فروری ۲۰۲۴

کہانی کے کردار

(1)ضحاک [صدر]
(2)طلیق[سکریٹری]
(3)حازم[ممبر]
(4)زونل ذمہ دار
’’اگلے ہفتے ہم سب کو ایک مہم کے متعلق نشست رکھنی ہے ۔‘‘ ضحاک نے طلیق سے کہا۔
طلیق:’’ضحاک! کیا تم نے سبھی ممبران کو اطلاع دے دی؟‘‘
ضحاک: ’’ہاں الحمدللہ!‘‘

نشست کے دن

’’آفس میں سب آگئے ضحاک؟‘‘طلیق نے ضحاک سے کال کرکے پوچھا۔
ضحاک: ’’نہیں ،باقی سب تو آگئے لیکن حازم ہر مرتبہ کی طرح نہیں آئے۔‘‘
طلیق: (تمسخرانہ انداز میں کہنے لگا)’’حازم پر تو اللہ رحم کرے ،وہ بندہ ہی یگانہ ہے ۔کسی اجتماع میں جلد آتا نہیں ہے ،مگرسبھی ذمہ داران آکر اس کے متعلق ہی پوچھتے رہتے ہیں۔خیر …‘‘
ضحاک: ’’تم کب تک آؤ گے ؟اپنی نشست ہر مرتبہ کی طرح تاخیر سے ہی شروع ہوتی ہے ۔‘‘
طلیق:’’ضحاک! میں راستے میں ہوں ۔کچھ دیر میں پہنچ جاؤں گا۔‘‘
(نشست میں ساری منصوبہ بندی ہوگئی۔)

کچھ دن بعد

حازم اکیلے ایک وطنی بھائی کے سامنےاسلام کا تعارف کروا رہا تھا ،اتنے میں ضحاک اور طلیق کا گزر ہوا ۔
طلیق: ’’یہ دیکھوضحاک !حازم خودکو اجتماعی سرگرمیوں میں مصروفیات بتاتا ہے، اور یہاں دنیا والوں کے سامنے مشہور و معروف ہونے کے لیے دعوتی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے ۔‘‘
ضحاک: ’’ہاں بھائی! اس پر تو ہم کو سوچنا چاہیے، کیوں کہ حازم کبھی نشستوں میں نہیں آتا۔‘‘
یہ گفتگو سن کرافسوس بھرے لہجے میں حازم دل ہی دل میں کہنے لگا :’’آخر اپنے دوستوں کو میں اپنی مجبوری کیسے بتاؤں؟لیکن کیا میرے دوستوں کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا ہوگا کہ آخر میں اجتماعی سرگرمیوں میں زیادہ وقت نہیں دے پاتا، کہتے ہیں کہ دوست دو جسم ایک جان ہوتے ہیں مگرمیرے دوست…‘‘
کچھ دن بعد ایک ذمہ دار کا دورہ ہواتو ضحاک اور طلیق نے حازم کی بہت سی شکایات کردیں ۔اس پر ذمہ دارمحترم نے کہا کہ کیا میں حازم سے اکیلے میں ملاقات کرسکتا ہوں ؟لہذا، ضحاک اور طلیق انھیں حازم کے گھر چھوڑ کرآ گئے ۔
ذمہ دار: ’’حازم! کیا حال ہے ؟سب آپ کے متعلق یہ سب باتیں کر رہے ہیں،کیا وجوہات ہے جو تم اس طرح اچانک تنظیمی سرگرمیوں سے جی چرا رہے ہو؟‘‘
یہ سننا تھا کہ حازم بہت غمگین ہوگیا اور کہنے لگا کہ میرے ابو کو اچانک فالج ہوگیا ،ان کی خدمت کےلیے مجھے وقت نہیں ملتا اور پھر میری پڑھائی بھی ابھی مکمل نہیں ہے ۔لہذا، جیسےہی وقت ملتا ہے ،راہ خدا کے کام انجام دیتا ہوں اور کسی تنظیمی نشست میں جانا چاہتا بھی ہوں تو نہیں جا پاتا،لیکن میرے تنظیمی ساتھی مجھ سے متعلق طرح طرح کے گمان قائم کرتے ہیں،جب کہ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے کہا :’’ہلاک ہو گئےقیاس و گمان سے حکم لگانے والے ۔‘‘
اس پر ذمہ دار نے اثبات میں سر ہلا دیا اور چند باتیں کر کے نکلنے کی اجازت لی اور آفس پر پہنچ گئے۔
(ادھر ضحاک اور طلیق کال کا انتظار کررہے تھے کہ ہمیں لینے کے لیے بلایا جائےگا، لیکن اچانک ذمہ دار محترم کو سامنے دیکھ کر حیران رہ گئے۔)
ضحاک اور طلیق:(ایک آواز میں)’’ارے آپ آگئے !ہم تو انتظار کررہے تھے کہ آپ ہمیں لینے کے لیےبلائیں گے۔‘‘
ذمہ دار: ’’نہیں ،جاتے وقت میں راستہ دیکھ چکا تھا تو آپ لوگوں کو زحمت دینا مناسب نہیں لگا۔
ضحاک اور طلیق:(ایک آواز میں)اس میں زحمت والی کونسی بات ہے؟‘‘(خاموشی)

کچھ دیر بعد

ذمہ دار:’’تم لوگوں کو پتہ ہے حازم کی پریشانی کے بارے میں ؟‘‘
ضحاک اور طلیق:(ایک آواز میں)’’ کون سی پریشانی ؟حازم باتیں بنانے میں بہت ماہر ہے۔ہمیں آپ کو اکیلے نہیں جانے دینا چاہیے تھا ۔‘‘
ذمہ دار:’’آپ لوگ کچھ زیادہ بدگمانیاں رکھتے ہیں،اپنے تنظیمی ساتھی سے بھی،تعجب ہے!جب کہ قرآن مجید میں گمان کے بارے میں کہا گیا ہے ناں:
’’اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔‘‘(سورۃالحجرات : 12)
آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا، کیوں کہ بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں، لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچا جائے۔‘‘
طلیق:(دبی آواز میں)’’جی محترم! ہم سے غلطی ہوگئی۔‘‘
ذمہ دار:(اپنی بات جاری رکھتے ہوئے)’’دین ِاسلا م وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان چیزوں کا خصوصی لحاظ رکھا گیاہے ،اسی لیے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے بر خلاف ہے ،اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیاہے،جیسے :بد گمانی ہے، جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے، اس سے دین ِاسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے ،چنانچہ قرآنِ مجید میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ،بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘(سورۃبنی اسرائیل : 36)
حدیث میں بھی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
’’ اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤکہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے،ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو،حسد نہ کرو،بغض نہ کرو،ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہوجاؤ۔‘‘(مسلم)
ضحاک:’’ہم معذرت خواہ ہیں محترم !ہم سے ان جانے میں بہت بڑی غلطی ہوگئی۔‘‘
ذمہ دار: ’’مجھے خوشی ہے کہ بات آپ کی سمجھ میںآگئی،لیکن آگے بھی خیال رہے کہ ہمارے پاس جو بھی افراد آئیں گے، سب کےمزاج،مصروفیات،پڑھائی وغیرہ الگ ہوگی سب کی آزمائش بھی،ہمیں ایسے افراد کو تحریک کے لیے مفید تر بنانا آنا چاہیے۔ جیسے سب جانور ایک لکڑی سے نہیں چلتے ویسے ہی نئے افراد ہیں۔اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ فرماتاہے :
’’دیکھو ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے، کبھی خوف سے، کبھی بھوک سے، کبھی مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے۔‘‘ (سورۃالبقرہ : 155)
یعنی انسان کو یہ پیغام دیا جاچکا ہے کہ زندگی کو پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر سمجھ کر اس دنیا میں رہو۔ یہاں پر ہر قدم پر تمھاری آزمائش کی جائے گی، تمھیںمصیبتوں میں گرفتا ر کیا جائے گااور تمھیں مشکلوں میں ڈالا جائے گا۔ہم کبھی کسی شخص کے تنظیم یا تحریک میں آنے کے راستے کو بند نہ کریں،ہم در بنیں، دیوار نہیں ،کیوں کہ ہر انسان اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے،اور ہر شخص سے اس کی استطاعت کے مطابق پوچھ ہوگی۔منزل مقصود تو سب کے لیے ایک جنت الفردوس ہے،لیکن سب کے راستے جدا ، کٹھن مراحل میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے انداز پر نجات کا فیصلہ ہوگا۔ہم تنظیم کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں، تنظیم تو دنیا میں کامیاب ہوگی ہمیں تو آخرت میں کامیاب ہونا ہے۔‘‘
ضحاک : ’’ماشاءاللہ محترم! گمان کے متعلق آپ نے یہ بات بھی بہت اچھی طرح واضح کردی۔ان شاء اللہ آئندہ میں کوشش کروں گا کہ سب ممبران کو ان کی فیلڈ کے مطابق ذمہ داری دوں ،تاکہ تنظیم کا کام بھی چلتا رہے اور کسی فرد پر زیادہ بوجھ بھی نہ آئے۔‘‘
ذمہ دار: ’’ماشاءاللہ !اللہ تمھیں استقامت عطا فرمائے اور نئے افراد کے ذریعے اس عظیم تنظیم کو تقویت ملے ۔آمین یارب العالمین!‘‘

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے