فروری ۲۰۲۴
زمرہ : النور

ابو ہریرہ عبد الرحمن بن صخرؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’میں تمھیں جس چیز سے روک دوں اس سے رک جاؤ اور جس چیز کا حکم دوں اسے اپنی طاقت کے مطابق بجا لاؤ، اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگوں کو بکثرت سوال اور اپنے انبیا سے اختلاف نے ہلاک کردیا۔‘‘ (بخاری : 7288،مسلم : 1337)

حدثنا إسماعيل ،حدثنى مالك عن أبي الزناد عن الأعرج، عن أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم.قال:دعونى ما تركتكم إنما هلك من كان اقباكم بسوالهم واختلاف فهم على أنبيائهم فاذا نهيكم عن شيء فاحتنبون وإذا امزتكم بأمر فاتو منه ما.

(ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:‌’’جو میں تمہارے لیے چھوڑ دوں اس میں مجھ سے سوال نہیں کرو،کیوں کہ تم سے پہلے کی امتیں زیادہ سوالات کرنے اور اپنےانبیاء کے سامنے باہم‌اختلاف کرنے وجہ سے تباہ ہوگئیں ۔بس جب میں تمھیںکسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پرہیز کرو اور جب میں تمھیں کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ، جس حد تک تم میں طاقت ہو ۔‘‘)
کچھ چیزیں جن کے بارے میں کوئی حکم بیان نہیں کیا گیا تھا، لوگوں کو ان کے عمل پر چھوڑ دیا گیا ،البتہ صحابۂ کرامؓ کے پوچھنے پر کبھی اس کی ممانعت کا حکم‌آجاتا ۔اس لیے بھی آپﷺ نے فرمایاکہ جس چیز کو میں چھوڑ دوں اس کے بارے میں سوالات نہ کرو ،جس کا حکم‌ملے اس‌پر عمل کرو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وما اٰتكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهو واتقو الله .
(سورۃالحشر: 7)

(اور رسول جو بھی تمھیں دے اسے لے لو، اور جس چیز سے تمھیں روک دے اس سے رک جاؤ ۔)
ایک شخص جو مسلمان ہے ،جس نے دین اسلام قبول کیا ہے، اس پر لازم ہےکہ وہ نبیﷺ کے ہر حکم کو مانے ۔
اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ نبیﷺ کا ہر حکم واجب ہے،جس کام سے نبیﷺ منع فرمادیں ،اس سے بچنا ضروری ہے ۔قرآن مجید کی بہت سی آیات سے بھی یہی حکم ثابت ہوتاہے ۔
ایک اور جگہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ رسولﷺ جس معاملہ میں فیصلہ کر دیں ،ہمیں اسے بلا چوں وچرا مان لینا چاہیے۔ تمھارے دل میں اس فیصلے سے کوئی تنگی یا کوئی کڑھن نہیں ہونی چاہیے ۔دنیوی معاملات کا اصول یہ ہے کہ ہر وہ کام جس سے قرآن وحدیث نے منع نہ کیا ہو وہ جائز ہے ۔اس کے بر عکس عبادات میں وہی کام جائز ہے، جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔
اس لیے دینی معاملات میں نیا ایجاد کیا ہوا کام بدعت ہے ۔ایسے مسائل جو فرض کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بارے میں بحث ومباحثہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
نبیﷺ کے حکم کی خلاف ورزی ہلاکت کا باعث ہے، جن کاموں سے آپ نے منع کیا ہو، اس سے پرہیز لازمی ہے ۔سورۂ بقرہ میں بنی اسرائیل کا جو حال بیان ہوا ہے وہ بے انتہا عبرت آموز ہے ۔سورۂ بقرہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ نے انھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے اس کے ساتھ یہ معاملہ کیا کہ وہ سوال پر سوال کرتے رہے۔ مثلاً :گائے کیسی ہو ؟اس کا رنگ کیسا ہو ؟
جتنا وہ سوال کرتے گئے، اللہ تعالیٰ ان پر اتنی ہی قید لگاتا گیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس گائے کو ذبح کرنے کو کہہ دیا، جس کی محبت بہت زیادہ ان کے دلوں میں تھی، جس کو یہ پوجتے تھے۔اللہ کا حکم ملتے ہی اگر وہ اچھی نیت سے کوئی ایک گائے ذبح کردیتے تو اپنے فرض سے سبک دوش ہوجاتے ،لیکن اپنے ہر سوال پر وہ مشکل سے مشکل میں پھنستے چلے گئے ۔
سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

لا تسألوا عن أشیاء ان تبدلکم تسؤکم

(مسلمانو! ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر وہ بیان کی جائیں تو تم کوبری لگیں۔)
رسول اللہﷺ نے کہا کہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ مجرم اور گنہ گار وہ شخص ہے جس نے کوئی ایسی چیز دریافت کی جو پہلے حلال تھی ،لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے وہ چیز حرام کردی گئی۔
خلاصہ یہ کہ امت مسلمہ کو فضول سوالات کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے