جس طرح ہماری دنیا وجود میں آئی ،ٹھیک اسی طرح اس سے جڑی کئی ساری حقیقتیں بھی وجود میں آئیں۔ اگر آپ کے سامنے سورج کا نام لیا جائے تو اس کی گرم شعاعوں کا خیال ضرور آئے گا، سمندر کے ساتھ اس کی موجوں کا، شیر کے ساتھ اس کے درندے ہونے کا اور ایک ماں کے ساتھ اس کی اولاد سے بے پناہ محبت کا، اور یہ خیال اتنا یقینی ہوتا ہے کہ اس کے برعکس آپ کا دماغ سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس حقیقت کے برعکس جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو وہ نہ صرف آس پاس کے لوگوں کو چونکا دیتا ہے، بلکہ ان کے ذہنوں میں ایک گہرا اثر بھی ڈالتا ہے۔ 8 جنوری کو ایک ایسا ہی حادثہ گوا میں پیش آیا۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے ایک 39 سالہ خاتون سی ای او کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ خاتون کی شناخت سوچنا سیٹھ کے طور پر کی گئی ہے، جو کہ اے آئی (مصنوعی ذہانت) کے اسٹارٹ اپ مائنڈفل اے آئی لیب کی سی ای او ہے۔ انھیں پیر کو کرناٹک کے چترا درگہ میں ایک بیگ میں بیٹے کی لاش سمیت گرفتار کیا گیاہے۔ سوچنا سیٹھ نے بیگ میں رکھی لاش کو کرناٹک لے جانے کے لیے ٹیکسی کرایہ پر لی تھی۔یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب خاتون نے کمرے سے باہر چیک آؤٹ کیا تو صفائی کے عملے کو خون کے دھبے نظر آئے۔ 8 جنوری کی صبح سوچنا سیٹھ اپنا بیگ لے کر واپس جانے کے لیے کمرے سے نکلی تھی تو اس میں خون کے دھبے پائے گئے۔
عملے نے بتایا کہ انھوں نے پولیس کو اطلاع دی، جس کے بعد ٹیکسی ڈرائیور کو بلایا گیا۔ سوچنا سے بات کرنے کے بعد اس نے پولیس کو بتایا کہ اس کا بیٹا ایک دوست کے پاس ہے اور دیا گیا اور پتہ بھی بتایا جو کہ جعلی نکلا۔ جس کے بعد پولیس نے دوبارہ ڈرائیور کو بلایا اور ڈرائیور سے کہا کہ وہ کار کو قریبی تھانے لے جائے۔ ڈرائیور اسے چتردرگا کے پولیس اسٹیشن لے گیا (یعنی بنگلورو سے تقریباً 200 کیلومیٹر دور)۔ چتردرگا پولیس نے خاتون کو گرفتار کر لیا۔ فی الحال خاتون کو پوچھ گچھ کے لیے گوا لے جایا گیا۔
افسر نے بتایا کہ خاتون نے اپنی بائیں کلائی کو تیز دھاردار چیز سے کاٹ کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔افسر نے کہا کہ قتل کی وجہ فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکی، لیکن سیٹھ نے پولیس کو بتایا کہ وہ اور اس کے شوہر الگ ہوگئے ہیں اور ان کی طلاق کی کارروائی جاری ہے۔
جہاں یہ حادثہ ذہنوں میں ہلچل مچا دیتا ہے وہیں ایک اور خبر بھی ہے، جو آپ کے دماغ کو گہری سوچ میں ڈالتا ہے ۔گورنمنٹ سوشل ویلفیئر ہاسٹل میں زیر تعلیم نہم ( 9)جماعت طالبہ کی ڈیلیوری کا معاملہ ہے ۔ 8 ماہ کی حاملہ بچی نے اسپتال میں بچے کو جنم دیا۔ اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد حکام نے ہاسٹل وارڈن کو معطل کر دیا۔ پولیس نے پوکسو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
یہ واقعہ کرناٹک کے چکبالاپور میں پیش آیا۔تفصیلات کے مطابق لڑکی نے ایک سال قبل ہاسٹل جوائن کیا تھا ،جب وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ لڑکی کا 10 ویں جماعت کے لڑکے سے تعلقات تھے۔ دونوں ایک ہی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ لڑکا دسویں جماعت کے بعد ٹی سی لے کر بنگلور چلا گیا، تاہم پولیس کی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ لڑکی کچھ عرصے سے باقاعدگی سے کلاسوں میں نہیں جا رہی تھی اور اکثر اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتی تھی۔
20 سال سے کم عمر میں حمل جسے ’’نو عمری میں حمل‘‘کہتے ہیں، نہ صرف ہندوستان اور دیگر غریب ممالک بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی تشویش کا باعث ہے۔ اس سے حاملہ کے ساتھ بچے کی صحت، مستقبل اور ساتھ ساتھ کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کم علمی، معاشی بدحالی اور پچھڑے علاقوں میں رہنے والی نو عمر لڑکیاں جن کی قبل از وقت شادی کروا دی جاتی ہے، نو عمری میں حمل کے خصوصی وجوہات ہیں۔ 2019ءکے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق Low and middle income والے ملکوں میں 15 سے 19 سال کی لگ بھگ 21 ملین لڑکیاں حاملہ ہوئیں ،جس میں سے 50 فی صد غیر ارادی طور پر ہوئیں اور اس کے نتیجے میں 12 ملین نو زائیدہ بچوں کی پیدائش ہوئی ہے۔ Adolescent Birth Rate کے مطابق 2023 ءمیں 1000 لڑکیوں میں 41.3 فی صد ہے۔
اگر گوا کیس کی بات کی جائے تو وہاں ایک ماں کے ذریعے اتنا سنگین جرم ہونے کے پیچھے بھی کئی وجوہات دیکھی جا سکتی ہیں، مثلاً ایک غیر خوش گوار ازدواجی زندگی پھر علیحدگی اور ان سب سے متاثر ذہنی حالت…
بہرحال، یہ سب وجوہات اس کے جرم کو صحیح ثابت نہیں کر سکتیں، لیکن ایک اہم رول ضرور ادا کرتی ہیں، جس سے ایک تعلیم یافتہ خاتون انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ان دونوں ہی واقعات میں ایک وجہ بہت ملتی جلتی ہے ’’مذہب سے دوری‘‘۔ سوچنا سیٹھ کیس میں اگر وہ اپنے مذہب سے قریب ہوتی تو خود پر اور اس کے خیالات پر قابو پانا آسان ہوتا اور وہ اس طرح کی نفسیات سے اتنا متاثر نہ ہوتی۔ دوسرے کیس میں اگر طالبہ مذہب سے قریب ہوتی تو قبل از نکاح کا ناجائز رشتے میں ملوث نہ ہوتی۔
اس طرح کے واقعات پیش آنے کے بعد ایک عام انسان صرف حیرت کر سکتا ہے یا اس پر تبصرے کر سکتا ہے، لیکن ہم پر ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پہلے ہی اس طرح کے لوگوں کو ایسے جرائم میں ملوث نہ ہونے دیں ۔ اپنے آس پاس نو عمر لڑکے اور لڑکیوں کی کاؤنسلنگ کی جائے، انھیں چیزوں کے خطرناک انجام سے باخبر کیا جائے، طلاق شدہ عورتوں کو لعن طعن کرنے کے بجائے انھیں ایک نئی شروعات کی یقین دہانی کروائی جائے۔ حادثات اور واقعات زندگی کا حصہ ہیں،لیکن اہم یہ ہے کہ ہم اس میں اپنا کیا رول ادا کرتے ہیں، اس کی شرح میں اضافے کا باعث بنتے ہیں یا کمی کا۔
٭ ٭ ٭
ہم پر ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پہلے ہی اس طرح کے لوگوں کو ایسے جرائم میں ملوث نہ ہونے دیں ۔ اپنے آس پاس نو عمر لڑکے اور لڑکیوں کی کاؤنسلنگ کی جائے، انھیں چیزوں کے خطرناک انجام سے باخبر کیا جائے، طلاق شدہ عورتوں کو لعن طعن کرنے کے بجائے انھیں ایک نئی شروعات کی یقین دہانی کروائی جائے۔ حادثات اور واقعات زندگی کا حصہ ہیں،لیکن اہم یہ ہے کہ ہم اس میں اپنا کیا رول ادا کرتے ہیں، اس کی شرح میں اضافے کا باعث بنتے ہیں یا کمی کا۔
Aise article zarur likhe jana chahiye .sabah aamoz