فروری ۲۰۲۴

 

“زویا بیٹی!ارے زویا بیٹی!کہاں ہو تم؟آؤ ذرا، بیٹی! بازار سے سامان لے آئی ہوں،کچن میں رکھ دو۔” شبانہ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ اپنی بیٹی زویا کو آواز لگاتی ہے۔
“جی اماں!بس آرہی ہوں۔” زویا الماری میں کپڑے رکھتے ہوۓ۔
زویا کمرے میں اماں کے لئے پانے کا گلاس لاتے ہوئے حاضر ہوتی ہے۔
“بیٹی زویا!آج شبنم آپا آنے والی ہیں،ذرا اچھا سا کوئی پکوان بنالینا اور ساتھ میں گھر کو بھی درست کرلینا اور تم بھی تیار ہوجانا۔” اماں زویا سے پانی کا گلاس لیتے ہوۓ۔
“جی اماں!ٹھیک ہے۔اماں خیریت سب؟شبنم خالہ کیوں آرہی ہیں؟”زویا اماں کے پاس بیٹھتے ہوۓ۔
“بیٹی زویا!انھیں تم وقار کے لیے پسند آگئ ہو،اسی سلسلے میں کل شام آپا تشریف لائیں گی۔” اماں زویا سے کہتے ہوئے۔

“اچھا!” زویا کچن میں سامان لے جاتے ہوۓ کہتی ہے۔
“ارے شبانہ!کہاں ہو بھئی؟مہمان گھر آۓ ہیں۔” شبانہ باجی گیٹ سے آواز لگاتے ہوۓ۔
“جی باجی!آئیے آئیے!”شبانہ انھیں روم میں لے جاتے ہوۓکہتی ہے۔
“زویا چاۓ ناشتے کا انتظام کرو،شبنم خالہ آئی ہیں۔”شبانہ زویا کو آواز دیتے ہوئے۔
“جی اماں!ابھی لائی۔”زویا کمرے کے دروازے میں آتے ہی۔
“ماشاءاللہ تمہاری بیٹی کتنی حسین، فرماں بردار، سمجھ دار اور سگھڑ ہے۔”شبنم صوفے پر بیٹھتے ہوۓ۔

“جی آپا!اس کا جواب نہیں،پڑھائی سے لے کر سارے گھر کے کام میں بھی ماہر ہے میری بیٹی زویا۔” اماں فخر سے کہتی ہیں۔

“آپا!وقار کو بھی ساتھ لے آتیں ناں۔” شبانہ تجسس سے کہتے ہوئے۔

“ہاں لے تو آتی،لیکن اسے آفس سے کہاں چھٹی ملتی ہے؟میں نے بھی وقار سے کہہ دیا کہ آج میں زویا کے گھر جا آتی ہوں،کل تم آفس سے چھٹی لے لینا۔”
“زویا بیٹا!یہاں تو آنا میرے پاس۔ ماشاءاللہ کتنی پیاری ہے بلکل چاند سی۔” شبنم آپا زویا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہتی ہیں۔زویا شرماتے ہوۓ وہاں سے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔
“چلو میں بھی چلتی ہوں شبانہ!کل شام آؤں گی وقار کے ساتھ،تاکہ آگے کے معاملات طے کرلیے جائیں۔”شبنم آپا شال اوڑھتے ہوۓ کہتی ہے۔
“جی ٹھیک ہے آپا!میں انتظار کروں گی۔” شبانہ دروازے تک شبنم کو چھوڑتے ہوۓ کہتی ہے۔
دوسرے دن شام سے ہی گھر میں گہماگہمی تھی،شبنم خالہ کی آمد کا سب کو انتظار تھا،بالآخر شبنم خالہ وقار کے ساتھ تشریف لائیں۔
“آئیے باجی بیٹھیے۔اور آج آپ کھانا کھا کر ہی جائیں گی۔”شبانہ صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ۔
“بھئی شبانہ!مجھے اور وقار کو چاند سی زویا پسند آگئ،اب تم جلدی سے شادی کی تیاریوں میں لگ جاؤ۔”کھانے کے بعد شبنم آپا کہتے ہوۓ۔
“جی ٹھیک ہیں باجی!آپ رکیے،بس میں ابھی آئی۔یہ لیجیےباجی منہ میٹھا کیجیے۔” شبانہ شبنم اور وقار کو مٹھائی دیتے ہوئے۔

“ہاں ہاں ضرور۔”

“شبانہ بس ہمیں تو زویا کی ضرورت ہے،بس اب زیادہ خرچ نہ کرنا تم۔” شبنم مٹھائی لیتے ہوۓ۔
“کیسی باتیں کرتی ہیں آپ،آپا! مائیں تو بیٹیوں کو اپنی خوشی اور محبت سے تحفے تحائف دیتی ہیں اور یہ تو بیٹیوں کا حق ہوتا ہے ناں۔”شبانہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہتی ہے۔
“اچھا چلو بھئی،اب چلتے ہیں ہم لوگ۔” شبنم شال اوڑھتے ہوۓ۔
چہچہاتی صبح کے ساتھ ایک نئے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ صبح کے تقریباً دس بج رہے ہوں گے۔
“السلام علیکم باجی!خیریت؟اچھا ہوا آپ آگئیں،دونوں مل کر شادی کی تیاری کرتے ہیں۔”شبنم کے گھر آنے پر شبانہ مسکراتے ہوئے کہتی ہے اور شبنم کو بیٹھنے کو کہتی ہے۔
“شبانہ!مجھے یہ کہنا تھا کہ کل تحفے تحائف کی بات کر رہی تھیں،وقار اور زویا کو تم شادی پر کیوں ناں ایک کار ہی گفٹ کردو۔”شبانہ ہلکے انداز میں جہیز کی مانگ کرتے ہوۓ کہتی ہے۔
“اچھ….اچھا ککککک۔۔۔کار۔آپا میں سلائی کڑھائی کرکے تھوڑا بہت کمالیتی ہوں،کار؟ یہ تو مشکل ہے۔”حیرت اور حسرت کی تصویر بنی شبانہ شبنم سے کہتی ہوئی۔
خاموشی سے گفتگو سنتی ہوئی زویا بول اٹھی :”خالہ جان!آپ صحیح کہتی ہیں چاند سی لڑکی۔ واقعی میں آپ جیسے لالچ کے پجاری ہم جیسی عام سی لڑکیوں پر جہیز کا داغ لگا دیتی ہیں جیسے چاند میں داغ ہوتے ہیں۔ کبھی تو یہ داغ اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ ہم عام سی،معصوم سی لڑکیوں کی زندگی پر گہن لگ جاتا ہے۔” زویا شبنم خالہ سے رشتے کا انکار کرتے ہوۓ کہتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایسی ہی کئ لڑکیاں روز خواہشوں کے پھندے پر جھولتی نظر آتی ہیں۔اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لیے ہیں۔ ان کی آرزؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انھیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔ والدین کو ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ ظالم سماج کی ظالم رسومات ہماری گڑیا کا جینا حرام نہ کردیں۔ جہیز آج کے اس دور میں ہر گھر میں وبا کی طرح پھیل چکا ہے۔اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلا لیےہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونےوالی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔ جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے۔
جہیز بیٹی کی شادی میں والدین کی طرف سے دیا جانے والا سامان۔جہیز دینے کی رسم پرانے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے میں جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر زیورات، کپڑوں، نقدی اور روزانہ استعمال کے برتنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور اب جہیز نے ایک لعنت کی شکل اختیار کر لی ۔ جہیز کا مطالبہ کوئی رسم نہیں ہے اس کا تعلق لڑکی کی سیرت صورت تعلیم اور خاندان سے نہیں ہے. اس کا تعلق لڑکے والوں کی غربت ضرورت اور اخراجات سے بھی نہیں ہے۔اس کا تعلق تو اس سماج کے منافق طبیعت لوگوں سے ہے،بلکہ یہ ایک منافقت سے بهری سوچ اور ایک حرص سے بهری ہوس ہے۔اس ہوس و حرص نے لاکھوں بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ جہیز یہ صرف ہندوستانی رسم ہے اور ہندو معاشرے میں تلک کے نام سے جانی جاتی ہ، جسے آج ہمارے مسلم معاشرے نے اپنا لیا ہے۔ اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلا لیے ہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونےوالی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔ جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے۔

 ٭ ٭ ٭

ہمارے معاشرے میں ایسی ہی کئی لڑکیاں روز خواہشوں کے پھندے پر جھولتی نظر آتی ہے۔اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں۔ ان کی آرزؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔ والدین کو ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ ظالم سماج کی ظالم رسومات ہماری گڑیا کا جینا حرام نہ کردے۔ جہیز آج کے اس دور میں ہر گھر میں وبا کی طرح پھیل چکا ہے۔اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلا لئے ہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونیوالی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔ جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے۔ جہیز بیٹی کی شادی میں والدین کی طرف سے دیا جانے والا سامان۔جہیز دینے کی رسم پرانے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے میں جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر زیورات، کپڑوں، نقدی اور روزانہ استعمال کے برتنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور اب جہیز نے ایک لعنت کی شکل اختیار کر لی ۔ جہیز کا مطالبہ کوئی رسم نہیں ہے اس کا تعلق لڑکی کی سیرت صورت تعلیم اور خاندان سے نہیں ہے۔اس کا تعلق لڑکے والوں کی غربت ضرورت اور اخراجات سے بھی نہیں ہے۔ اس کا تعلق تو اس سماج کے منافق طبیعت لوگوں سے ہے۔ بلکہ یہ ایک منافقت سے بهری سوچ اور ایک حرص سے بهری ہوس ہے. اس ہوس و حرص نے لاکھوں بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ جہیز یہ صرف ہندوستانی رسم ہے اور ہندو معاشرے میں تلک کے نام سے جانی جاتی ہے جسے آج ہمارے مسلم معاشرے نے اپنا لیا ہے۔ اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلا لئے ہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونیوالی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔ جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے۔

جہیز کی حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ لڑکی کے والدین بیٹیوں کو گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت اگر کچھ تحائف دیتے ہیں تو اسے جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے محبت و تعلق کا فطری عمل ہے،لیکن موجودہ دور میں ان تحائف کی جو حالت بنا دی گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ ماں باپ کے ان تحفوں کو لڑکے والوں نے فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے اور پورا نہ ہونے پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے یہ سماجی رسم ہوا کرتی تھی،آج جہیز بن گیا ہے۔

جہیز دینے سے جہاں معاشرہ الجھن کا شکار ہوچکا ہے وہی جہالت کے باعث جہیز نہ دینے کے بھی چند نقصانات ہیں- اس کی بدولت امن و سکون، انسانیت آپسی الفت و محبت اور بھائی چارگی کی لازوال دولت رخصت ہوتی جا رہی ہے۔جہیز حرص و لالچ سے بهری ہوس ہے۔حرص و لالچ کی کوئی حد نہیں ایک ایسی پیاس ہے جو کبھی نہیں بجھتی۔ جہیز کی وجہ سے انسان کے اندر حرص و طمع اور خود غرضی جیسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جہیز معاشرے میں ظلم و جبر، خون خرابہ اور خودکشی جیسی خرابیاں پیدا ہونے کا سبب ہے۔جہیز دینی بیزاری اور دینی بے حسی کا پیش خیمہ بھی ہے۔ کتنے گھرانے اسی جہیز کی وجہ سے بکھر کر تباہ و برباد ہو گئے۔ جہیز کے لین دین کی بدولت سواۓ خسارے اور نقصان کے کچھ ہاتھ نہیں آتا اور اس سے صرف کوئی ایک شخص یا ایک خاندان ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ پورا خاندان اس کی لپیٹ میں آ کر تباہ و برباد ہوجاتاہے، دینی اعتبار سے بھی یہ قانون الہٰی کے سراسر خلاف ہے جس کے بد سے بدترین نتائج دنیا میں بھی دیکھنے میں آتے ہیں اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں اسلام سادگی پسند دین ہے اور اسلام کی نظر میں عورت کا بہترین جہیز اس کی بہترین تعلیم و تربیت ہے۔ لڑکیوں کو دینی و عصری تعلیم حاصل کراوائی جاۓ۔ اس کے علاوہ معاشرے سے جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کےلئے والدین کو بھی عہد کرنا چاہیے کہ نہ جہیز دیں گے نہ جہیز لیں گے۔ عوام الناس کو بھی بتایا جائے کہ یہ ایک اخلاقی جرم ہے۔ علاوہ ازیں عورتوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے اور اس بات کا احساس دلایا جائے کہ معاشرے و سماج کو بنانے اور سنوارنے میں ان کو بھی اہمیت حاصل ہے۔

چونکہ جہیز جیسی لعنت کے خلاف بہت سے مضامین، نظمیں، اقوال وغیرہ وغیرہ لکھے گئے ہیں۔ مگر “ظلم و جبر کی رسم وفا” بند ہوتی نظر نہیں آتی تو مجھے لگتا ہے کہ اب اس “رسم وفا” کو کچھ اس طریقے سے نبھایا جاۓ کہ لڑکی کی بجائے لڑکے کے لیے جہیز بنائیے ناں!! زمانہ ترقی کررہا ہے نت نئے ادوار میں زمانہ تبدیل ہورہا ہے۔ تھوڑا ہم بھی ترقی کرلیتے ہے بھئی!اس میں کیا حرج ہے؟چلیں کیوں نا ہم بھی جہیز جیسی رسم وفا کا ایک نیا دور نیا طریقہ اپناتے ہے۔ زیادہ نہیں کرنا ہے بس اپنے بیٹے، بھائی سے کہہ دیں کہ جلدی سے پڑھائی مکمل کر لیں اور اپنی شادی کے لیے اپنی ہی تنخواہ سے اپنے لیے ہی جہیز بنالیں،جتنا اور جیسا پائی پائی جو لڑکیوں سے لیتے ہیں اور جیسے کہ لڑکیوں سے جہیز لیتے وقت سسرال والے کہتے ہیں”ہم کیا کریں گے آپ کی ہی بچی کو کام آئے گا”۔ ویسے ہی اگر آپ کا بیٹا، بھائی اپنے خود کے لیےجہیز بناتا ہے تو وہ تو اس کے ساتھ ساتھ آپ کے لیے بھی کام آنا ہے تو ہے نا خوشی کی بات تو پھر دیر کیسی چلیں ابھی کہیئے اپنے بیٹے یا بھائی سے کہ اپنے جہیز کی تیاری شروع کردیں؟ اور اگر آپ کا بیٹا یا بھائی نہ کرپائے تو آپ والدین یا گھر والے مدد کردیں باقی ﷲ تو ساتھ دیتا ہی ہے۔

جہیز جیسی لعنت کو ہم دنیا سے مٹائیں گے
اس دنیا کو ہم ایک دن نئی دنیا بنائیں گے

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Fariha Sabeen Sajid Khan

    MASHALLAH outstanding ❤

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے