فروری ۲۰۲۴

شیطان نے جب انسان سے عداوت کا ارادہ کیا اور اس کوراہ راست سےہٹانے اور خدا سے دور کرنے کے قصد سے جو ابتدائی اقدام کیا ،وہ تھا لباسِ حیا پر حملہ ،اور یہ حملے آج تک پے در پے جاری ہیں۔شیطان بڑی مستقل مزاجی ومستعدی کےساتھ انسانی معاشرہ سے لباس حیا کو کھرچ پھینکنے کاکام کیے جارہا ہے، اور آج یہ عبرت انگیز بے حیا ماحول کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے۔ مغرب میں تو یہ بے حیائی کا طوفان سیلاب کی شکل اختیار کیے تباہی مچاہی رہا ہے، لیکن اب مشرق بھی اس کی زد میں آچکا ہے۔چند سال پہلے اس قسم کے لباس جو بے لباسی کے مظہر ہوں ،جسم کو چھپاتے کم اور نمایاں زیادہ کرتے ہوں، وہ یہاں ہندوستان میں پہننا ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا، شریف گھرانوں کی لڑکیاں ایسے لباس پہننے کو معیوب سمجھتی تھیں،لیکن اب اس کو پہننا تہذیب اور ماڈرنزم کی علامت سمجھا جارہا ہے۔
جینزکلچرکے مظاہر صرف چند گنے چنے مغرب زدہ گھرانوں میں دیکھے جاتے تھےم لیکن اب یہ عام ہندوستانی معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔شائستگی اور حیا ووقار رخصت ہو گیا ہے۔ نہ صرف لباس بلکہ کئی بے حیائی کے اعمال جیسے عشق و عاشقی کے کھلے عام مظاہرے اور کالجز میں لڑکے لڑکیوں کی بڑھتی بے تکلفیوں کا کلچر بھی عام ہوتا جارہاہے۔
ویلنٹائن ڈے ،روز ڈے، فرینڈشپ ڈے وغیرہ کےنام سے لڑکے لڑکیوں میں قربت پیدا کرنے کی شیطانی کوشش اب لیو ان ریلیشن شپ کی حد تک کامیاب ہوگئی ہے۔

مسلم معاشرےکی صورت حال

اس گندگی میں مسلم معاشرہ اس انتہا تک ملوث نہیں ہے، لیکن پوری طرح محفوظ بھی نہیں ہے۔ ہر طرف بے حیائی و خباثت کا ڈیرہ ہے، اس ماحول میں نیک اور طیبات کا وجود شیطان کو کہاں گوارا ہوگا؟ اسی لیے شیطان اور شیطان صفت عناصر کی بھر پور کوشش ہے کہ مسلم سوسائٹی میں بھی بے حیائیاں اور اباحیت پسندی خوب پھیلے۔
جدید ٹیکنالوجی جو انسانی ترقی کی کار آمد ایجاد اور علم و ہنر کے حصول کے لیے بلا شبہ ایک مؤثر ذریعہ ہے، لیکن المیہ یہ ہےکہ مسلم معاشرےمیں بھی اس کا مثبت سے زیادہ منفی استعمال ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ نے تو بے حیائی کی ترویج اور اشاعت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،فحش اور بد اخلاقی پر منحصر فلمیں اب موبائل پر دستیاب ہونے کی وجہ سے ہر بچے بڑے کی پہنچ میں ہیں۔ان کے علاوہ ویب سیریز اور ڈراموں کے سلسلے اس میں موجود سسپنس نوجوان مرد و خواتین کو اس کاجنون کی حد تک شوقین بنارہا ہے، اوراس میں سے اکثر مار دھاڑ یا فحاشی و بداخلاقی کی ترویج کرنے والے موضوعات پر مبنی ہوتے ہیں۔
شارٹس ،ریلز،کمرشیل ایڈ س بھی بے حیائیوں کو انتہائی ہلکا یا کہیں تہذیب کا جز بتلاتے ہیں، لڑکے لڑکیوں کی نا شائستہ دوستیوں کی حوصلہ افزائی کرتےمناظر اور نہایت مختصر لباس میں ایکٹرز مسلسل اور بار بار دکھلائے جارہے ہیں، جن کے ذریعہ مسلم بچوں میں بھی بے حیائی سے کراہیت ختم ہوتی جارہی ہے، اس کے علاوہ مسلم طلبہ وطالبات کی ایک بڑی تعداد فحش ومخرب اخلاق مواد والےناولز و لٹریچر ز کی بھی شوقین بنتی جارہی ہے۔چھوٹے بچوں کےلیےبنائے گئے کارٹون ا ور ویڈیو گیمز میں بھی برہنگی و بے حیائی اور صنفی کشش کے پہلو کواجاگر کیا جاتا ہے، جس کا چھوٹے ذہنوں پر کافی منفی اثر پڑرہا ہے۔
اسلام عفت و حیاکی دعوت دیتا ہے بلکہ حیا کو ایمان کا جز قرار دیتا ہے، مانو جو حیا سے محروم ہے وہ ایمان کے ایک حصہ سے محروم ہوگیا۔
عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کردہ ایک حدیث ہےکہ اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ہے، اس لیے اس نے تمام بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے،خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔
اسی لیے اسلام نے ایسے اصول وضوابط دئیے ہیں،جو بے حیائیوں کے داخلے کے درہی بند کردیتے ہیں۔

حجاب و شرعی لباس کا لزوم

 اسلام انسانوں کے درمیان ایک صالح تہذیب کا فروغ چاہتا ہے، جہاں نکاح کے ذریعہ نہ صرف نسل انسانی کا سلسلہ چلے بلکہ محبت بھرے مضبوط خاندانی نظام کے ذریعہ صالح معاشرہ وجود میں آئے۔
اس لیے اسلام مرد اور عورت دونوں کو میاں بیوی کے علاوہ دوسروں سے وہ صنفی حصے چھپانے کا حکم دیتا ہے، جن میں صنفی کشش پائی جاتی ہو۔محرم اور غیر محرم کا فرق واضح کرتا ہے اور ان کے سامنے حجاب و لباس کے شرعی احکامات کو وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ہمارے گھرانوں میں ان احکام پر عمل آوری کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اسکولوں میں لباس کا محدود تصور بچوں کے ذہنوں میں بٹھایا جارہا ہے ،ابتدائی کلاسز سے نصابی کتابوں میں درج لباس کا تعارف صرف خوبصورتی کے لیے اور موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے والی چیز کے طور پر کروایا جارہا ہے،جب کہ اسلام لباس کا اصل مقصدقابل ستر حصوں کو چھپانا قرار دیتا ہے،گوکہ موسمی اثرات سے حفاظت اور زیب وزینت بھی لباس کےضمنی مقاصد ہیں۔
ہمیں اپنے بچوں کے ذہنوں میں اس تصور لباس کو بٹھانے کی ضرورت ہے، بلوغت سے پہلے سے ہی بچوں کو شائستہ لباس پہننے کی عادت ڈلوانی چاہیے،تاکہ حیا اور شائستگی مزاج کا حصہ بن جائے۔

محرم و نامحرم کا فرق

لڑکپن میں ہی محرم ونامحرم کا فرق ، ان سے ربط کے حدود،اجنبیوں سے فاصلہ رکھنے کی تاکید اور حفاظتی تراکیب و اقدامات کی مناسب رہ نمائی انتہائی ضروری ہے۔لڑکوں کو بھی حیا و غض بصر کی تلقین اور عورتوں کے احترام کی تاکید کرنا ضروری ہے۔مسلم گھرانوں کا ایک بڑا مرض نامحرم رشتہ داروں ،کزنز وغیرہ سے غیر شائستہ بے تکلفی کی روایت ہے جو کئی قباحتوں کا ذریعہ ہے،
اس سے احتیاط کےلیے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

انٹرنیٹ کے استعمال میں احتیاط

کمپیوٹر، موبائل اور انٹرنیٹ دور جدید کی علمی ضرورت بن گئے ہیں،اس کا شمار حصول علم کے ضروری ترین عناصر میں ہورہا ہے،اس سے دور رہنا بہت مشکل ہے،پھر اس کے نقصانات سے کیسے نپٹا جائے ؟یہ ایک بڑا چیلنج ہے،لیکن کچھ مؤثر منصوبہ بندی کےذریعہ اس سے نپٹا جاسکتا ہے، جیسے:
بچوں کوGadget کے ساتھ اکیلا نہ چھوڑا جائے،اس کے استعمال کے وقت ہم آس پاس ہی رہیں، نیٹ سے پڑھنے کا وقت متعین ہو،ا سکرین ٹائم سیٹ کیا جاسکتاہے۔ڈیسک ٹاپ پر پڑھنے کا پابند بنا یاجاسکتا ہے۔

برائی سے اجتناب کا اہم محرک

اسلامی تہذیب اور کلچر کی اصل بنیاد تو عقیدۂ توحید ہے، اس عقیدے کی پختگی ساری برائیوں سے دور رہنے کا داعیہ پیدا کرتی ہے۔خدا کے حاظر وناظر رہنے کا عقیدہ جو تقویٰ پیدا کرتاہے ،وہ ساری بے حیائیوں و برائیوں سے بچاتا ہے، فرد کے اندر فطری حیا پیدا کرتا ہے، جو اسلام کا امتیاز ہے۔
جب خدا پر ایمان ایک بندۂ مومن کے دل میں راسخ ہوجائے تو حیا اس کے مزاج کا حصہ بن جائے گی، پھر وہ معاشرہ میں لوگوں کے درمیان ہی حیا نہیں کرےگا، بلکہ اپنے آپ سے بھی حیا کرے گا، اس کا خدا پر پختہ یقین اس کو خدا سے بھی حیا کروائے گا، ایسی حیااورخداترسی پیدا کرے گا کہ وہ بند کمرے میں بھی موبائل پر کوئی گندی تصویر نہیں دیکھے گا،کالج میں لڑکیوں کو دیکھ کر اس کی نظریں نیچی ہوجائیں گی۔
ایسا تقویٰ جو لڑکیوں کو اتنا باحیا اور باوقار بنائے کہ کوئی اجنبی لڑکا ان کی طرف راغب ہونے کی ہمت ہی نہ کر پائے،ایک پاکیزہ اور حیادار معاشرہ اسی تقویٰ اور خدا ترسی کی بنیاد پر تشکیل پاسکتا ہے۔

٭ ٭ ٭


کمپیوٹر، موبائل اور انٹرنیٹ دور جدید کی علمی ضرورت بن گئے ہیں،اس کا شمار حصول علم کے ضروری ترین عناصر میں ہورہا ہے،اس سے دور رہنا بہت مشکل ہے،پھر اس کے نقصانات سے کیسے نپٹا جائے ؟یہ ایک بڑا چیلنج ہے،لیکن کچھ مؤثر منصوبہ بندی کےذریعہ اس سے نپٹا جاسکتا ہے، جیسے:

بچوں کوGadget کے ساتھ اکیلا نہ چھوڑا جائے،اس کے استعمال کے وقت ہم آس پاس ہی رہیں، نیٹ سے پڑھنے کا وقت متعین ہو،ا سکرین ٹائم سیٹ کیا جاسکتاہے۔

ڈیسک ٹاپ پر پڑھنے کا پابند بنا یاجاسکتا ہے۔

Comments From Facebook

2 Comments

  1. Musarrat Jahan

    Aaj k dour k liye bahut achcha mazmun hai

    Reply
  2. Fariha Sabeen Sajid Khan

    ❤Superb Explaination

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے