فروری ۲۰۲۴
زمرہ : اکادمیا

ملی وسائل کا استعمال

 یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلم ملت اپنے وسائل کا ایک مخصوص حصہ تعلیم پر صرف کرتی ہے۔ تاہم اس میں مزید اضافے، نظم و ضبط اور سلیقہ مندی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ مسلمانوں میں عموماً یہ تصور پایا جاتا ہے کہ دینی تعلیم کو فروغ دینے کی راہ میں خرچ کرنا عظیم کار ثواب ہے، جب کہ عصری تعلیم پر خرچ ہونے والے مال پر بہت کم اجر و ثواب ملتا ہے۔ اس تصور کے پس پشت کئی عوامل ہیں جن کو سمجھنا اور عوام و خواص میں اس تصور کو راسخ کرنا ضروری ہے کہ تعلیم دینی ہو یا دنیوی، اس پر وسائل کا صرف کرنا ایک صالح عمل ہے اور ہر صالح عمل اللہ کو راضی کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ علماءکرام بھی موجودہ حالات کی نزاکت اور زمانے کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے عصری تعلیمی اداروں اور عصری علوم حاصل کرنے والے طلبہ کی مالی اعانت کے کارِ ثواب ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ لہٰذا ملت کے وسائل کو ملی تعلیمی ترقی کے لیے بہتر طور پر استعمال میں لانے کے لیے مندرجہ ذیل پروگراموں کو رو بہ عمل لایا جاسکتا ہے۔
الحمدللہ ملک بھر میں مدارس کا سلسلہ قائم ہے۔ ان میں چھوٹے، متوسط اور بڑے ؛ہر طرح کے مدارس شامل ہیں۔ان مدارس پر کچھ اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ جن مدارس کے پاس بڑی زمینیں اور وافر عمارتیں موجود ہیں، انھیں چاہیے کہ ان زمینوں اور عمارتوں کے ایک حصے میں عصری تعلیم کے لیے اسکول قائم کریں۔ عصری تعلیمی درسگاہوں کے قیام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مدارس کو بند کردیا جائے اور نہ ہی اس کا یہ مفہوم ہے کہ عصری علوم کی جو تعلیم گاہیں ان مدارس میں قائم کی جائیں گی، ان میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہو، بلکہ جو عصری تعلیمی درس گاہیں مدارس کے احاطے میں قائم ہوں گی، ان میں دینی تعلیم کا انتظام زیادہ بہتر طریقے پر کیا جاسکے گا۔ اس کی اہمیت و ضرورت کو اب دینی مدارس کے ذمہ داران بھی محسوس کرنے لگے ہیں۔ چناں چہ گذشتہ دنوں راقم یو پی کے ایک معروف مدرسے میں قیام پذیر تھا۔ وہاں ایک اور مدرسے کے کچھ ذمہ داران مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ وہ اپنے مدرسے کے احاطے میں اسکول قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے مدرسے کے طلبہ کے لیے عصری علوم کا بندوبست کریں۔ گفتگو کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ مدارس کی انتظامیہ اور ذمہ داران میں عصری علوم میں دل چسپی کا محرک کیاہے اور یہ تبدیلی کیسے آئی؟ انھوں نے کہا کہ سوچ میں اس تبدیلی کے پیچھے متعدد اسباب ہیں۔ان میں ایک سبب ہے سرکاری پالیسیوں کا دباؤ اور دوسری وجہ ہے مخیر حضرات کی خواہش۔ مدارس کو چندہ دینے والوں کی اکثریت اب یہ چاہتی ہے کہ مدارس میں عصری تعلیم کا بھی بندوبست ہو۔ اس رجحان کے پیچھے یہ حقیقت کار فرما ہے کہ ملک کے بعض مدارس میں اب اسلامی علوم کے ساتھ عصری علوم کی تعلیم کے کام یاب تجربات ہورہے ہیں۔
ملت کی جانب سے چلائے جارہے عصری علوم کے اسکولوں میں تعلیمی اوقات کے بعد دینی تعلیم کے جز وقتی مکاتب قائم کیے جائیں، تاکہ ان میں وہ مسلم طلبہ دینی تعلیم حاصل کرسکیں جو ان اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ ان طلبہ کی دینی تعلیم کا انتظام بھی وہیں ہونا چاہیے، جو دیگر سرکاری اسکولوں اور غیر مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور دینی تعلیم کے مواقع سے محروم ہیں۔
ہم نے گذشتہ مضمون میں اس تجویز کو بھی پیش کیا تھا کہ اوقاف اور درگاہوں کی خالی اراضی پر تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آئے۔ یہ نہ صرف ان اراضی کا بہترین استعمال ہوگا بلکہ درگاہوں کے روحانی فیوض و برکات کے ساتھ ساتھ ان کی املاک سے مسلم ملت کی تعلیمی ضرورتوں کی تکمیل کا راستہ بھی کھلے گا۔
مساجد کا استعمال بھی تعلیمی فروغ کے لیے بہت ہی کارگر انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ مسجد سے تعلیمی تحریک شروع کی جائے اور اس کے لیے مسجد کو مرکز بنا کر تعلیمی سروے کا اہتمام کیا جائے۔ اس سلسلے میں مسجد ون ( Masjid one) جو مساجد کو مراکز بنانے کے منصوبے پر کام کرنے والی ایک تنظیم ہے، اس نے ایک جامع منصوبہ پیش کیا ہے۔ چند برس پہلے بنگلور کے’’ملت ایجوکیشن ٹرسٹ‘‘نے شہر بنگلور کی مساجد کو مراکز تصور کرکے ایک مربوط سروے کا اہتمام کیا تھا۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس طرح کے سروے میں مساجد کے متعلقین، انتظامیہ اور نمازیوں کی شرکت سے ایک اچھا خاصا سروے کرکے اہم ترین ڈیٹا جمع کیا جاسکتا ہے اور اس ڈیٹا کو تعلیم کے فروغ اور طلبہ کی اعانت کے طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
مساجد کے احاطے کو نماز کے علاوہ دیگر تدریسی سرگرمیوں اور علمی پروگراموں کے لیے استعمال کیاجانا چاہیے۔ آج کل چاہے شہر بڑے ہوں یا چھوٹے، گھروں کے دائرے سمٹتے جارہے ہیں اور پڑھنے لکھنے کا ماحول ختم ہورہا ہے، جس کی وجہ سے طلبہ کو گھروں میں پڑھنے کا ماحول نہیں ملتا۔کبھی افراد خانہ کی باہمی گفتگو کا شور تو کبھی والدین کے درمیان کشیدہ رشتوں کے سبب بات چیت میں تلخیوں کا زہر گھر کے ماحول کو مکدر بنادیتا ہے، جو بچوں کے ذہن و فکر پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ ان اثرات سے بچوں کو دور رکھنے کے لیے مساجد کے ذمہ داران کوشش کریں اور مساجد کی خالی جگہیں بالخصوص جامع مسجد کی وہ جگہیں جہاں صرف جمعہ کے دن ہی نماز ادا ہوتی ہے، باقی پورے ہفتے وہاں کوئی نماز ادا نہیں کی جاتی، ان جگہوں کو تعلیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کریں تو یہ اس جگہ کا بہت مفید استعمال ہوگا۔ تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں محلے کے تعلیم یافتہ نوجوان بھی اپنی بڑی حصہ داری کرسکتے ہیں۔وہ کسی متعین وقت میں مثلاً عصر تا عشاء مساجد میں طلبہ کے مختلف شبہات
(Doubts)کی وضاحت کرنے کا سیشن چلائیں یا پھر کوچنگ سینٹر کا بھی اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ کچھ مساجد میں تعلیم کو منقطع کرنے والے (Drop out )طلبہ کو دوبارہ تعلیم سے جوڑنے کا کام یاب تجربہ ہوا ہے۔ مساجد کی سطح پر مساجد کے انتظامات کے علاوہ ایک تعلیم کا فنڈ ہونا چاہیے۔ اس فنڈ سے مستحق طلبہ کی تعلیمی امداد کی اسکیم چلائی جاسکتی ہے۔
ملت کی جانب سے چلائے جانے والے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں اور کیمپس کو بھی تعلیم کے فروغ کے عظیم مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیاجانا چاہیے۔کئی تعلیمی اداروں کی عمارتیں تدریسی اوقات کے بعد خالی رہتی ہیں۔ یہاں پر بھی طلبہ کے لیے ذاتی مطالعہ (self-study) کا انتظام کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ وہاں کوچنگ سینٹر بھی چلائے جاسکتے ہیں۔کیمپس کو کھیل کود اور ثقافتی پروگراموں کے لیے بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم اپنے کیمپس میں کھیل کود، ورزش وغیرہ کے سینٹر قائم کرکے آس پاس کی بستی کے نوجوانوں کے لیے کھول دیتے ہیں تو آج کے نفرتی ماحول میں انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔
موجودہ دور میں زکوٰة کے استعمال کے اجتماعی نظم پر زور دیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف ادارے کام کررہے ہیں۔اب زکوٰة دینے والوں کی ایک بڑی تعداد کے ذہن میں اس تصور نے اپنی جگہ بنالی ہے کہ زکوة کی رقم عصری تعلیمی اداروں کو یا عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو دی جاسکتی ہے۔ علما نے بھی اپنی یہ رائے پیش کردی ہے کہ عصری علوم کے اداروں کو بھی زکوٰة کی رقم دی جاسکتی ہے اور عصری علوم حاصل کرنے والے غریب طلبہ بھی اس رقم کے مستحق ہیں۔اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں چند مال دار ایسے بھی ہیں جو اپنی زکوة کی خطیر رقم میں سے ایک بڑا حصہ غریب طلبہ کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔اس سلسلے میں عوام میں مزید شعور کی بیداری لانے کی ضرورت ہے۔

 اس سلسلے میں زکوة سینٹر انڈیا کا بھرپور تعاون دیا جاناچاہیے۔ اس لیے کہ اس کے مقاصد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے مسلم طلبہ کی مدد بھی شامل ہے۔ زکوٰة سینٹر انڈیا کی مزید تفصیلات اس کی ویب سائٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

 کوچنگ سینٹر

 اب تقریباً تمام معیاری کورسوں، سینٹرل یونیورسٹیوں اور انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل امپورٹینس میں داخلے مسابقتی امتحانات کے ذریعہ ہورہے ہیں۔ ان مسابقتی امتحانات کی کوچنگ اکثر بڑے شہروں ہی میں دستیاب ہے، جس کی فیس عام لوگوں کی دست رس سے باہر ہے۔ اس لیے ملت کو چاہیے کہ ملک کے چار پانچ اہم شہروں میں کوچنگ سینٹروں کا انتظام کرے۔ ویسے کوچنگ سینٹر اب بڑی سرمایہ کاری چاہتا ہے، اسے چلانے کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ ملت کے بعض تعلیمی ادارے ایسے کوچنگ سینٹر چلارہے ہیں۔ تاہم ملی رفاہی اداروں کے ذریعے یہ کام بڑے پیمانے پر ہونا چاہیے۔ اگر کوچنگ سینٹر قائم کرنا مشکل ہے تو کم سے کم بڑے شہروں میں غریب بچوں کے قیام و طعام کا انتظام کیا جائے ،تاکہ وہ اپنی تعلیم میں یک سو ہوکر لگ سکیں اور کسی اچھے انسٹی ٹیوٹ میں ان کے داخلے کی راہ ہم وار ہو۔ جہاں تک ضروری ہو اس انسٹی ٹیوٹ کی فیس بھی ملی ادارے ادا کریں۔ مثلاً راجستھان کے شہر کوٹہ میں کوچنگ سینٹروں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ملک بھر سے وہاں طلبہ آتے ہیں۔کوچنگ سینٹروں میں اچھے اور باصلاحیت اساتذہ ہوتے ہیں۔اب تو مسلم لڑکیاں بھی کوٹہ کا رخ کررہی ہیں۔ ایسے مقام پر طلبہ کو سہولتیں فراہم کرنے والے ایک مرکز کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملت’’آئی اے ایس‘‘ کوچنگ سینٹر پر اچھی خاصی رقم خرچ کررہی ہے۔ اسی طرح اب دوسرے مسابقتی امتحانات کے لیے بھی کچھ نظم ہونا چاہیے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


اگر کوچنگ سینٹر قائم کرنا مشکل ہے تو کم سے کم بڑے شہروں میں غریب بچوں کے قیام و طعام کا انتظام کیا جائے ،تاکہ وہ اپنی تعلیم میں یک سو ہوکر لگ سکیں اور کسی اچھے انسٹی ٹیوٹ میں ان کے داخلے کی راہ ہم وار ہو۔ جہاں تک ضروری ہو اس انسٹی ٹیوٹ کی فیس بھی ملی ادارے ادا کریں۔ مثلاً راجستھان کے شہر کوٹہ میں کوچنگ سینٹروں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ملک بھر سے وہاں طلبہ آتے ہیں۔کوچنگ سینٹروں میں اچھے اور باصلاحیت اساتذہ ہوتے ہیں۔اب تو مسلم لڑکیاں بھی کوٹہ کا رخ کررہی ہیں۔ ایسے مقام پر طلبہ کو سہولتیں فراہم کرنے والے ایک مرکز کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے