فروری ۲۰۲۴

نو عمری کےلیے 11 تا 18 سال کی عمر کا تعین کیا جاتا ہے ۔عمر کے اس دور کو ماہرین بہت نازک دور مانتے ہیں۔ اس دور میں بچپن رخصت ہونے لگتا ہے اور بچے بالیدگی کے ابتدائی دور میں ہوتے ہیں۔ جسمانی، جذباتی، ذہنی تبد یلی کو بچوں کا ذہن فوراً قبول نہیں کر پاتا، اس لیے وہ اس عمر میں شدید ذہنی دباؤ سے گزرتے ہیں۔ بڑے عموماً دس سال کی عمر کے بچوں کو تابع دار ، حکم کی تعمیل کر نے والا پسند کرتے ہیں اور وہ فرماں بردار اور تابع دار ہوتے بھی ہیں،تاہم ٹین ایج (11 تا18 سال کی عمر میں بچے اور بچیاں بالکل مختلف ہو جاتی ہیں۔ اس دور کو GS Halls 1904) دباؤ اور جذباتی طوفان (storm and stress) کے دور سے تعبیر کرتے ہیں۔ عموماً اس دور میں بچے بات بے بات الجھنے لگتے ہیں کیوں کہ انھیں محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کر نے کے قابل ہو چکے ہیں۔ اس لیے ان کے مشورے کو اہمیت دی جائے ، ان کے ساتھ بھی بڑوں کی طرح رویہ رکھا جائے۔ ماہرین اس کو دور کاذب (Pseudo-period) کہتے ہیں۔ ایساد ور جس میں بچے اپنے آپ کو بڑا انسان اور مکمل انسان سمجھنے لگتے ہیں۔ ان میں اپنے آپ کو منوانے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں کے درمیان رہنا پسند کر تے ہیں جہاں ان کو عزت اور اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ عزت نفس کے تئیں بچہ بہت حساس ہوجاتا ہے۔ اگر ان سب باتوں کا علم نہ ہو اور بڑے ان کے ساتھ بچوںکی طرح رویہ روارکھیں اور زیادہ روک ٹوک کرنے لگیں تو نو عمر بچے جھنجلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی خو دی مجروح ہوتی ہے اور وہ بہت سخت لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ اس عمر میں چاہیے کہ روک ٹوک کے بجائے ان کی صحبت کا خیال رکھیں اور ان کے Peer group سے آگاہ رہیں۔ روک ٹوک کے بجائے نوعمر بچوں کو مشاورت میں شامل کر یں۔ اس دور میں نوعمر بچوں کوپیش آنے والے تکلیف دہ حالات کا علم رکھیں’’ حکمت کی راہ‘‘ میں ہے کہ جس بات کی آپ اصلاح کروانا چاہتے ہیں،اس بات پر بچوں سے مشورہ کر یںاور ان کی باتوں کی پذیرائی بھی کر یں۔

 دور عثمانیہ میں نوعمر بچوں کو کم عمر بہادر جنگجو کے طور پر تربیت دی جاتی تھی۔ ان کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ بچوں کو اس میدان کاماہر بنادیا کر تے تھے۔ تلوار بازی، گھڑ سواری، نشانہ بازی میں وہ اتنی تعریف کرتے کہ نوعمر بچے اس ذہنیت کے ساتھ اپنے آپ میں ذمہ دار بن جاتے اور ماہر بن کر ابھرتے تھے۔ یہ دور بہت قوت اور طاقت کے احساس کا دور ہوتا ہے ۔ جس قد رقوت جسمانی کاموں میں صرف ہو گی اتناہی تناؤ کم ہونے لگے گا۔ بڑوں کی حکمت نوعمر بچوں کی پختگی اور ذہنی بالیدگی میں معاون بن سکتی ہے۔
والدین کا رویہ اس عمر میں کس طرح ہونا چاہیے؟ اس کا اندازہ آپ اس کیس اسٹڈی سے لگاسکتے ہیں :
’’میرا گناہ ایسا ہے کہ سن کر آپ مجھ سے نفرت کریں گی ۔‘‘سولہ سال کی اسکول جانے والی کم عمر بچی نے کاؤنسلنگ کے دوران کہا۔
جواب دیا:’’ ایسا بالکل نہیں ہوگا، ابھی بتائے بغیر ہی مجھے آپ پر بہت سارا دلار آرہا ہے ۔ بتاؤں کیوں؟اس لیے کہ آپ میں گناہ کا احساس زندہ ہے، آپ اس سے نکلنے کے لیے یہاں آئی ہیں، آپ کو گناہ پر انسانوں کی نفرت کا احساس ہے، سوشل بائیکاٹ کا مطلب آپ سمجھتی ہیں، والدین کی شرمندگی کا احساس آپ کو رلارہا ہے ۔یہ زندہ ضمیری کی علامت ہے، اور آپ شرمندہ بھی ہیں ۔محبت کرنے کے لیے اتنا کافی ہے ۔‘‘
اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی ۔نفرتیں جھیل جھیل کر خودکشی کا ارادہ بناچکی تھی۔بولتی چلی گئی ۔
’’یہ بات جاننے کے بعد میں اور زیادہ قریب ہوگئی ہوں آپ سے، جانتی ہیں کیوں؟اس لیے کہ چھوٹے بچے کو ہم بہت کم عمری میں سکھادیتے ہیں کہ بیٹا یہ آگ ہے ،ہاتھ جل جاتا ہے، گرم ہے، اسے نہ چھونا ۔سبھی بچے بڑوں کی مان لیتے ہیں، گرم استری کو یا گرم برتن کو یا چمکتے ہوئے آگ کے شعلے کو نہیں چھوتے، لیکن کچھ بچے گرم کا تجربہ کرتے ہیں، ہاتھ جل جائے تو چیختے ہیں،رونے لگتے ہیں ۔کیا ہم اس کے ہاتھ جل جانے کے بعد اس سے دور بھاگتے ہیں، یا اس کے علاج کے لیے نزدیک آتے ہیں ،مرہم لگاتے ہیں پھر تاکید کر کے سمجھاتے ہیں بیٹا کہا تھا نا ہاتھ جل جاتا ہے ؟آئندہ ہماری بات سنو گے ؟اچھا ؟‘‘
ماحول کی بے راہ روی نے ٹین ایج بچوں کو کب اس دہلیز پر پہنچادیا کہ وہ کسی کم زور لمحے کا شکار ہوگئے یا کوئی غلط قدم اٹھا لیا تو جان لیجیے کہ ہم نےانھیں آگ سے بچنے کی تاکید ویسی نہیں کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ ہم بحیثیت والدین انھیں اس کی تپش کا احساس دلانے میں کہیں نہ کہیں ناکام رہے ہیں، ان کیس بہت سمجھانے کے بعد بھی وہ لوٹ آئیں تو وہ نفرت کے، سوشل بائیکاٹ کے مستحق نہیں ہیں۔ ان پر والدین کا ظلم، رشتہ داروں کا سوشل بائیکاٹ تربیت کا حصہ نہیں ہے ۔ بات بات پر والدین کے طنزو تشنیع کے تیران کی ذہنی حالت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں ۔والدین سماج کی عزت کو خدا سمجھنے لگیں تو حقیقی خدا کے خوف کے بجائے سماج میں سر اٹھانے کا خوف دلاتے ہیں ۔
غلطی کرنے کے بعد والدین تھکے ہارے شرمندہ شرمندہ سماج کے سامنے ناک کٹ جانے پر جسمانی سزا دیتے ہیں ۔ بچوں پر کیے گئے احسانات گنوانے لگتے ہیں ۔انھیںاللہ کے سامنےتوبہ کرنا سکھائیے ۔بچپن سے کبائر اور کبائر کااجتناب نہ کرنے کی تلقین بچپن میں ٹین ایج سے پہلے ہی کروائیے۔ بتائیں کہ بیٹا آگ سے ہاتھ جل جائے تو تکلیف تو ہوتی ہے، ساری زندگی جلد کا داغ نہیں جاتا ، حسن ختم ہوجاتا ہے ۔
ماحول سے بچانے میں پہلے حساسیت کی کمی والدین میں پائی جاتی ہے۔پابندی لگانے سے بچے پابند نہیں ہوتے، بعض سرپرست فخریہ بتاتے ہیں کہ ہم نے بچوں پر پابندی لگائی ہے آزادی نہیں دی ۔
(1) نہیں بھئی! آزادی دیجیے لیکن آپ کی زبان پر ہر لمحہ گفتگو جاری رہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔ بیٹا! کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں ، کسی اجنبی کے ساتھ چیٹنگ نہ کریں ۔
(2) ان سے کہیں کہ ہر جگہ اللہ موجود ہوتا ہے، وہ جس سے روکے، رک جانا اور نہ رکنے والوں کو وہ دیکھ رہا ہے ۔
(3)گھر کے اصول بنائیں کہ ہر چیز ملے گی، لیکن اللہ کے ان حدود کو توڑنے پر کوئی کامپرومائیز نہیں ۔
تب بھی خطا ہوجائے تو والدین کی نفرت، یہ اسلام کا مطمح نظر نہیں ہے ۔راہ راست پر آنے کی رمق بھی باقی ہوتو اسلام اسے گلے لگانے کا حکم دیتا ہے۔اس پہلو پر والدین کو سوچنا چاہیے کہ ان کی برائی ہمارے اپنے رویے کے سبب ہے، ایسے بچوں کو ہینڈل کرنے کے لیے کاؤنسلر کی مدد لینی چاہیے ۔
اہم بات یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے بچپن کا خوب خیال رکھیں اور 9 سال کی عمر سے بچے کے رویے میں ہونے والی تبدیلی کے ساتھ ساتھ خود کو بھی بدلنے کی کوشش کریں ۔پہلے آپ حکم صادر کرتے تھے، اب مشاورت کرتے ہوئے بات کیجیے۔ بچے سے مشاورت کے ساتھ گفتگو کرنے سے وہ اپنے ’’سوڈو پیریڈ‘‘ کو انجوائے کرتے ہیں ۔

دھوکے کا زمانہ

Pseudo period کیا ہوتا ہے ؟دھوکےکی عمر میں بچے کو اپنا آپ بہت توانا،انرجیٹک اور ذہین محسوس ہوتا ہے۔ وہ خود ایک مکمل انسان سمجھنے لگتا ہے۔ انرجی فلو کچھ اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی دوسروں کو کم زور، خصوصاً اپنے والدین کو کم زور سمجھتے ہیں۔ ان کا ہم عمر گروہ انھیں باور کرواتا ہے کہ ہمارے گھر کے بڑے اب آؤٹ ڈیٹ ہوچکے ہیں۔ اب ہم زمانے کو بہتر سمجھتے ہیں اور وہ اپنی اس عمر میں بچہ سمجھے جانے پر خوب برہم ہوتے ہیں ۔
ان کی اس نفسیات کا علاج یہ ہے کہ انھیں محسوس کروایا جائے کہ آپ کی اہمیت ہے، آپ سے مشورہ لیا جارہا ہے، آپ کو تسلیم کیا جارہا ہے۔ اس عمر میں وہ جنس مخالف میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں۔ یہ بہت نارمل اور عام بات ہے ۔اس کا نقصان مخلوط نظام تعلیم والوں کو زیادہ ہوتا ہے ،والدین کنٹرول کرنا چاہتے ہیں اور بچہ سیلف کنٹرول کھودیتا ہے ۔
ایسے میں بچوں کے سامنے ان کی دل چسپیوں کے ایسے کام رکھے جائیں، جہاںبڑوں کی نگرانی میں ان کی توجہ کو ڈائی ورٹ کیا جاسکے ۔اس عمر میں سب زیادہ نقصان ڈانٹ ،تنبیہ، طنز و تشنیع اور نصیحت کا ہوتا ہے ۔بہت حکمت کے ساتھ تدبیر اختیار کرنی چاہیے، اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ بچوں کے دامن کبائر سے بچا کر رکھے ۔

احساس ذمہ داری

اس عمر میں بچے میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے انھیںایسے ہنگامی کام سونپے جائیں، جو مکمل انھیں مستغرق کردیں۔ مثلاً سماجی امدادی کام، ان کی مشاورت اور مینجمنٹ کے کام ، سخت کوشی اور مشقت کے کام اور ساتھ ساتھ والدین کی جانب سے ہمت افزائی کا ماحول بنے ، دوران گفتگو بے حیائی سے کراہیت کا اظہار کروانا اور اپنے دوستوں کے درمیان کاؤنسلنگ کرنے پر اکسانا، جب بچہ دوسرے کو سمجھاتا ہے تو خود اس سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔
بچوں کو صحت مند مصروفیات میں شامل کرنے کےلیےسب سے اہم چیز مارشل آرٹ یا آؤٹ ڈور گیمز ہیں ۔لڑکیوں کے لیے کشیدہ کاری یا کوکنگ کا شوق ہوتو نئے نئے طرز پر کوکنگ سیکھنے کا بھی موقع دیا جاسکتا ہے ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے