر عزت احترام نہیں رہتا، مجبوراً بظاہر دکھاوا ضرور رہ جاتا ہے۔
یاد رہے! جب رہنا سدا ساتھ اور ایک ہی جگہ ہے، پھر کیوں گھر اور آپس کی باتیں دوسروں تک پہنچائی جائیں؟ خود ہی مل بیٹھ کر کوئی قابلِ قبول بہترین حل کیوں نہ نکال لیا جائے؟

محبوب الرحمان

سوال

اوشو سے وائس چانسلر نے پوچھا:
’’یہ ڈاڑھی کیوں بڑھائی ہے؟‘‘
اوشو نے جواب دیا:
’’میں نے نہیں بڑھائی،یہ خود بڑھتی ہے،کیوں کہ یہ فطرت ہے۔آپ نے ڈاڑھی کٹوائی ہے،سوال آپ سے بنتا ہے کہ آپ نے
کیوں کٹوائی ہے؟‘‘

عادت

جب میں چھوٹا تھا،تو میں بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتا تھا،جو معیوب سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ میری نانی جان کھانے سے پہلے میرے بائیں ہاتھ پر اپنا دوپٹہ باندھ دیتی تھیں،اور میں مجبوراً دائیں ہاتھ سے کھانا کھا لیتا تھا۔
کئی بار جب وہ میرا ہاتھ باندھنا بھول جاتیں تو میں اپنا بایاں ہاتھ آگے کر کے کہتا:
’’نانی جان!اس پر دوپٹہ باندھ دیں،میں نے کھانا کھاناہے۔‘‘

مستنصر حسین تارڑ

دستخط

ایک دفعہ مارک ٹوین کو ایک خط آیا جس میں صرف ایک لفظ لکھا تھا: ’’احمق‘‘
مصنف کا طنزیہ جواب تھا کہ مجھے عام طور پر بغیر دستخط کے خط موصول ہوتے ہیں،لیکن کل مجھے خط کے بغیر دستخط موصول ہوا ہے۔

عبادت کا وقت

جوانی میں دین بائی چوائس ہونا چاہیے ،بائی چانس نہیں۔یہ جس جذبے اور دل سے تم لوگ اس عمر میں عبادت کر سکتے ہو ناں،یہ بڑھاپے میں نہیں ہو گا۔غلط لگتا ہے تم لوگوں کو کہ بوڑھے ہو کر کسی عبادت کی ساری کمی پوری کر لو گے۔بڑھاپے میں روز کیلشیم کھانا جوانی کے دنوں کے روز تین گلاس خالص دودھ پینے کے برابر نہیں ہو سکتا۔
روح بھی ہڈیوں کی طرح ہے۔جوانی سے اسے عبادت پر مائل کرو گے تو بڑھاپے میں درد اور تکلیف کم ہو گی۔

کتاب:نمل،از:نمره احمد

بائبل اور زمین

جب مشنری افریقہ آئے تو ان کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس زمین ۔انھوں نے ہمیں آنکھیں بند کرکے دعا کرنا سکھایا،یہ جب ہم نے آنکھیں کھولیں تو ہمارے ہاتھ میں بائبل تھی اور ان کے پاس زمین۔

کینیا کے پہلے صدر :جوموکینیاٹا

سفر کا ضیاع

ایک مرتبہ دورانِ مشاعرہ کسی نے راحت اندوری کے ساتھ بد تمیزی کی۔جواباً راحت اندوری نے اُس سے کہا:
’’یار دیکھو!میں چالیس سال لگا کر اس مقام پر پہنچا ہوں،جہاں سے میں غزل سنا رہا ہوں،اور تمھارے مقام پر آنے میں مجھے ایک منٹ لگے گا۔میں اپنا سفر ضائع نہیں کر سکتا۔‘‘

پچیس لفظوں کی کہانی
کام چور

’’ممی!میری دونوں نندیں کام چور ہیں،مجال ہے جو کبھی کچن میں ہاتھ ہی بٹا دیں۔‘‘
کچن میں کام کرتی بھابھی تک نند کی آواز آرہی تھی۔

احمد بن نذر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے