جنوری ۲۰۲۴

انسان، اللہ رب العالمین کی تخلیق ہے، ہر انسان اپنی جسمانی ساخت اور صلاحیتوں کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ جو بچے عمومی اعتبار سے کچھ مختلف پیدا ہوتے ہیں، انھیں معذور یا Special child کہا جاتا ہے ۔معذوری (Disability) کو سماجی سطح پر معیوب سمجھا جاتا ہے۔ معذور بچوں کے تئیں والدین کو شرمندگی کا احساس گہرا ہوتا ہے،تا ہم ایک بات واضح رہے کہ ذہنی معذوری کا نام آٹزم (Autism) ضرور ہے، لیکن اس کا مطلب کوئی ایسی معذوری نہیں جسے معیوب سمجھا جائے ، بلکہ ایک طرح حیاتیاتی تنوع ہے، Neuro developmental diversity ہے، جس کے آگے مختلف درجے ہیں، اور اس کے ساتھ کچھ مزید چیزیں جڑی ہو سکتی ہیں۔ ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی اس کی وجوہات کا جاننا اور علاج ممکن نہیں ہے۔

مگر کریں کیا؟

آٹزم یا آٹزم ا سپیکٹرم ڈس آرڈر کی علامات دو تین سال کی عمر سے لےکرعمر کے کسی بھی حصے میں ظاہر ہو سکتی ہیں۔ یہ علامات کبھی کم اور کبھی اور شدید ،دونوں طرح کی ہو سکتی ہیں۔ماہرین نفسیات و ورکنگ ا سپیشل ایجوکیشنسٹس کے مطابق آٹزم کی بعض علامات یہ ہیں:
گوشہ نشینی اختیار کرنا : بعض بچوں میں گوشہ نشینی کی علامت پائی جاتی ہے اور وہ اپنے بیٹھنے کے لیےنیم تاریک جگہ کا انتخاب کرتے ہیں ۔والدین بھی اسے معذور یا ابنارمل سمجھ کر اسی طرح رہنے دیتے ہیں، انھیں اس نظر سے نہیں دیکھتے جس کا ہم مضمون میں ذکر کرنے والے ہیں۔
سماجی تعلقات سےبیزار ہونا یا کترانا : آٹسٹک بچوں میں یہ خصوصیات نمایاں ہوتی ہیں ۔ سماجی تعلقات یا شور سے انھیںگھبراہٹ ہوتی ہے ۔
نام سے پکارے جانے پر جواب نہ دینا: ایسے بچوں کی توجہ آواز کی سمت کبھی کبھی نہیں ہوتی ہے، یہ مگن ہوجاتے ہیں اس لیے جلدی جواب نہیں دے پاتے۔
طبیعت میں جارحیت : یہ کبھی کبھی بہت کم اور کبھی بہت زیادہ بھی ہوتی ہے ۔
بہت ہی ظالم یا بہت ہی نرم دلی کا اظہار : بہت سخت بدلہ لیتے ہیں۔ کبھی کبھی مظلومیت کا اظہار کرتے ہیں ،گویا سب انھیںمارتے ہیں، کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا ۔
ہر وقت اضطراب اور خوف: کبھی کبھی یہ علامت بھی سامنے آتی ہے کہ وہ ان جانے خوف کی وجہ سے بہت زیادہ اضطراب کا شکار ہوتے ہیں ۔
انہماک کی کمی : انہماک میں واضح کمی محسوس کی جاسکتی ہے ۔
الفاظ اور جملوں کو بار بار دہرانا : جملے دہرانے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سمجھنے میں مشکل محسوس کررہے ہیں، جملے بار بار دہراتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہاتھوں کو چڑیا کے پروں کی طرح پھڑپھڑانا ، ہاتھ جھٹکنا یا ایک ہی کام کو بار بار کرنا جیسے ایک آٹسٹک لڑکی مگ سے پانی ڈالتی رہی، بکٹ کے بھر جانے کے بعد بھی اس کے پانی ڈالنے کا عمل دو گھنٹےتک جاری رہ سکتا ہے۔
بات کرتے وقت آنکھیںچرانا: نظریں چراتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کسی سے نظرین نہیں ملاتے ہیں ۔
ذرا سی بات پر پریشان ہو جانا: جلد گھبراجاتے ہیں ۔اپنا مطلب سمجھانے یا خیالات کے اظہار میں دشواری کہیں ہکلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں اور کہیں کہیں باتیں وہ دہراکر سمجھاتے ہیں ۔ایک جگہ پر سکون سے نہ بیٹھنا، بیٹھے ہوئے اچھلنا کودنا۔
بات کرتے ہوئے آئی کانٹیکٹ نہ دینا۔
بات سن لینا مگر کوئی رسپانس نہ دینا۔
بہت زیادہ ضد کرنا، شور مچانا، چیزیں توڑنا، نقصان کرنا، اگریشن۔
عام بچوں سے زیادہ شرمیلا ہونا۔
بات سمجھنے اور اپنی بات کا اظہار کرنے میں دشواری ہونا۔
حالیہ برسوں میں آٹزم کی ریشو بہت تیزی سے بڑھا ہے۔’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کی ایک پبلشڈرپورٹ کے مطابق یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا ہندوستان میں آٹزم عام ہے؟اور یہ جواب سامنے آیا ETHealth World کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں تقریباً 18 ملین افراد آٹزم سے متاثر ہیں۔ دو سے نو سال کی عمر کے تقریباً 1 سے 1.5 فی صدبچوں میں ASD‏ کی تشخیص ہوتی ہے۔

آٹزم کا سبب کیا ہے؟

’’ہم سایہ ملک کے خطیب احمد نے اپنے ریسرچ آرٹیکل میں لکھا ہے ‘‘

آٹزم کی کوئی ایک وجہ نہیں بتائی جا سکتی۔ ASD کئی جینیاتی اور ایپی جینیٹک عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جینیاتی تغیر/تبدیلی اب بھی ASD کے پیچھے ایک اہم عنصر ہے۔ دیگر عوامل جو آٹزم کے ساتھ بچے کی پیدائش کے خطرے کو بڑھاتے ہیں ،ان میں حاملہ ہونے کے وقت والدین کی عمر، حمل کے دوران ذیابیطس اور تھائرائیڈ کی بیماری سے متاثر ہونا، اورزچگی کا موٹاپا وغیرہ شامل ہیں۔کچھ محققین کے مطابق، ماحولیاتی عوامل بھی ASD کے ساتھ بچے کی پیدائش کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔زہریلے مادوں جیسے مرکیوری ، سیسہ، اور دیگر بھاری دھاتوں ، کیڑے مار ادویات(Pesticide) کی مقدارخطرے کو نمایاں طور پر بڑھا سکتی ہے۔
خود محویت کے شکار بچے کی جانچ یا تشخیص عموماً ڈاکٹرز یا ماہر نفسیات سے بچے کی جانچ کروائی جاتی ہے، عموماً رویہ کی تبدیلی پر نوٹس والدین بھی لیتے ہیں ۔
ڈاکٹرز کے مطابق آٹزم کو زیادہ تر طبی جانچ میں ایک ذہنی بیماری، نیورو لاجیکل یا جینیٹک ڈس آرڈر، کو میڈیکل کنڈیشن یا ٹریجڈی کہا جاتا ہے۔کیونکہ Neuro logical development ،یہ کمزوری طبی نقطۂ نظر سے ایک کمی کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔یہ سمجھاجاتا ہے کہ یہ بچہ نارمل نہیں ہے۔ جسے نارمل کرنے پر کام شروع ہو جاتا۔ اس کاعلاج ہونا چاہیے۔ پہلی یہی ازمشپن والدین ڈاکٹرز اور کچھ ماہر نفسیات اپناتے ہیں،اور بچے کے علاج کے چکروں میں ابتدائی سالوں میں ہی معاملہ الجھا دیتے ہیں ۔ سائیکالوجسٹ (Psychologist) کیس اسٹڈی کرتے ہیں ،سیشن لیتے ہیں اور جانچ Asisment کرتے ہیںیا ان میں سے کچھ انکے ساتھ سیشن بھی لیتے؟
اسپیشل ایجوکیشنسٹ(Special educationist)جانچ کے فوراً بعد ہی ان کی Learning style کی کھوج شروع کردیتے ہیں ۔ساتھ ہی دنیا بھر میں ان بچوں کے ساتھ والدین کے بعد زیادہ وقت گزارنے والے اسپیشل ایجوکیشنسٹ یا ان کے مربی ہی ہوتے ہیں۔ اسپیشل ٹیچر کا انداز کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ایک آٹسٹک بچہ خود کو ڈس ایبلڈ نہیں سمجھتا۔اسے معذوری کا احساس دلائے بغیر ہی اسے سکھانے کے نئے طریقے اپنانا شروع کردیتے ہیں ۔ڈس ایبلٹی کے سوشل ماڈل میںا سپیشل ایجوکیشنسٹ، آٹزم کو کوئی بیماری یا معذوری نہیں سمجھتےکہ جس کاعلاج کیا جائے۔ اسے ٹھیک کیا جا سکے یا اس کی روک تھام ہو سکے۔دنیا بھر میں ہر سال کروڑوں اربوں ڈالر آٹزم کی ریسرچ پر لگائے جا رہے ہیں۔ 40فی صدفنڈز اس فیلڈ میں خرچ ہو رہے ہیں کہ اس کی جینیٹک اور بائیولوجیکل یا دیگر وجوہات کیا ہیں؟ اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ ایک سو سال کی ریسرچ کے بعد بھی یہ سوال جوں کا توں ہے۔20 فی صد فنڈز اس بات پر کی جانے والی ریسرچ پر لگ رہے کہ اس کا علاج کیا ہے؟ ہم آٹزم کو کیسے نارمل کر سکتے ہیں؟20 فی صد فنڈز آٹزم کے مسائل اور رویوں کی تلاش میں کی جانے والی سالوں پر محیط تحقیقات میں کھپ رہے ہیں۔صرف 7 فی صد فنڈز آٹسٹک لوگوں کی ویلفیئر اور ان کی مدد کرنے میں لگ رہے۔آٹسٹک لوگوں میں خود کشی کا رجحان عام لوگوں سے 9 گنا زیادہ ہے۔آٹزم کی ایوریج لائف دنیا انڈیاسمیت دنیا بھر میں 54 سال ہی ہے، جبکہ نارمل لائف اسپینlife span)68) سال تک ہے،اور کچھ ممالک میں 80 سال تک بھی ہے۔
خطیب احمد نے اپنے ریسرچ پیپر میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ دنیا بھر میں آٹزم چلڈرن کے میڈیکل ماڈل کہ اس طرح بچوں کی پیدائش پر قابو پانے کی کوشش پر سارا فنڈ استعمال ہورہا ہے ۔اس ریسرچ پیپر میں کہا گیا ہے کہ آٹزم کو لےکر دنیا کی ترجیحات ہیغلط ہیں۔ کینیڈا، انگلینڈ ،امریکہ، فرانس اور جرمنی کے والدین سے سروے کے دوران بات ہوئی، تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہاں بھی ان بچوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہم خود ہی کرتے ہیں، جو بھی کریں۔ میڈیکل ماڈل پر ہی کام ہوتا ہے۔ شدید ذہنی اضطراب میں نیند کی گولیاں دے دی جاتی ہیں،یا ہمیں نہیں معلوم ہمارے بچے کے ساتھ ری ہیبلی ٹیشن سنٹر میں کیا کرتے ہیں ۔آٹزم خواتین کی نسبت مردوں میں بہت زیادہ ہے۔ دس آٹسٹک بچوں میں سے ایک لڑکی اور نو لڑکے ہو سکتے ہیں۔ یا سولہ میں سے ایک لڑکی ہو سکتی ہے۔

سوشل ماڈل کے تحت آٹزم ہے کیا؟

ٹزم کوئی ڈس ایبلٹی نہیں ہے۔ یہ ایک نیورولوجیکل ڈیویلپمنٹ کا مختلف پیٹرن ہے۔ ان بچوں کی سوچنے سمجھنے، رسپانس کرنے، برتاؤ کرنے، گفتگو کرنےاورمیل جول رکھنے کی عادات اکثریت سے مختلف ہوتی ہیں، اور آٹزم کے ساتھ لوگوں کی آپس میں بھی ان ایریاز میں ترجیحات اور علامات ایک دوسرے مختلف ہیں۔کچھ لوگ نارمل لوگوں کی تعریف میں بھی انٹرو ورٹ
(Introvert )اور ایکسٹرو ورٹ (Extrovert) ہوتے ہیں۔بچے کی آٹزم کا علم والدین کو میڈیکلی روز اول سے ہوجاتا ہے اور بعض بچوں میں وقت کے ساتھ ساتھ علامات ظاہر ہوتی ہیں، بچے کا آٹیسٹک ٹیسٹ کروالیں ۔
آٹزم کی اسسمنٹ تو کروا لی۔ والدین اب کیا کریں؟اس بچے کو اپنے دیگر بچوں سے مختلف بچہ قبول کریں۔ یہ مشکل ہے، خصوصاً ایک ماں کے لیے۔ آپ اس بات کو لےکر پلیزکسی دکھ یا صدمے میں ہر گز نہ جائیں،نہ ہی اس بچے کو ٹھیک کرنے کے غلط راستے پر چل پڑیں۔ یہ بچہ ساری عمر دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہو سکے گا۔ یہ اپنے انداز میں ایک شاندار زندگی گزار سکتا ہے۔ اگر آپ اسے’ جو ہے جیسے ہے‘ کی بنیاد پر قبول کر لیں،اور اس کی بہتری پر کام شروع کر دیں۔اس بات کو چھپائیں بھی نہیں۔ سب کو بتائیں فخر سے کہ آپ کا بچہ آٹسٹک ہے۔ اس کی پسند ناپسند ،عادات و اطوار، تھوڑے یا زیادہ مختلف ہیں۔ فیملی ا ور خاندان والوں کو ایجوکیٹ کریں کہ اس کے ساتھ برتاؤ کیسے کرنا ہے؟
کچھ بچے وربل اور اکثریت نان وربل کی ہوتی ہے۔ کچھ بچے ساری عمر ایک لفظ بھی نہیں بول پاتے۔ اشاروں کی زبان سیکھ جاتے ہیں، یاچند مخصوص الفاظ بولتے ہیں۔ جیسے بسکٹ ،امی، ابو، روٹی؛ کوئی ایک لفظ، وہ بھی جب ان کی مرضی ہو۔
تفصیلی اسسمنٹ جو ایک فرد واحد نہیں، بلکہ پروفیشنلز کی ایک پوری ٹیم کرے، اور کئی دن پر وہ اسسمنٹ محیط ہو۔ وہ طے کرے گی کہ آٹزم کے ساتھ کون سی کنڈیشنز جڑی ہوئی ہیں؟ جن کی وجہ سے اسے اسپیکٹرم کہا جاتاہے اوراس کا علاج کرواکر ہم نارمل نہیں کرسکتے۔ علاج (جو دنیا بھر میں ہے بھی کوئی نہیں) بلکہ مینجمنٹ اور ایجوکیشن کا پلان کیسے بنانا ہے؟اس پر توجہ دے سکتے ہیں۔آٹزم کے ساتھ سب سے شدید کنڈیشن جو جڑتی ہےوہ نابینا پن (Blindness) ہے۔ دنیا کی سب مشکل کنڈیشن ہے یہ، اگر آٹزم شدید ہو۔خطیب احمد کے مطابق لرنگ ڈس ایبلٹیز

Expressive language disorder
Obsessive compulsive disorder
ADHD
Hydrocephalus
Epilepsy
Receptive language disorder
Sensory processing issues
Schizophrenia
Bipolar Disorder
Depression
Anxiety
Disrupted sleep
Gastrointestinal (GI) problems
Feeding issues

یہ بچے عام بچوں سے مختلف انداز میں سیکھتے ہیں۔ ان کو سب سے پہلے بنیادی باتوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اپنے ذاتی کام کیسے خود کرنے ہیں؟ ممکنہ توجہ اور بول چال پر ماہرین سالوں سال کام کرتے ہیں، تو جا کر کوئی معمولی سا آؤٹ پٹ ملتا ہے۔ ان بچوں کی ون ٹو ون ٹیچنگ ہے۔ دو بچے بھی ایک وقت میں ایک جگہ نہیں پڑھ سکتے۔ بچوں کی تعداد کے لحاظ سے انڈیا میں اسپیشل ایجوکیشن اسکول کم ہیں۔جہاں اسکول پرائیوٹ نظام میں گرانٹ کی بنیاد پر شروع کیے گئے ہیں، وہاں سہولیات کا معقول نظم چیک کرنے والے آفیسر رشوت ستانی کا شکار ہوکر ان سہولیات کی غلط رپورٹ دیتے ہیں ۔
ہمارے بے شمارا سکولوں میں دانشورانہ پسماندگی کے ساتھ بچوں والے پورشن میں ایک ٹیچر کے پاس دس بیس بچوں کے ساتھ ہی ایک کونے میں یہ بچہ بھی چپ چاپ سہما ہوا بیٹھا رہتا ہے۔ دس بیس سال بھی وہاں بیٹھا رہے، کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ اسے انفرادی توجہ اور ون ٹو ون ٹیچنگ کی ضرورت ہے۔ جہاں ان بچوں کو پڑھایا جاتا ہے وہاں کوئی ڈسٹریکشن نہیں ہوتی۔ کوئی آواز، کسی فرد کا گزر نہیں ہونے دیا جاتا کہ یہ بچے انسٹرکشن پر فوکس کر سکیں۔ان بچوں کے اسکول میں گاہے بہ گاہےڈاکٹر، ماہر نفسیات،ا سپیچ تھراپسٹ،ا سپیشل ایجوکیشنسٹ، آکو پیشنل تھراپسٹ اور کئی بغیر کسی ڈگری کے ہی صرف ماہرین کے ساتھ رابطہ ہونا ناگزیر ہے۔ہندوستان کے گاؤں دیہات سے لائے گئے اسپیشل اسکول کے بچوں کے والدین ان کے ساتھ سلوک سے نابلد ہوتے ہیں ،اور یہ بچے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا اظہار بھی نہیں کرپاتے ہیں ۔
نیٹ فلکس پر اسپیڈ کیوبر ایک ڈاکیومنٹری ہے جسے ڈس ایبل بچوں کی ماؤں کو لازماً دیکھنا چاہیے ، جس میں ایک آٹسٹک بچے کی ماں نے اپنے بچے کی نفسیات اور سیکھنے کی استعداد کو سمجھ کر اسے اسپیڈ کیوبر بنادیا۔ اس ماں کی کہانی بہت تکلیف دہ ہے، جو اپنے بچے کے لیے ساری مشغولیات و مصروفیات کو تج کر صرف اپنے بچے میں گم ہوجاتی ہے، آخر وہ جان لیتی ہے کہ اس کا بچہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ وہ اپنی ماں کی نقالی کرنا سیکھ چکا ہے ۔
آٹسٹک بچے جب نقالی سیکھ لیں، تو وہ سیکھنے کا عمل ان کے لیے آسان بن جاتا ہے، یہ بہت صبر آزما کام ہے جو فیلکس کی والدہ نے کیا ۔تصور کریں !اس ماں نے اپنے بچے کو نقالی سکھانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ؟اس بچے کی ذہنی سطح پر اتر کر اسے یہ سمجھانے میں کامیاب ہوئی کہ وہ بھی اس کی سطح پر ہے ۔ اس سارے سین کے بعد خوشی کی بات کیا ہے؟ان بچوں میں اگر کچھ خرابیاں ہیں ،تو خدا کی ذات نے کچھ خوبیاں بھی رکھی ہوں گی۔ عقل مانتی ہے ناں اس بات کو؟ مثبت ایریاز کو تلاش کرکے ان پر کام کرکے ان بچوں سے غیر معمولی کام لیے جا سکتے ہیں۔ ان کے لرنگ پیٹرن کو سمجھنا ضروری ہے۔

ان بچوں کے کچھ مثبت ایریاز:

مثبت سوچ
انتہائی پاورفل ا ور شاندار یادداشت
حد سے زیادہ مخلص
فوکس کرنے کی اعلی ٰترین خوبی
ٹیکنیکل اور لاجیکل مضامین میں مہارت
تخلیقی صلاحیتوں کے سمندر
انتہائی ذمہ دار
باریک بینی سے مشاہدہ کرنے کی صلاحیت
لوگوں کو گلے لگانا ،چومنا پیار کرنا
پڑھنا بہت چھوٹی عمر میں شروع کر دینا
Hyperlexia
تصویری اشیاء سے سیکھنے کی صلاحیتلاجیکل تھنکنگ
یہ بچےسائنس، ریاضی، طب، انجینئرنگ کے مضامین میں بلا کی ذہانت و فطانت کے مالک ہوتے ہیں، ان کی تربیت کے نظام کو ایکٹیوکرنے کی ضرورت ہے ۔
(1) اگر ان بچوں کے علاج کو چھوڑ پر ان کی تعلیم و تربیت پر فوکس کیا جائے، گو قابل ماہرین بہت کم ہیں مگر موجود ہیں، آپ کوان بچوں کے لیے کچھ پیسے زیادہ کمانے ہوں گے۔ ایک ماہر ٹیچر آپ ہائر کریں گے جو ا گھرآکر پڑھائے گا۔ وہ ایک ماہ روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ ٹائم دینے کا دس سے بیس ہزار سے کم کسی صورت نہیں لے گا،اور یہ سلسلہ چار پانچ سال سے لےکر دس سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ایک ہی وقت میں دو سے تین لوگ بشمول ماہر نفسیات و آکو پیشنل تھراپسٹ بھی ضرورت کے تحت سیشن لیتے ہیں۔
(2) اگران بچوں کی سیکھنے سکھانے پر خرچ کی آپ کی استطاعت نہیں رہتے تو پہلا کام یہ ہو کہ آپ اسپیشل ایجوکیشن کے بنیادی مسائل کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کروائیں ،اور اس شعبے کو رشوت ستانی سے پاک کرنے کا بیڑہ اٹھالیں۔ صحافی حضرات اسپیشل ایجوکیشن سینٹرز کا جائزہ لے کر دنیا کی توجہ اس جانب کروائیں ۔
(3) دنیا بھر میں کامیاب آٹسٹک بچوں کے ٹیچر اکثر ان کے والدین ہی تھے۔ یہ بچے ٹیچر کو منہ پر تھپڑ مارتے ہیں، تھوک دیتے ہیں،چٹکیاں کاٹتے ہیں، اوپر پانی گرا دیتے ہیں، دھکا وغیرہ دے دیتے ہیں۔ ٹیچر یہ سب کیوں برداشت کرتا ہے؟ کہ اسے اسکا معاوضہ ملے گا۔ پانچ دس ہزار میں کوئی قابل ٹیچر یہ سب سہنے کے لیے نہیں ملے گا۔ آپ کوتو پیسوں سے غرض نہیں؟ آپ ٹیچر سے کہیے کہ آپ کو بھی ٹرین کریں اور ماں ہی اس بچے کی حقیقی ٹیچر بن جائے ۔
آپ والدین ہیں۔ اسے اللہ والا بچہ کہہ کر گلیوں میں لوگوں کے ٹھٹھے مذاق کا سورس بنادیں گے، جو برسوں سے چلا آرہا ہے ،یا گھر کے کسی کونے میں پڑا زندگی کے دن پورے کرتا رہے گا، یا آپ کی ساری زندگی اس کی اور آپ کی ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے مشکل میں گزرے گی۔
یہ بچے ارلی انٹروینشن کے بعد تعلیمی نظام کا حصہ بن کر پی ایچ ڈی تک کر سکتے ہیں۔ کئی آٹسٹک پی ایچ ڈی ہیں۔ یاد رہے! ایسے بچوں کی تربیت پر توجہ دی گئی تو یہ اور ان کا فن درجہ ٔکمال پرپہنچ سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس فوکس کم ہوتا ہے، جہاں فوکس بن جائے وہاں سے انہماک توڑنا ممکن نہیں ہوتا ،اس کمزوری کو زیرک والدین بچے کی طاقت بناسکتے ہیں ۔ایک کیس کے سلسلے میں نیروسرجن سے گفتگو ہوئی، انھوں نے بتایا کہ آٹسٹک چائلڈ نے بڑاہوکر مارشل آرٹ ، اسپورٹ اور ڈرائنگ میں جاپان میں ایوارڈ لیا ہے ۔
ان بچوں کے لیے بہترین ملازمت کے چند پیشے یہ ہیں،جن میں یہ اپنی سپر پاورز دکھا سکتے ہیں، اور یقیناً آپکی سہی ہوئی تکلیفیں اور خرچ کیا ہوا سرمایہ؛ سب کچھ یہ واپس لوٹا دیں گے،اگر آپ نے انھیں کسی قابل بنا دیا۔
انیمل سائنسز، جیسے: زووالوجی یا جانوروں کو کسی کام کے لیے ٹرین کرنا (دنیا بھر میں ہر نسل کے کتوں کو سدھانے اور مختلف کام سکھانے والے ماہرین آٹسٹک لوگ ہیں۔)
ریسرچر کوئی بھی ان جیسا نہیں بن سکتا،آرٹ اینڈ ڈیزائن
(گرافک ڈیزائننگ)،مینو فیکچرنگ (کسی بھی چیز کی)،انفارمیشن ٹیکنالوجی ،جیسے :سافٹ ویئر اور موبائل ایپس بنایا۔ سافٹ ویئر کی خرابی چیک کرنا (امریکہ میں ایک آئی ٹی کمپنی ہے جو فرمز کے بڑے بڑے خراب سافٹ ویئر ٹھیک کرتی ہے۔ ان کے سارے ملازمین اسپرجر سنڈروم کے ساتھ ہیں۔ یہ آٹزم کی ہی مائلڈ شکل ہے۔)

پینٹنگ

ایک ریسرچ آرٹیکل میں سلیم صاحب نے لکھا ہے :’’کہا جاتا ہے ہم سایہ ملک کے صادقین، اسمائیل گل جی اور جمیل نقش صاحب، ملک کے تینوں عالمی شہرت یافتہ پینٹر بھی آٹسٹک تھے۔ ان لوگوں کی پینٹنگز آج کروڑوں میں بکتی ہیں۔ جمیل نقش صاحب کی بیٹی بتا رہی تھی کہ اس کے ابو اپنی ساری زندگی میں بس چند ایک دفعہ ہی گھر سے باہر نکلے۔ ایک بار جب ان کی شادی ہوئی، پھر جب ان کی مسز فوت ہوئی ،توجنازہ کے لیے۔ تیسری دفعہ جب پاسپورٹ بنوانا تھا اور چوتھی دفعہ جب انھیں لندن جانا تھا۔ سن 2019 ءمیں جمیل نقش صاحب لندن میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آج ان کے کام کو دنیا جانتی ہے۔ وہ کسی سے بھی نہیں ملتے تھے، بس اپنے کام میں کھوئے رہتے تھے۔‘‘
کسی بھی قسم کی انجیئنرنگ ملاز مت یہ بچے سائنس دان بن سکتے ہیں (کیونکہ سائنسدان بھی کسی سے بات نہیں کرتے، بس اپنے تجربات میں کھوئے رہتے ہیں۔ تین بڑے سائنسدان :آئزک نیوٹن، البرٹ آئنسٹائن اور ہینری کیویندش (ہائیڈروجن کا موجود) بھی آٹسٹک تھے۔)
جرنلزم میں یہ لوگ کمال کے کالم نگار ہوتے ہیں کہ لکھنا ریسرچ کرکے ہوتا ہے۔ریسرچ کرنا ان پر ختم ہے۔کسی بھی مشین کے یہ بہترین میکنک ہو سکتے ہیں۔ جان ڈئیر مشینیں بنانے والی مشہور زمانہ امریکن کمپنی میں ٹاپ مکینک آٹسٹک لوگ ہیں۔
دنیا کے ٹاپ وکلاء کے پیرالیگل سٹاف میں آٹسٹک لوگ ہو سکتے ہیں، جو کسی کیس کی اسٹڈی میں ریسرچ کرتے ہیں۔
اسپیس سائنسز کاسمالوجی میں ان سے بہتر کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ ناسا میں کئی آٹسٹک لوگ ہیں۔ان تمام شعبوں کے بائی ڈیفالٹ و بائی برتھ بادشاہ آٹسٹک لوگ ہیں۔ یہ سب شعبے انتہائی ذہانت اور لاجیکل تھنکنگ مانگتے ہیں۔ حد سے زیادہ فوکس اور لگن مانگتے ہیں۔ اینٹی سوشل لوگ ہی ہمیشہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں،اور ان کی تو گھٹی میں یہ خوبی پڑی ہوئی ہے کہ یہ کسی سے بات نہیں کرتے ،بس اپنی دنیا میں ہی مگن رہنا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈس ایبلٹی کے میڈیکل ماڈل کی بجائے سوشل ماڈل کو اپناتے ہوئے ان بچوں کو قبول کیا جائے، اور ان کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کیا جائے۔
آپ بھی اپنا پرسنالیٹی ٹیسٹ کرواسکتے ہیں MBTI کا ٹول استعمال کرکے آپ اپنی پرسنالٹی ٹائپ معلوم کر سکتے ہیں۔ میں INFJ ہوں۔ یہ میرا ایک پرسنیلٹی کوڈ ہے۔ میں ایکسٹرو ورٹ ہوں۔ اس کوڈ کو میں نے ایک لائف کوچ سے فیس دے کر اپنی پرسنیلٹی اسسمنٹ کروا کر معلوم کیا ہے۔ آپ کا بھی کوئی پرسنیلٹی کوڈ ہوگا، جو ہمارے سیکھنے اور زندگی گزارنے کے مخصوص طریقے بتاتا ہے۔ جب کوڈ معلوم ہوجائے تو ہمارے لیے یہ آسان ہوجاتا ہے۔ ہم کس فیلڈ کے لیے بنے ہیں؟ کس کام میں تھوڑا کام کرکے زیادہ اور جلدی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ کون ساکام کرتے ہوئے ہم تھکیں گے نہیں؟
اکثریت ساری عمر اپنےناپسند کام میں ہی لگی رہتی ہے، اوریہ اکثریت زندگی میں کچھ بھی بڑا نہیں کر پاتی۔آپ بھی اپنا پرسنالٹی کوڈ معلوم کیجیے اور پھر اس کام میں جت جائیے جو آپ کی طبعیت کو راس آتا ہے۔خود سے متعلق مثبت رہیے اور آٹسٹک چائلڈ سے متعلق دنیا کا نظریہ بدلیے ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

2 Comments

  1. سلیم منصور خالد

    صرف ہند میں نہیں بلکہ پاکستان میں بھی بچوں کی اس کیفیت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ والدین سخت پریشانی اور صدمے سے دوچار ہیں ۔ آپ کے اس مضمون نے ڈھارس بھی بندھائی ہے اور ایک درجے میں اداس بھی کردیا ہے کہ “ علاج معلوم نہیں “- جس طرح آپ نے اس کے ساتھی زندگی گزارنے کا اسلوب بیان کیا ہے ، براہ کرم کوئی علاج کی روشنی بھی تلاش فرمائیے ۔ اس بے حد اہمُ مضمون پر ہم آپ کے شکر گزار ہیں ۔

    Reply
    • مبشرہ

      اسے مرض سمجھے بغیر اگر بچے کی اس کمزوری کو طاقت میں تبدیل کرنے تیکنیک پر کام کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس غم کو کم کیا جاسکے ہماری بھابی کا ڈاون سینڈروم اور تھراپی سینٹر ہے جہاں وہ ایسے بچوں کے رویے کی تبدیلی پر کام کرتی ہیں۔

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴