فروری ۲۰۲۴

جس طرح دنیا جدت کی راہ پر گامزن ہے، تو دورِ حاضر کی اس ترقی کے کچھ نقصانات بھی ہیں، جیسے کہ کتابوں سے دوری، کیوں کہ کتاب سے دوری تہذیب و تمدن اور مستند علم سے دور لے جاتی ہے۔
اس تیز رفتار زندگی نے ہمیں کتاب سے دور کیا، لیکن ابھی بھی کچھ لوگ باقی ہیں جو کتابوں سے جڑے ہیں اور اس اچھی روایت کی بقا کے ضامن ہیں۔
یہ کتاب بین الاقوامی نسائی ادبی تنظیم ’’ بنات ‘‘ کی پہلی پیش کش ہے۔’’بنات‘‘ کی عمر پانچ برس کی ہونے پر ’’یادوں کے جھروکے ‘‘پر مبنی بنات کی یہ پہلی کتاب منظر عام پر آئی، کتاب کا انتساب کچھ یوں لکھا ہے:
’’ ان خواتین کے نام، جنھوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنے قلم کو زندہ رکھا۔‘‘
پیش لفظ ڈاکٹر نگار عظیم صاحبہ( جو’’ بنات ‘‘کی صدر بھی ہیں اور اس ان مول کتاب کی مرتبہ بھی ہیں۔ ) جس میں ڈاکٹر نگار صاحبہ نے تفصیل سے ’’بنات‘‘ کاتعارف کروایا ہے ۔اس کے ساتھ اس سے جڑی عالمی شہرت یافتہ خواتین قلمکاروں کا ’’ بنات ‘‘ کے لیے جذباتی اظہار اور تاثرات کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔’’ بنات‘‘ کی تخلیق، خصوصیات، اس تنظیم کی ضرورت، بنات کی ادبی نشستوں کی تفصیل ،ادبی سرگرمیوں کا خلاصہ بڑے پرکشش الفاظ میں لکھا ہے، ڈاکٹر نگار عظیم صاحبہ پیش لفظ میں یوں لکھتی ہیں:
یہ ادبی پلیٹ فارم عالمی سطح پر ’’ بہناپا ‘‘ فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اردو زبان و ادب کے فروغ میں خواتین قلم کاروں کی خدمات کا اعتراف، نسائی فکر کی تلاش اس کی ترویج اور اس کی اشاعت اس تنظیم کا نصب العین ہے ادب برائے ادب ،ادب برائے تعمیر ،ادب برائے سماجی ارتقاء ، ادب برائے امن و آشتی ، ادب برائے انسانیت ، ادب برائے باہمی اتفاق ، ادب برائے قومی خیر سگالی اور ادب برائے زندگی کو فروغ دینا اس تنظیم کے اغراض و مقاصد ہیں ،جس کے حصول کے لیے تنظیم نے اپنا مکمل روڈ میپ تیار کیا ہے، اور اب تک تنظیم اسی پر عمل پیرا ہے خواتین قلم کار اپنی سوچ ،فکر اور اپنی تخلیقات کے حوالے سے ’’ بنات ‘‘ میں یک جا ہوکر ایک مثبت اور مربوط تنظیم کھڑی کرسکیں ،تاکہ آنے والی نسلیں اس سے استفادہ کریں یہی اس تنظیم کی روح ہے ۔‘‘
اس کے ساتھ ہی نگار عظیم صاحبہ نے بنات کے ایک واٹس ایپ گروپ سے بھی متعارف کروایا، اس گروپ میں سولہ اسٹیٹ کی ایک سو بیس خواتین ادیبائیں شامل ہیں۔ اس تنظیم کو عالمی شہرت یافتہ خواتین قلم کاروں کی سر پرستی بھی حاصل ہے۔ اردو اکیڈمی کشمیر اور مالیر کوٹلہ پنجاب اردو اکیڈمی سے بھی جڑا ہوا ہے۔
’’بنات‘‘ کے ایک ادبی ایونٹ ’’یادوں کے جھروکے‘‘جو واٹس ایپ گروپ سے شروع ہوا تھا، وہ ایک کتابی شکل میں وجود میں آیا۔ اس کتاب میں 48 ادیباؤں کی سچی آپ بیتیاں اور خود نوشتیں لکھی گئی ہیں ،نگار عظیم صاحبہ اس پر لکھتی ہیں:
’’یہ ’’یادوں کے جھروکے‘‘ بڑے منفرد ہیں۔ امید ہے اس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی۔ ان جھروکوں میں بہنوں نے اپنی زندگی کے بڑے ان مول،ان چھوئے ،بہت قیمتی ،خوشی اور غم کے ان احساسات کو شیئر کیا ہے،جو ان کے اندرون میں کہیں بستے تھے ۔ان کو پڑھ کر آپ کبھی مسکرائیں گے کبھی مغموم ہوں گے تو کبھی حیران، لیکن کبھی کبھی آپ کی پلکیں بھیگ جائیں گی ۔بس وہی پل ان یادوں جھروکوں کا حاصل ہوگا ۔‘‘
رفیعہ شبنم عابدی کی خود نوشت ’’ پروائیاں چلیں ‘‘ سے کتاب کی شروعات ہوئی ہے ۔اس کے بعد دھڑا دھڑ ایک سے بڑھ کر ایک رنگا رنگ یادیں طاقِ نسیاں سے نکل کر ہمارے سامنے آگئیں ۔محترمہ نعیمہ جعفری پاشا، محترمہ تسنیم کوثر صاحبہ ،محترمہ ذکیہ مشہدی ،محترمہ قمر جمالی صاحبہ ،محترمہ مسرور جہاں صاحبہ ،محترمہ عذرا نقوی صاحبہ، محترمہ فریدہ رحمت اللہ صاحبہ ، محترمہ قمر سرور صاحبہ اور اڑتالیس عالمی شہرت یافتہ بہنوں نے اپنی خود نوشت تخلیق کی ہے۔
زندگی کس قدر حسین ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اہم ترین نعمت ہے ۔اس مختصر زندگی میں خوشی ،غم، انبساط اور درد کی منزلیں ہیں ۔کہیں جبر و ظلم کی سوغاتیں بھی ہیں ،تو تجربات بھی راز بھی ہیں، اور رازدار بھی، لیکن عورت کہیں ہاری نہیں ،اس نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔ یہ نہ ہارنے والی عورت ہی کل ملا کر’’بنات‘‘ہے ۔زندگی میں کچھ حادثات ایسے ہوتے ہیں جو تقدیر میں لکھ دیئے جاتے ہیں، ان ہی حادثوں خوشی غموں کا درپن ہے’’ یادوں کے جھروکے۔‘‘
یوں تو کتاب میں ہر ایک کی خود نوشت قابلِ تحسین وتعریف ہے ،لیکن کچھ خاص پھول ہمیشہ منفرد ہی رہتے ہیں، جن کی خوشبو رنگ وبو سب سے جدا اور دل موہ لینے والی ہوتی ہے۔ یادوں کے جھروکے کتاب میں ’’ مٹی کی خوشبو ‘‘ نگار عظیم صاحبہ نے بڑے دل فریب انداز میں اپنی بچپن کی یادوں کو سنجویا ہے، ’’ پروائیاں چلیں‘‘رفیعہ شبنم عابدی صاحبہ، ’’ زندگی تیری عنایات ‘‘ قمر جمالی صاحبہ، ’’ پہنچی وہیں پہ خاک ‘‘ تسنیم کوثر صاحبہ، ’’ یادوں کی دستک ‘‘ فریدہ رحمت اللہ صاحبہ، ’’ یاد بولے تو‘‘ رفیعہ نوشین صاحبہ، ’’ اباجی کی چھڑی ‘‘قمر سرور صاحبہ اور نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ کا ’’ جنگل سفاری ‘‘ بے حد مزیدار رہا، جنگل کا سفر ان کے ساتھ بہت منفرد اور دلچسپ رہا۔ پڑھتے ہوئے احساس نہیں ہوتا کہ یادوں کے یہ سہانے جھروکے اپنے اختتام کو پہنچ گئے۔
منفرد اور دل چسپ شخصیات کی دل کش اور پرلطف آپ بیتیاں جس میں انھوں نے زندگی کے کئی سبق سیکھے زندگی کی مشکلوں کا سامنا ڈٹ کر کیا، ہر دکھ ہر تکلیف کو اپنا دوست بنا کر کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتی گئی، پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ کیا کچھ گزر چکا ہے، اور آج بھی نئی منزلوں کی تلاش میں آج بھی سرگرداں ہیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Naseem Sultana

    Assalamalikum wr wb bahut accha laga bahut din k bad urdu magazine dekhne aur padhne ka mauqa Mila masha allah

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے