فروری ۲۰۲۴

حجاب یا پردہ ایک دینی اصطلاح ہے، اس کا معنی و مفہوم دراصل خواتین کے بدن کے بعض حصوں کو چھپانا ہے۔ حجاب کے لغوی معنی ’’مانع‘‘ کے ہیں، یعنی دو چیزوں کے درمیان جدائی یا رکاوٹ ڈالنے والی چیز۔فقہی اصطلاح میں حجاب کا لفظ خواتین کے شرعی پردے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلام سے پہلے کی اقوام میں تقریبا ًسبھی قوموں میں خواتین کے لیے پردہ رائج تھا ۔تاریخ میں بھی اس کی روایت ملتی ہے کہ انسان کی فطرت میں شروع سے یہ چیز رہی ہے کہ وہ اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپانے یا ڈھکنے کا اہتمام و انتظام کرے ۔ ابتدا میں تو پیڑوں کے پتوں اور ٹہنیوں سے کام لیا گیا اور بعد میں جب لباس اتارا گیا یا ایجاد ہوا تو انسان اس کے ذریعے جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپانے لگا اور موسم سے بچنے کا ذریعہ بھی یہ لباس بنا۔تو اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تمام مذاہب میں عورتوں کا پردہ رہا ہے، ہندو مذہب کے ماننے والوں میں بھی گھونگھٹ کا رواج عام تھا ،عیسائی اور یہودی خواتین کے سر کے بال چھپانے کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ آرتھوڈکس یہودیوں کا ایک گروہ بھی یہی خیال رکھتا ہے کہ خواتین کے سر کے بال ڈھکے جائیں، اسی طرح عیسائیوں میں راہبہ خواتین سر کے بال اور پورے جسم کو ڈھانکتی ہیں، اس طرح آج کل کچھ مذہبی تنظیموں کی خواتین برہماکماری وغیرہ بھی جسم کو ڈھک کر رکھتی ہیں، سفید کپڑے پہنتی ہیں ،کسی طرح کی زیب و زینت ان کے لیے ممنوع قرار دی جاتی ہے، اگرچہ یہ سب ایک انتہا درجے کی شدت ہے جس کے ذریعے خواتین کو باندھ دیا جاتا ہے اور زندگی میں دوسری لذتوں سے کنارہ کش ہونے کی بات کہی جاتی ہے، لیکن اسلام میں جس حجاب اور پردے کا تصور ہے وہ نہایت اہم ہے، اسی کے پیش نظر یہ لفظ قرآن مجید میں سات مرتبہ آیا ہے،جو اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔
اسلام نے مسلم خواتین کو جہاں تمام حقوق دیے وہیں انھیںایک صالح اور پاکیزہ معاشرے کی تعمیر میں حصہ دار بھی بنایا۔ اس صالح معاشرے کی تعمیر میں عورت اور مرد کے اختلاط میں احتیاط کے طور پر خواتین کو گھر سے باہر نکلنے کی آزادی کو متاثر کیے بغیر گھر سے باہر اور گھر کے اندر کسی اجنبی سے سامنا ہو،کسی دور نزدیک کے رشتہ دار اور پڑوسی سے معاملات پیش آئیں تو اس وقت اور زندگی کے تمام مراحل میں اٹھنے بیٹھنے ،سونے جاگنے، خلوت اور جلوت کے طور طریقے سکھائے گئےہیں۔
قرآن میں مسلمان مردوں کو سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے سامنے جانے سے منع کیا اور فرمایاکہ جب تمھیں نبیﷺ کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ یہاں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ احکام اس دور کے ہیں جب کہ دنیا کی جو حالت زارتھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی، اس کی تصویر نہایت خراب تھی ،ہر طرح کی برائی عام تھی، اس میں عورتوں کی تصویر بڑی ہی بھیانک تھی۔ اسے گناہ کی پوٹلی، کم عقل، بے وقوف ،ایسی شے جس میں روح نہ ہو وغیرہ وغیرہ ناموں سے جانا جاتا تھا ۔جوئے اور سٹے میں اسے داؤں پر لگایا جاتا، خریدا اور بیچا بھی جاتا تھا ،حتیٰ کہ عزت دار لوگ بیٹی کی پیدائش کو باعثِ ننگ وعار سمجھتے ،جس کا قران نے ذکر کیا :
’’انھیں جب بیٹی کی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی تو ان کے چہرے پر کلونس چھا جاتی اور وہ اس ذلت کو کہاں چھپائے ؟اس سے پریشان ہو جاتا۔‘‘
اس بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عورتوں کو کس قدر تنگ نظری سے دیکھا جاتا ۔چنانچہ اسے اس پستی سےکس نے نکالا؟ اور پھر انھیں مقام بلند کس نے عطا کیا؟ یہ اعزاز صرف اسلام کے حصّے میں آیا ۔ اس سلسلے میں سورۂاحزاب کی آیت نمبر 59 میں فرمایا :

يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ يُّعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞

(اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ،یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ،اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔)
یہاں’’ جلباب‘‘ کا لفظ جو استعمال ہوا، اس کے مفسرین نے مختلف معانی بیان کیے ہیں،’’جلباب‘‘گویا ایک ایسا لباس جو سر سے پاؤں تک ڈھانپنے والا ہو، خواہ وہ بڑی چادر ہو یا کچھ سلا ہوا کپڑا یا وہ ڈھیلا لباس جو کپڑوں کے اوپر سے پہنا جاتا ہے اور پیروں تک ہو، اس لباس کو شرافت کا وقار کا لباس قرار دیا اور کہا کہ اس کو پہن کر وہ باہر نکلیں گی تو پہچان لی جائیں گی، یہ ایک مومنہ صالحہ اور باعزت خاتون کے لیے ضروری ہے اور پھر وہ نہ ستائی جائیں گی نہ کوئی انھیں اذیت دے سکے گا۔ یعنی اسلام نے گھر کے باہر عورت کی حفاظت کی مثال قائم کی اور انھیں بتایا کہ وہ گھر سے باہر نکلیں تو اپنے آپ کو کس طرح پیش کریں اور کس طرح اپنے لباس کو زیب تن کریں؟
قرآن کریم میں سورۂ نور، آیت نمبر30 اور 31 میں پردہ کےاحکام بڑی تفصیل سے آئےہیں،فرمایا :

قُلْ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَغُـضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِهِمۡ وَيَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَهُمۡ‌ ؕ ذٰ لِكَ اَزۡكٰى لَهُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا يَصۡنَـعُوۡنَ ۞

(اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے۔)

وَقُلْ لِّـلۡمُؤۡمِنٰتِ يَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِهِنَّ وَيَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَهُنَّ وَلَا يُبۡدِيۡنَ زِيۡنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَا‌ وَلۡيَـضۡرِبۡنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوۡبِهِنَّ‌ۖ وَلَا يُبۡدِيۡنَ زِيۡنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اٰبَآئِهِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِهِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِهِنَّ اَوۡ بَنِىۡۤ اِخۡوَانِهِنَّ اَوۡ بَنِىۡۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوۡ نِسَآئِهِنَّ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيۡنَ غَيۡرِ اُولِى الۡاِرۡبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِيۡنَ لَمۡ يَظۡهَرُوۡا عَلٰى عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ‌ۖ وَلَا يَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِهِنَّ لِيُـعۡلَمَ مَا يُخۡفِيۡنَ مِنۡ زِيۡنَتِهِنَّ‌ ؕ وَتُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِيۡعًا اَيُّهَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞

(اور اے نبیؐ !مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناوٴ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا ے بناوٴ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے : شوہر، باپ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے ، بھائی ، بھائیوں کے بیٹے ، بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتیں ، اپنے مملوک ، وہ زیرِ دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاوٴں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو! تم سب مِل کر اللہ سے توبہ کرو ، توقع ہے کہ فلاح پاوٴ گے۔‘‘
ان احکام کو پڑھنے کے بعد کوئی عقل مند اور سمجھ دار خاتون یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ پردہ یا حجاب ہمارے لیے ضروری نہیں ہے؟ یہاں مردوں کو بھی غض بصر کا حکم دیا اور عورتوں کو بھی دونوں کو نگاہوں کی حفاظت کرنےکی بات کہی گئی اور نگاہوں کے چکر سے دور رہ کر تمام فعل بدکاری اور خرابی سے محفوظ رکھا گیا۔ پھر عفت اور عصمت کی محافظت کی بات آتی ہے اور آگے ایک قدم بڑھا کر خواتین کے لیے زینت کو ظاہر نہ کرنا، سوائے اس کے کہ جو خود بخود ظاہر ہو جائے یعنی وہ زینت جو چھپ نہیں سکتی، مثلا ًانسان کا قد اس کے ہاتھ پیر، اس کی آواز ،اسے بھی ایک مقام پر روکا کہ دبی اور سریلی آواز میں بات نہ کی جائے کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص کچھ اور سمجھ بیٹھے ۔یہی نہیں آگے یہ بھی بتایا کہ خواتین اپنے دوپٹوں کو اپنے اوپر کس طرح ڈالیں اوڑھنیوں کو اپنے سینوں پر کس طرح لپیٹیں اور اپنی زینت کو کس طرح چھپائیں ؟بھلا اس سے صاف اور صریح الفاظ میں زینت کو چھپانے کے احکام اور کیا ہو سکتے ہیں؟ پھر آگے چل کر بتایا کہ ہمارے لیے محرم کون ہے؟ شوہر ،باپ، شوہروں کے باپ ،بیٹے ،سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے اپنی عورتیں اپنے غلام وہ مرد خدمت گار جو عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے یا وہ لڑکے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہیں ہوئے۔ اب یہاں ٹھہر کر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بچوں میں جو ہوشیار ہو گئے وہ بھی خواتین کے راز و نیاز کی اندرونی باتیں نہ سنیں ،ان سے بھی پردہ ہے۔اس میں عزیز و اقارب، ان کے بچے جو بڑے ہو رہے ہیں وہ بھی، اور آج کل ہمارے گھروں کے بچے جو کہ بہت جلد بالغ بھی ہو جاتے ہیں اور تمام باتوں کو سمجھنے لگتےہیں،ان سے بھی احتیاط رکھنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ دور تو اوربھی فتنوں کا دروازہ کھولے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اور نئی عمر کی آنے والی تمام نسلوں کے لیے دعوت نظارہ لیے ہوئے ہے ،اس سے بچنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے ۔لہٰذا، اس حجاب کے موضوع کو بہت ہی سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے، یہاں ان آیات میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ پیروں کو زمین پر مارتی نہ چلیں کہ جو زینت چھپا رکھی ہے وہ ظاہر ہو جائے، مثلاً: زیورات کے ذریعے ہونے والی آوازیں ،یہ آواز کسی کو سنائی نہ دے، اس کا خیال رکھنا چاہیے۔اسی طرح خوشبو لگانے کو بھی منع کیا۔اس سلسلے میں آپ ﷺ کی احادیث اس طرح ہیں:
’’ نبیﷺ نے فرمایا کہ جو عورت عطرلگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے، وہ آوارہ قسم کی ہے ۔‘‘
دوسری حدیث میں صاف صاف الفاظ اس طرح ہیں :
’’جب تم میں سے کوئی عورت مسجد کی طرف جائے تو خوشبو نہ لگائے۔‘‘
مردوں کے لیے وہ عطر مناسب ہے جس کی خوشبو نمایاں اور رنگ چھپا ہوا ہو، خواتین کے لیے وہ خوشبو مناسب ہے جس کی خوشبو مخفی اور رنگ نمایاں ہو۔ اسی طرح ستر کے سلسلے میں بھی اسلام نے شرم و حیا اور ستر پوشی کی صحیح اور مکمل رہنمائی فرمائی اور اس پر خاص توجہ دی۔
آج دنیا کی مہذب ترین قوموں میں لباس کے ذریعے سترپوشی کا کوئی تصور نہیں ہے، لباس صرف زینت کا حصہ ہے، لیکن اسلام کی نگاہ میں لباس سترپوشی کا ذریعہ بھی ہے اور زینت بھی، اس کے برعکس عریانیت کو اسلام نے کسی طرح پسند نہیں کیا ،حتیٰ کہ تنہائی میں بھی برہنگی کو پسند نہیں کیا۔
فرمایا آپﷺ نے:
’’خبردار! کبھی برہنہ نہ رہو، کیوں کہ تمھارے ساتھ خدا کے فرشتے لگے ہوئے ہیں، جو تم سے جدا نہیں ہوتے ،بجز ان اوقات کے جن میں تم رفع حاجت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو، لہٰذا تم ان سے شرم کرو اور ان کی عزت کا لحاظ رکھو ۔‘‘
اس طرح لباس یا کپڑے پہن کر ننگی رہنے والی عورتوں کو بھی ملامت کی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ جو عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی رہیں اور دوسروں کو رجھائیں اوروہ خود بھی ریجھیں اور بُختی اونٹ کی طرح ناز سے گردن ٹیڑھی کر کے چلیں ،وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی بو پا سکیں گی۔‘‘
اس طرح کی تعلیمات قرآن و حدیث میں آنے کے بعد ہم تصور کر سکتے ہیں کہ حجاب کا اصل معنی اور مفہوم کیا ہے؟ وہ کون سا پردہ ہے جو خواتین اسلام کو رائج کرنے کی ضرورت ہے؟ جس سے ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے اور ہمارے ان قلعوں کے تمام چور دروازوں کو بند کر دیا جہاں سے فحاشی و عریانیت ،بے حیائی و بے پردگی اور برہنگی کی بو بھی آتی ہو۔
اسلام میں حجاب کی جو تصویر سامنے آتی ہے، اس کا مقصود معاشرے کو پاکیزہ بنانا ہے ،خصوصاً آج کے اس ماڈرن دور میں جہاں باپردہ خواتین یا برقع پوش خواتین کی خاصی تعداد نظر تو اتی ہے، لیکن اس میں ستر پوشی اور زینت کو چھپانے کا رجحان ،اظہار زینت سے اجتناب نظر نہیں آتا ،آج کل کی شادیوں اور پارٹیز وغیرہ میں خواتین کا تڑک بھڑک لباس اور برقعوں کے ساتھ حاضر ہونا اس بات کا غماز ہے کہ انھیں پردے کی اہمیت معلوم ہی نہیں۔ کہیں تو اس قدر تنگ برقعے ہوتے ہیں اور اوپر کی اوڑھنی اتنی مختصر کہ سر اور کندھا ڈھکنا بھی مشکل ہوتا ہے، سینوں تک دوپٹے کا کور کرنا مشکل ہوتا ہے، اسی طرح میک اپ اور زینت کا مکمل اظہار برقعے کے باوجودہوتارہتا ہے۔ پھر گھروں میں بھی لباس کا خیال نہیں رہتا، رشتہ داروں کے سامنے زینت کا اظہار محرم اور نامحرم کی تفریق کا خیال نہ رکھنا ،یہ تمام چیزیں لمحۂ فکریہ ہیں اور اب ایک قدم اور آگےبڑھ کرمغربی لباس (Western cloth)کی مارکیٹ میں بھرمار ہو چکی ہے، اس میں باقاعدہ مختصر اور اونچے کپڑوں (shorts )کی بڑی کثرت ہے۔ یہ اب ہمارے گھروں میں داخل ہوتی جا رہی ہے، جس کو دیکھتے ہوئے حجاب کے احکام اور اس کی باریکیوں پر ہماری خواتین کو نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
حجاب کے شرعی حدود اور تقاضے کیا ہیں ؟ان پر غور فکر کرنے اور ان پر ڈسکشن کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ایک پاکیزہ حیادار معاشرہ قرآنی تعلیمات اور احادیث کی روشنی میں تیار ہو اور سماج میں حیا اور شرم کا ماحول فروغ پائے اور پھر دوستی کے نام پر کسی خاص ڈے کے نام پر لڑکے اور لڑکیوں کا ملاپ اور نامحرم سے جلوت یا خلوت میں بے پردگی کے عالم میں ملنے جلنے کا ماحول پارٹیوں میں ،آفسز میں ہماری نوجوان بچیوں کا لباس ان تمام پر کنٹرول ہو سکے‌۔معاشرے میں پردے کے حدود قائم کرنے کا رجحان بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہےاور یہ شعوربھی بیدار کرنے کی حاجت ہے کہ جہاں اسلام نے ضرورت کے وقت خواتین کو تعلیم کے حصول، معاش و دیگر ضروریات ،مثلاًخرید و فروخت کے لیے باہر نکلنے کی آزادی دی ہے، وہیں یہ بھی بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی طرح سج دھج دکھاتی نہ پھرو ۔‘‘
کاش ایسا کوئی صالح اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے، جہاں اسلام کے قائم کردہ حدود کے اندر شرعی پردے اور حجاب کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے اور اس وقت خواتین کو اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کی طرف متوجہ کیا جاسکے۔

٭ ٭ ٭


 اب یہاں ٹھہر کر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بچوں میں جو ہوشیار ہو گئے وہ بھی خواتین کے راز و نیاز کی اندرونی باتیں نہ سنیں ،ان سے بھی پردہ ہے۔اس میں عزیز و اقارب، ان کے بچے جو بڑے ہو رہے ہیں وہ بھی، اور آج کل ہمارے گھروں کے بچے جو کہ بہت جلد بالغ بھی ہو جاتے ہیں اور تمام باتوں کو سمجھنے لگتےہیں،ان سے بھی احتیاط رکھنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ دور تو اوربھی فتنوں کا دروازہ کھولے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اور نئی عمر کی آنے والی تمام نسلوں کے لیے دعوت نظارہ لیے ہوئے ہے ،اس سے بچنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے ۔لہٰذا، اس حجاب کے موضوع کو بہت ہی سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے، یہاں ان آیات میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ پیروں کو زمین پر مارتی نہ چلیں کہ جو زینت چھپا رکھی ہے وہ ظاہر ہو جائے، مثلاً: زیورات کے ذریعے ہونے والی آوازیں ،یہ آواز کسی کو سنائی نہ دے، اس کا خیال رکھنا چاہیے۔اسی طرح خوشبو لگانے کو بھی منع کیا۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Fehmeeda Qureshi

    Bar waqt is behtareen article ke zariye yad dahani ke liye boht shukriya, jazakillah

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے