فروری ۲۰۲۴

عالمی منظرنامہ

صنف نازک کی صدائے آہن

ایسے وقت میں جب کہ فلسطینی مظلومین پر ہونے والے مظالم کے خلاف حقوق انسانی کا راگ الاپنے اور انسانیت کی دہائی دینے والوں کی زبان پر کہیں خوف کا تالا پڑا ہوا ہے تو کہیں آنکھوں پر بے حسی کی پٹی بندھی ہے،ڈاکٹر مریم فرانسوا کی جانب سے بلند کی جانے والی آواز کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
گذشتہ دنوں اسکائی نیوز کے پروگرام ’’دی ورلڈ ود یلدا حکیم‘‘ میں حوثیوں کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے اور ان کی جانب سے بحیرۂ احمر سے گزرنے والے متعدد بحری جہازوں پر ہونے والے حملوں سے متعلق گفتگو ہو رہی تھی۔چوں کہ بحیرۂ احمر کا یہ حصہ عالمی معیشت کےلیےبڑی اہمیت رکھتا ہے،اس لیے حوثیوں کے اس اقدام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے صحافی اور فلم میکر ڈاکٹر مریم فرانسوا نے نہایت دوٹوک لہجے میں کہا کہ ایسے وقت میں تجارت و معیشت کے بارے میں ہم سوچ بھی کیسے سکتے ہیں جب کہ غزہ میں بمباری سے زخمی ہونے والے بچوں کا آپریشن انھیں بےہوش کیے بغیر کرنا پڑ رہا ہے؟
پروگرام کی میزبان یلدا حکیم کے یہ کہنے پر کہ بعض لوگ یہ بات کررہے تھے کہ بائیڈن کو حوثیوں کے خلاف پہلے ہی ایکشن لینا چاہیے تھا،کیوں کہ انھوں نے بحیرۂ احمر کے ایک حصے یرغمال بنا رکھا ہے،جس کی وجہ سے اربوں ڈالر خطرے کی زد میں ہیں۔
ڈاکٹر فرانسوا نے جواب دیا کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک پر بمباری کی جارہی ہے،وہاں قحط سالی ہے،اس کا چاروں طرف سے محاصرہ کیا جا چکا ہے،اور ہم ان کی حمایت کرنے والے (حوثیوں) پر بم باری کر رہے ہیں۔کم آن! یہ سوچنا بھی کیسی حماقت ہے کہ ہمارے ایمازون پیکج تاخیر کے شکار ہو رہے ہیں،لیکن غزہ کے مقتولیں کے متعلق کوئی نہیں سوچ رہا، حالاں کہ غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے نسل کشی۔
ان کے علاوہ بھی ڈاکٹر فرانسوا نے متعدد باتیں نہایت جرأت مندانہ لہجے میں کہیں،تب سے ان کی گفتگو کی ویڈیوز ٹک ٹاک سمیت مختلف سوشل میڈیا ایپس اور پلیٹ فارمز پر وائرل ہیں۔ڈاکٹر فرانسوا نے نائن الیون کے بعد اسلام کو جاننا چاہا اور نتیجۃً 2003ء میں انھوں اسلام قبول کر لیا۔ڈاکٹر فرانسوا کی جانب سے غزہ کے مظلومین کےلیے بلند ہونے والی یہ صدائے احتجاج کہیں نہ کہیں ہمیں اس کی یاد دہانی ضرور کروا رہی ہے کہ جدی و پشتینی مسلمانوں کی جانب سےاپنے فرض منصبی کی ادائیگی میںجب جب بھی کوتاہی ہوگی،خدائے متعال تب تب صنم خانوں سے کعبے کے پاسبانی کے انتظامات کرتا رہےگا۔

فرق تو پڑتا ہے

فلسطین پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کے بعد جب اسرائیلی کمپنیز یا ان ملٹی نیشنل کمپنیز کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلی،جن کے ساتھ اسرائیل کا اشتراک تھا،تو خود اپنوں میں ہی جانے کتنے تھے جو اس اقدام پر پھبتیاں کس رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ایسے چھوٹے موٹے بائیکاٹس کا یہ ’’بڑی بڑی‘‘ کمپنیز نہ ہی نوٹس لیتی ہیں نہ ہی انھیں اس اس سے کوئی فرق پڑنے والا ہے۔لیکن جذبۂ اخوت سے سرشار دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس نام نہاد ’’روشن خیال‘‘ طبقے کی باتوں پر کان نہیں دھرا،اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان بستے ہیں،انھوں نے اپنی بساط بھر کوشش کی کہ اسرائیل کو معاشی زک پہنچانے والی اس مہم کو کام یاب بنایا جائے۔
پھر نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا میں چالیس ہزار سے زائد ملکیتی اسٹور رکھنے والے معروف فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈ کو بالآخر یہ اعتراف کرنا پڑا کہ اسرائیل غزہ کے تناظر میں کیے جانے والے بائیکاٹ سے ان کے کاروبار پر ’’معنی خیز‘‘ اثر پڑا ہے۔گوکہ چالاکی کے ساتھ محض ایک مجمل لفظ کے ذریعہ اعداد و شمار کو مکمل طور چھپا لینے کی کوشش کی گئی،لیکن رفتار زمانہ پر نگاہ رکھنے والی دیدہ ہائے بینا اس سے واقف ہیں کہ یہ نقصان کس بڑے پیمانے پر ہوا ہوگا کہ میکڈونلڈ کے چیف ایکزکیوٹو کرس کیمپزنسکی کو اپنے لنکڈ اِن پوسٹ میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ مشرق وسطیٰ سمیت مختلف خطوں میں میکڈونلڈ جیسے برانڈ متاثر ہیں،اور انھیں ’’معنی خیز‘‘ کاروباری اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کیمپزنسکی نے اس بائیکاٹ کی بنیاد یوں تو غلط فہمیوں کو بتایا،لیکن میکڈونلڈ اسرائیل کے ذریعہ ہزاروں اسرائیلی فوجیوں تک کھانے کے ڈبے مفت پہنچائے جانے پر کسی طرح کی کوئی بات نہیں کی۔
میکڈونلڈ کے اس وضاحتی بیان سے کم از کم یہ تو صاف ہو گیا کہ نام نہاد ’’انٹلکچول‘‘طبقہ خواہ کچھ بھی کہہ لے،لیکن سچ یہی ہے کہ دنیا بھر کے ’’کم زور‘‘ مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جانے والی بائیکاٹ مہم سے ان ’’بڑی بڑی‘‘ کمپنیز کو بھی فرق پڑتا ہے،اور یقیناً پڑتا ہے۔

ملکی منظرنامہ

بے روزگار ووٹرز

ملک میں نوجوانوں کو ملنے والی نوکریوں اور ان کے روزگار کے تعلق سے سیاسی لیڈران خواہ کچھ بھی کہہ رہے ہوں،برسراقتدار پارٹی کے مکھیا اور ان کے حاشیہ بردار چاہے جتنے بھی بلند بانگ دعوے کر رہے ہوں،مگر زمینی حقائق آج بھی بڑی حد تک مایوس کن ہیں۔انتخابی ریلیوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذمہ داران اور مختلف ٹی وی ڈبیٹس میں اس کے ترجمان بار بار یہ دہراتے رہتے ہیں کہ ہماری حکومت میں ملک کی جی ڈی پی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے،اور نوجوانوں کو کروڑوں کی تعداد میں نوکریاں دی گئی ہیں،اور دی جا رہی ہیں،لیکن حقیقی صورت حال اس کےبالکل ہی بر عکس اور مختلف ہے۔
نوجوانوں کے بے روزگاری اور اس کی وجہ سے در آنے والی کسمپرسی کا منظر ہریانہ میں دیکھنے میں آ رہا ہے،جہاں اسرائیل جیسے جنگ زدہ ملک میں بھی ویلڈر،میکنک،اسٹیل فکسر اور تعمیرات میں مزدور کے طورپرچھوٹے موٹے کام کرنے اور سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی وہاں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر جانے اور رہنےکےلیے ہزاروں لوگ نہ صرف تیار ہیں،بلکہ اس کےلیے گھنٹوں قطار میں کھڑے ہو کر اپنا انٹرویو دے رہے ہیں،اور منظوری پانے کے انتظار میں ہیں۔
یہ افسوس ناک اور یاس انگیزتصویر اس ریاست کی ہے،جہاں برسراقتدار پارٹی کے مطابق ڈبل انجن کی سرکار ہے،یعنی مرکز اور ریاست دونوں ہی جگہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت میں ہے۔ان نوجوانوں میں بیش تر وہی نوجوان بھی ہیں ،جنھوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو لوک سبھا اور ودھان سبھا انتخابات میں نہ صرف ووٹ کیا بلکہ سوشل میڈیا سمیت مختلف ریلیوں اور جلوسوں میں پارٹی کے انتہا پسند رخ کو سراہنے کے ساتھ ساتھ جا بجا مودی مودی کے نعرے لگائے،ان کے جھنڈے ڈھوئے۔ہر طرح کی مسلم مخالف سرگرمیوں میں انھیں استعمال کیا گیا اور انتخابی ہتھکنڈوں پر عمل درآمد کرنے کےلیے انھیں مہرہ بنایا گیا،مگر اب جب کہ انتخابات ختم ہوچکے، ان کی ضرورت نہیں رہی،سو ان سے دامن چھڑا لیا گیا۔
نہیں معلوم اب بھی نوجوانوں کو اس کا احساس ہے یا نہیں کہ مندر مسجد کے مسائل پر انتخابی میدان میں اترنے والوں کے بجائے بنیادی مسائل پر توجہ دینے اور اس کے حل کےلیے کوشاں جماعتوں کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔ویسے اب بھی اگر ان کی آنکھیں کھل جائیں تو بہت دیر نہیں ہوئی ہے۔

کچھ روشنی باقی تو ہے،ہرچند کہ کم ہے

جب قانون اور عدالتیں ہی حکومتوں کے اشارے پر فیصلے صادر کرنے لگیں،اور مجرموں کی پشت پناہی انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی جانب سے ہی ہونے لگے،تو ایسے میں جرائم کا خاتمہ،ان کا سد باب اور ان پر قد غن لگنا دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔2002ء میں ہونے والے گجرات فسادات میں دنگائیوں کے ستم کا ہدف بننے والی بلقیس بانو گذشتہ دو دہائیوں سے انصاف کی راہ دیکھ رہی ہے۔زنا بالجبر کی شکار بننے والی پانچ ماہ کی حاملہ بلقیس بانو کسی طرح زندہ تو رہ گئی لیکن عدالتوں کی جانب سے ہونے والی ناانصافیاں اسے لمحہ بہ لمحہ اذیت ناک موت سے دو چار کر رہی ہیں۔بلقیس بانو کے ساتھ زنا بالجر کرنے اور اس کے کنبے کے سات افراد کو قتل کرنے والے گیارہ مجرمین کو ہائی کورٹ کی جانب سے پچھلے برس رہا کر دیا گیا تھا،جس سے ملک ہی نہیں دنیا بھر کے انصاف پسند حلقوں میں بڑی تشویش پیدا ہوئی تھی،اور اس کےخلاف آوازیں بھی اٹھی تھیں۔
اب ملک کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے تھوڑی راحت ملی ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ عمر قید کی سزا پانے والے ان سزا یافتہ مجرموں کو رہا کرنے کا اختیار گجرات ہائی کورٹ کو حاصل نہیں ہے۔
اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی بی وی ناگ رتنا اور اجول بھین کی بنچ نے ان تمام 11مجرمین کو 22 جنوری تک سرینڈر کرنے کا حکم جاری کیا تھا،لیکن مجرمین کی جانب سے اس مدت میں توسیع کی اپیل کی گئی تھی،جسے سپریم کورٹ نے خارج کر دیا۔
بلقیس بانو ریپ کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے کی جانے والی اس پیش قدمی اور لیے جانے والے ایکشن سے کسی درجے میں ہی سہی،ایک امید سی بندھ چلی ہے کہ متاثرہ کو انصاف ملےگا،اور اس کے گنہ گار کیفرکردار تک پہنچائے جائیں گے۔ملک کا انصاف پسند حلقہ بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کی مبنی بر انصاف توقعات پوری ہوں،اور عدلیہ بغیر کسی حکومتی و بیرونی دباؤ کے اپنے فرض منصبی کو پورا کرے،تاکہ جمہوریت کے اس ستون پر پھر سے مظلومین کا اعتماد بحال ہو سکے اور قانون کا خوف ایسے گھناؤنے جرائم کے ارتکاب کی راہ روک سکیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے