فروری ۲۰۲۴
زمرہ : النور

یہ چھوٹی سی سورۃ 6 آیتوں پر مشتمل ہے ، آیات بھی چھوٹی چھوٹی ہیں ۔
’’اَ‘‘ استفہام ہے یعنی سوال کیا جا رہا ہے۔’’اَرَءَ یْتَ‘‘ کااسلوب کسی کی طرف تعجب اور نفرت کے ساتھ متوجہ کرنے کے لیے آتا ہے۔
آیت میں خطاب نبی کریم ﷺ سے ہے، لیکن حقیقت میں یہ خطاب ہر اس آدمی سے ہے جو عقل رکھتا ہے اور جس کے اندر نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت ہے، اور یہاں دیکھنے سے مراد آنکھوں سے دیکھنا بھی ہے اور جاننا،سمجھنا اور غور کرنا بھی ہے ۔
لفظ ’’دِیْن‘‘ یہاں جزاء و سزا کے معنی میں ہے، جس طرح ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ (الفاتحہ) میں ہے۔ ’’الدین ‘‘کے معنی جزا ءاور سزا بھی ہیں اور وہ نظام زندگی بھی جس کو اسلام کہتے ہیں ۔ یہاں دونوں مراد ہو سکتے ہیں ۔ تعجب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تم نے دیکھا ہے اس شخص کو جو دین کو جھٹلاتا ہے، یا نفرت کے اظہار کے لیے کہا جا رہا ہے کہ تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے ؟مراد اس سے یہ ہے کہ جب تم اسے دیکھوگے تو تمھیں معلوم ہوگا کہ اسلام بطور نظام زندگی کا انکار یا آخرت کا انکار انسان کے اندر کیسے برے اخلاق پیدا کرتا ہے ۔
آیت کے شروع میں’’ فا‘‘ کا لفظ یہ بتلاتا ہے کہ یہ جملہ جزائیہ ہے اور اس سے پہلے جملہ شرطیہ محذوف ہے۔ اصل میں’’ فذالک الذی‘‘ فرمایا گیا ہے، اس فقرے میں ’’ف‘‘ ایک پورے جملے کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں :’’اگر تم نہیں جانتے تو تمھیں معلوم ہو کہ وہی تو ہے جو …‘‘ یا پھر یہ اس معنی میں ہے:’’ اپنے اسی انکار آخرت کی وجہ سے وہ ایسا شخص ہے جو…‘‘ ’’ذا ‘‘کا لفظ اسم اشارہ ہے ،جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لیے آتا ہے ۔
(دع ) الدع کے معنی سختی کے ساتھ دھکا دینے کے ہیں، اصل میں یہ کلمہ ٔزجر ہے ۔
(ی ت م) الیتیم کے معنی نابالغ بچہ کے شفقت پدری سے محروم ہو جانے کے ہیں۔انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتیم کا اعتبار ماں کی طرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کو بن ماں کے رہ جانے کو یتیم کہتے ہیں ۔
اصل میں’’ یدع الیتیم‘‘ کا فقرہ استعمال ہوا ہے جس کےکئی معنی ہیں ۔ ایک یہ وہ یتیم کا حق مار کر کھاتا ہے اور اس کے باپ کی چھوڑی ہوئی میراث سے بے دخل کر کے اسے دھکے مار کر نکال دیتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ یتیم اس سے مدد مانگنے آتا ہے، تو رحم کھانے کے بجائے اسے دھتکار دیتا ہے ،اور اگر اس کا بس چلے تو وہ یتیم پر ظلم ڈھانے سے بھی باز نہیں آتا ،اور اس کی سنگ دلی کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اسے اس بات کا کوئی کھٹکا نہیں کہ قیامت آئے گی اور اسے اپنے مظالم اور ان حرکتوں کا جواب دینا پڑےگا ۔ اس سلسلے میں قاضی ابوالحسن ماوری نے اپنی کتاب :’’اعلام النبوۃ‘‘ میں ایک عجیب واقعہ لکھا ہے کہ ابو جہل ایک یتیم کا وصی تھا ۔وہ بچہ ایک روز اس حالت میں اس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے اور اس نے التجا کی کہ اس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے وہ اسے کچھ دے دے، مگراس ظالم نے اس کی طرف توجہ نہ کی اور وہ کھڑے کھڑے مایوس ہو کر پلٹ گیا ۔ قریش کے سرداروں نے ازراہ شرارت اس سے کہا کہ محمدﷺ کے پاس جا کر شکایت کر، وہ ابو جہل سے سفارش کرکے تیرا مال دلوا دیںگے ۔ بچہ بےچارہ ناواقف تھا کہ ابو جہل کا حضورﷺ سے کیا تعلق ہے ؟ اور یہ بدبخت کس غرض کے لیے اسے یہ مشورہ دے رہے ہیں ۔ وہ سیدھا حضورﷺ کے پاس پہنچا اور اپنا حال آپ سے بیان کیا ۔آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر اپنے بدترین دشمن کے گھر تشریف لے گئے ۔ آپ کو دیکھ کر اس نے آپﷺ کا استقبال کیا اور جب آپ نے فرمایا کہ اس بچے کا حق ادا کر دو تو وہ فوراً مان گیا اور اس کا مال لا کر اسے دے دیا ۔ قریش کے سردار تاک میں لگے ہوئے تھے کہ دیکھیں کہ دونوں کے درمیان کیا معاملہ پیش آتا ہے ۔ وہ کسی مزید جھڑپ کی امید کر رہے تھے، مگر جب انھوں نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران ہو کر ابو جہل کے پاس آئے اور اسے طعنہ دیا کہ تم بھی اپنا دین چھوڑ گئے ۔ اس نے کہا :’’خدا کی قسم! میں نے اپنا دین نہیں چھوڑا ، مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ محمد(ﷺ) کے دائیں اور بائیں ایک ایک حربہ ہے ،جو میرے اندر گھس جائے گا ،اگر میں نے ذرا بھی ان کی مرضی کے خلاف حرکت کی ۔‘‘
اس واقعہ سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں عرب کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور معزز قبیلے تک کے بڑے بڑے سرداروں کا یتیموں اور دوسرے بےیارومددگار لوگوں کے ساتھ کیا سلوک تھا ، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کس بلند اخلاق کے مالک تھے اور آپ کے اس بلند اخلاق کا آپ کے بدترین دشمنوں تک پر کیا رعب تھا ۔ (تفہیم القرآن)
’’اَلَّذِیْ‘‘ سے کون مراد ہے؟ اس کی وضاحت یہاں نہیں ہے، لیکن قرینہ دلیل ہے کہ اشارہ ابولہب کی طرف ہے۔ یہ ایک نہایت مال دار بخیل تھا جو حرم کے بیت المال (رفادہ) پر سورۃ کے زمانۂ نزول میںقابض تھا۔ آگے اس کے ذلیل کردار اور اس کی تباہی کا ذکر ایک مستقل سورۃ ’’اللہب‘‘ میں آ رہا ہے۔ اس سورۃ کی تفسیر سے واضح ہو جائے گا کہ اس نے رفادہ کو اپنی ذاتی جائےداد بنا لیا تھا۔ اس کی آمدنی اپنے ذاتی مقاصد میں اس نے استعمال کی اور اس کی بدولت مکہ کا قارون بن گیا۔
یہاں اصل مقصود کلام تو اس کی شقاوت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ جو شخص اتنا قسی القلب ہے کہ وہ یتیموں کو دھکے دیتا ہے، اس سے کسی خیر کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے کہ وہ بیت اللہ کے کسی شعبےکا ذمہ دار بن سکے ،لیکن بات ایسے اسلوب میں فرمائی ہے ،جس سے اس کا وہ باطن بھی سامنے آ گیا ہے جو اس کی اس قساوت کا اصل سبب ہے۔
آخرت کا منکر بے غرض انفاق نہیں کر سکتا
’’یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ‘‘ کی صفت اس کے باطن پرروشنی ڈال رہی ہے کہ وہ آخرت اور جزاء و سزا کا جھٹلانے والا ہے۔ جو شخص آخرت کا منکر ہو گا اس کے اندر اس انفاق کا کوئی محرک سرے سے باقی رہ ہی نہیں جاتا، جو خدا کی خوشنودی اور خالصۃً خدمت خلق اور ہمدردئ غرباء کے لیے ہو۔ ایسا شخص اگر کچھ خرچ کرتا ہے تو اپنی کسی ذاتی غرض یا ریاء و نمائش کے لیے کرتا ہے۔ بے غرض فیاضی صرف اسی شخص کے اندر پیدا ہوتی ہے، جو آخرت کی جزاء و سزا پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہے۔

سورۃ اللیل میں اس حقیقت پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے:

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہ لِلْیُسْرٰی وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہ لِلْعُسْرٰی
(اللیل: 5-10)

(پس جس نے دیا اور ڈرا اور اچھے انجام کی اس نے تصدیق کی تو ہم اس کے لیے آسان راہ ہموار کریں گے اور جس نے بخل کیا اور بے پروا ہوا، اور اس نے اچھے انجام کی تکذیب کی تو ہم اس کو دشوار راہ پر ڈالیں گے۔)
(ح ض ض) الحض (ن) کے معنی حث کی طرف کسی کام کو ابھارنے کے ہیں ۔ (ط ع م) الطعم کے معنی غذا کھانے کے ہیں اور ہر وہ چیز جو بطور غذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ اطعام المسکین نہیں بلکہ طعام المسکین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اگر اطعام المسکین ہوتا تو معنی یہ ہوتے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اکساتا ہے ، لیکن طعام المسکین کے معنی یہ ہیں کہ وہ مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اکساتا ۔ بالفاظِ دیگر جو کھانا مسکین کو دیا جاتا ہے وہ دینے والے کا کھانا نہیں بلکہ اسی مسکین کا کھانا ہے، وہ اس کا حق ہے جو دینے والے پر عائد ہوتا ہے، اور دینے والا کوئی بخشش نہیں دے رہا ہے بلکہ اس کا حق ادا کر رہا ہے ۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ یہ درحقیقت دینے والے کو اس بات سے روکنا ہے کہ وہ مسکین کو کچھ بھی دے کر احسان دھرنے کا تصور نہ کرے، بلکہ یہ سمجھے کہ احسان اس کا ہے جس نے میری مدد کو قبول کر لیا ۔
لا یحض کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنے نفس کو بھی اس کام پر آمادہ نہیں کرتا ، اپنے گھر والوں کو بھی نہیں کہتا کہ مسکین کو کھانا دیا کریں ، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس بات پر نہیں اکساتا کہ معاشرے میں جو غریب و محتاج لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے حقوق پہچانیں اور ان کی بھوک مٹانے کے لیے کچھ کریں ۔اصل مقصود ان دو ہی باتوں پر گرفت کرنا نہیں کہ آخرت کو نہ ماننے سے بس یہ دو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ یتیموں کو دھتکارتے ہیں اور مسکینوں کو کھانا دینے پر نہیں اکساتے، بلکہ جو بےشمارخرابیاں جو اس گمراہی کے نتیجے میں رونما ہوتی ہیں، ان میں سے دو ایسی چیزیں بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں، جن کو ہر شریف الطبع اور سلیم الفطرت انسان مانے گا کہ وہ نہایت قبیح اخلاقی رذائل ہیں ۔
(و ی ل) الویل، اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ،
اور حسرت کے موقع پر ویل اور ترحم کےلیے ویل لفظ کا استعمال ہوتا ہے، اور بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے ۔
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ یہاںاس معنی میں ہے کہ کھلے کھلے منکرین آخرت کا حال تو یہ تھا جو ابھی تم نے سنا، اب ذرا ان منافقوں کا حال بھی دیکھو جو نماز پڑھنے والے گروہ، یعنی مسلمانوں میں شامل ہیں۔ وہ چوں کہ بظاہر مسلمان ہونے کے باوجود آخرت کو جھوٹ سمجھتے ہیں، اس لیے ذرا دیکھو کہ وہ اپنے لیے کس تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔مُصَلِّيْنَ کے معنی تو ’’ نماز پڑھنے والوں ‘‘ کے ہیں، لیکن جس سلسلۂ کلام میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آگے ان لوگوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں، ان کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی درحقیقت نمازی ہونے کے نہیں بلکہ اہل صلوٰۃ، یعنی مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہونے کے ہیں۔ (تفہیم القرآن)

فَوَیْلٌ لِّـلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَ تِھِمْ سَاھُوْنَ (الماعون : 4، 5)

(پس خرابی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے، جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ )

قریش کے سربرآوردہ لوگوں کی نمازیں اور ان کے اخلاق

یہ بیت اللہ کے پروہتوں اور قریش کے سربرآوردہ لوگوں کی نمازوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے اس سورة کو مدنی قرار دیا ہے انھوں نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ یہ منافقین کی نمازوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ پھر انھوں نے منافقین کی نمازوں کی کیفیت بیان کی ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے اور احادیث میں بھی اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے، اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے کہ یہاں عَنْ صَلاَ تِہِمْ کےا لفاظ آئے ہیں،
’فِی صَلاَ تِہِم‘ کےنہیں ، کیوں کہ منافق سرے سے نماز کی اہمیت و عظمت اور اس کی فرضیت کے قائل ہی نہیں ہوتے ،محض مسلمانوں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کبھی مسلمانوں کے اندر اور کبھی الگ تھلگ بیگار سمجھ کر نماز پڑھتے ہیں۔ اور اگر  فِیْ صَلاَ تِھِمْ کہا جاتا تو پھر نماز کے اندر جو بھول چوک ہوجاتی ہے اور کبھی آدمی کا خیال نماز سے ہٹ کر کسی اور چیز کی طرف لگ جاتا ہے ،
وہ اس سے مراد ہوتا، اور یہ وہ کوتاہی ہے جو کبھی نہ کبھی ہر شخص سے ہوتی ہے۔ پھر انھوں نے اس کی بھی تفصیل بیان کی اور احادیث سے اس پر استشہاد بھی کیا ہے۔

 لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مکی سورة ہے جس میں نماز کی کیفیت بیان نہیں کی گئی بلکہ اشرافِ قریش جو لوگوں میں اپنا تقدس باقی رکھنے کے لیے صحن حرم میں نماز پڑھا کرتے تھے، اس کا ذکر ہے، اور یہ وہ نماز تھی جو حضرت اسماعیل ؑ کی امت پر لازم کی گئی تھی۔ قریش اس کی حقیقت اور اس کی ہیئت کو یکسر بھول چکے یا بدل چکے تھے۔ قرآن کریم نے بعض جگہ اس کی طرف اشارے کیے ہیں، لیکن ان کے نزدیک اس کی اصل صورت کیا تھی، اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔،بلکہ اس آیت کو اگر تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف نمازوں سے غافل ہی نہیں تھے ،بلکہ نماز کی اصل صورت کو بھی بھول چکے تھے۔ نماز کا تصور ان میں باقی تھا، اس لیے جو شخص نماز کی کوئی بھی شکل بنا لیتا، لوگ اس کو ایک اچھا آدمی سمجھتے تھے، لیکن بالعموم نماز ان کی زندگی سے نکل چکی تھی۔ اگر اس بات کو قبول کرلیا جائے تو پھر ان تفصیلات کی ضرورت نہیں رہتی، جو منافقین کی نمازوں کے سلسلے میں مفسرین نے بیان فرمائی ہیں۔

الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُوْنَ (الماعون: 6)(جو ریاکاری کرتے ہیں۔ )

ان کی نمازیں دکھاوے کی تھیں۔یعنی قریش کے نام نہاد متولی جو نمازیں پڑھتے تھے وہ درحقیقت لوگوں کو دکھانے کے لیے ہوتی تھیں۔ اس سے مقصود لوگوں میں اپنے لیے ایک اچھا تصور پیدا کرنے کی کوشش تھی، اللہ تعالیٰ کی یاد کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تو جو نماز محض دکھاوے کی ہو ،اس کا مذہب سے کیا رشتہ اور اخلاص سے کیا تعلق۔ وہ تو محض شہرت اور نیک نامی کے حصول کی ایک کوشش ہے۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ قریش کے بڑے لوگ دنیوی جاہ و مرتبت کے سوا اور کسی چیز کے طلب گار نہ تھے۔ حالانکہ ان کے جدِامجد حضرت ابراہیمؑ نے جب اپنی اولاد کو کعبہ کے گردوپیش میں بسایا تھا تو اس کا اصل مقصد نماز کا قیام بتایا گیا تھا، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست اپنا تعلق قائم کریں اور اللہ تعالیٰ کے گھر کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے دین کا مرکز بنادیں۔
( م ن ع ) المنع ۔یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے :

 وَيَمْنَعُونَ الْماعُونَ(الماعون: 7)

(اور برتنے کی چیزیں عاریۃً نہیں دیتے ۔)
الماعون سے کیا مراد ہے؟ اس میں چند اقوال ہیں :
(1) لغت میں ماعون تھوڑی سی چیز کو کہتے ہیں۔ اور یہاں مراد زکوۃ ہے۔
( حضرت علی ؓ حسن بصری (رح)۔ قتادہ۔ ضحاک)
زکوۃ کو ماعون کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے مال کی زکوٰۃ تھوڑی سی
( صرف ڈھائی فی صد)ہوتی ہے۔
(2) ماعون سے مراد روزمرہ کے استعمال کی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں۔
مثلاً: کلہاڑی، ڈول، ہانڈی وغیرہ ( حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ)
(3) ماعون سے مراد مستعارلی ہوئی چیز ہے۔ ( مجاہد)

وَيَمْنَعُونَ الْماعُونَ(الماعون: 7)

(اور معمولی ضرورت کی چیزیں (مانگے بھی) نہیں دیتے۔ )

ان کی طبیعتوں کی خساست

ماعون کے متعدد معانی بیان کیے گئے ہیں، لیکن علماء تفسیر کی کثیر جماعت نے اس کا معنی روزمرہ استعمال کی چیزیں بتایا ہے، جو عام طور پر پڑوسی اپنے پڑوسی سے مانگ لیتا ہے۔ ایک ساتھ کام کرنے والے ایک دوسرے سے مانگ لیتے ہیں، اور اس میں امیروغریب کا بھی کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ کسی امیر گھر والے کو بھی کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کی بھی ضرورت پڑجاتی ہے، اور وہ اپنے ہم سائے سے مانگ لیتا ہے۔ مثلاً :دیاسلائی، ہنڈیا، ڈول، نمک مرچ، کلہاڑی، ترازو، اس طرح کی چیزیں جو ہر گھر کی ضرورت ہیں، لیکن بعض دفعہ امیر گھروں میں بھی اچانک ختم ہوجانے کی وجہ سے دوسرے سے مانگنے کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ ایسا کرنا کوئی شخص اپنے لیے عیب نہیں سمجھتا،اور جو شخص اس طرح کی معمولی چیز دینے سے بھی انکار کرے، معاشرے کی نظروں میں وہ کمینہ اور لئیم کہلاتا ہے۔
نماز کا اہتمام جس طرح آدمی کے تعلق کو اللہ تعالیٰ سے مضبوط کرتا ہے اسی طرح بندوں سے تعلق میں بھی استواری پیدا کرتا ہے۔ اشرافِ قریش جس طرح نماز کی حقیقت کو بھول چکے تھے، اسی طرح وہ انسانی رشتے کو بھی بھلا چکے تھے۔ کسی انسان کی مدد کرنا تو دور کی بات ہے، وہ معمولی سے معمولی چیز کو بھی مانگے سے بھی دینے سے گریز کرتے تھے۔ تو جس قوم کے بڑوں کی خساست کا یہ عالم ہو، اس قوم کی عام اخلاقی حالت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اور یہ سب کچھ نتیجہ ہے اس بات کا کہ وہ آخرت سے انکار کرچکے ہیں۔ جو بھی قوم آخرت سے انکار کرتی ہے اس میں اسی قسم کے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔
[اس درس کی تیاری میں تفہیم القرآن ، تدبر قرآن ، روح القرآن ، مفردات القرآن وغیرہ سےاستفادہ کیا گیا ہے۔]

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے