جنوری ۲۰۲۴
زمرہ : النور

أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ ۖ وَلِلنِّسَآءِنَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ اَوۡ كَثُرَ ‌ؕ نَصِيۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ۞ (النساءآیت:7)

(مردوں کے لیےاس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے، جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور حصہ ،اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔)

یہ سورہ نساء کی آیت نمبر7 ہے ۔ سورہ نساء وہ سورہ ہے جس میں عورتوں،یتیموں، خاندانی و معاشرتی زندگی، شادی بیاہ، رشتے ناطے، طلاق و خلع ، وراثت اور صلہ رحمی وغیرہ سے متعلق ضح احکامات ملتے ہیں۔ سورہ کی تمہید میں اللہ تعا لی ٰ تقوی اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے ۔ اس تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ تمام مخلوقات اللہ کی پیدا کردہ ہیں اور اس کائنات کا خالق و مالک اور رب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، تو کسی کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کی مخلوق کو ظلم و تعدی کا شکار بنائے اور ان کے حقوق کو ضبط کرے۔ تمہید میں دوسری بات یہ بیان فرمائی گئی کہ تمام نسل انسانی ایک ہی آدم و حوا کا گھرانہ ہے ۔ اس اعتبار سے حقوق کے حصول میں سب برابر ہیں۔چونکہ حوا علیہا السلام، آدم علیہ السلام کی ہی جنس سے بنی ہیں اور وہ نسل انسانی کی ماں ہیں۔ اس لحاظ سے عورت شرف انسانیت میں برابر کی شریک ہے ۔ اس کو حقیر و ذلیل سمجھ کر نہ تو حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے اور نہ کمزور خیال کرکے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے سماج کے سب سے کمزور طبقے یعنی یتیموں کے حقوق کی تفصیلات بیان کیں ۔ یتامیٰ کے حقوق کے تحفظ کے بعد عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا ذکر شروع ہورہا ہے ،جس میں سب سے پہلے میراث میں ان کے حقوق کی نشان دہی کی گئی ہے۔
اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی سماج کے کمزور طبقے پر خصوصی عنایت فرمائی ۔ جن میں غلام، یتیم اور عورت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسلام نے سماج میں موجود بہت سی رائج رسوم و رواج کو مٹایا اور عورت کو انسان ہونے کے ناطے تمام حقوق عطافرمائے۔ قرآن کے مطابق عورت معنوی اعتبار سے مرد ہی کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ مرد و عورت دو فریق نہیں ،بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔ لیکن حقوق و فرائض متعین کرنے کے سلسلے میں اسلام نے مساوات کے بجائے عدل کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ مساوات یہ ہے کہ تمام لوگوں کے حقوق و فرائض یکساں ہوں، جب کہ عدل یہ ہے کہ حقوق کی منصفانہ تقسیم ہو اور ہر آدمی کی صلاحیت و لیاقت کے لحاظ سے اس کے فرائض متعین کیے جائیں۔ مرد و عورت کے درمیان جو جسمانی یا صنفی فرق ہے ،یہ فرق کسی صنف کا نقص نہیں ،بلکہ اس کا کمال ہے اور اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریوں اور سماجی سرگرمیوں میں بھی فرق کیا گیا۔ میراث کا قانون بھی اسی اصول پر مبنی ہے۔

اس آیت میں درجہ ذیل نکات قابل غور ہیں:

(1)مختصراً یہ نہیں کہا گیا کہ میراث میں مردوں اور عورتوں دونوںکا حق ہے، بلکہ عورت کے حصہ کی الگ سے مستقل طور پر صراحت کردی گئی۔ کیونکہ دور جاہلیت میں میراث میں عورتوں کا کوئی حصہ نہیں سمجھا جاتا تھا، اس سے اس کی پرزور تردید اور عورتوں کے مستحق وراثت ہونے کی تاکید مقصود ہے۔ مفسر ابوالسعود فرماتے ہیں:
’’احکام میراث میں عورتوں کا تذکرہ ضمناً کرنے کے بجائے، ان کے مستحق میراث ہونے کو اس آیت میں مستقلاً بیان کیا گیا، تاکہ ان کے معاملے میں دلچسپی کا اظہار ہو اور یہ بتا دیا جائے کہ میراث کے استحقاق میں وہ کسی کے ماتحت نہیں ہیں اور زور دار انداز میں عہد جاہلیت کے رواج کی تردید کر دی جائے، اس لیے کہ اہل جاہلیت وراثت میں عورتوں اور بچوں کا حصہ نہیں لگاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم صرف اسے میراث میں حصہ دیں گے جو جنگ اور دفاع کر سکتا ہے۔‘‘
(2) اس آیت سے یہ تصریح کر دی گئی ہے کہ استحقاق میراث کے معاملے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ علامہ ابن کثیرفرماتے ہیں:
’’یعنی اللہ تعالی کے حکم میں سب برابر ہیں۔ اصل وراثت کے معاملے میں ان کے درمیان مساوات ہے۔‘‘
آگے فرماتے ہیں:
’’مشرکین عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی بڑی اولاد کو اس کا مال مل جاتا چھوٹی اولاد اور عورتیں بالکل محروم رہتیں۔ اسلام نے یہ حکم نازل فرما کر سب کی مساویانہ حیثیت قائم کر دی کہ وارث تو سب ہوں گے، خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ بوجہ عقد زوجیت کے ہو یا بوجہ نسبت آزادی ہو، حصہ سب کو ملے گا گو کم ہو یا بیش۔‘‘
(3)یہ صراحت کر دی گئی کہ مال وراثت چاہے زیادہ ہو یا کم ،ہر چیز میں سے دونوں یعنی مرد و عورت کا حصہ ہے۔ اگر صرف مردوں کے استعمال میں آنے والی چیزیں ہوںگی تو انھیں بھی تقسیم کیا جائے گا اور عورتیں ان میں سے حصہ پائیں گی۔ علامہ ابوالسعود فرماتے ہیں:
’’( ممّا قل منہ اور کثر) مال وراثت کم ہو یا زیادہ، کہنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے یہ وہم دور ہو جاتا ہے کہ بعض اموال وراثت بعض وارثوںکے لیے خاص کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً گھوڑے اور آلات جنگ مردوں کے لیے مخصوص کیے جا سکتے تھے، بلکہ یہ کہا گیا کہ وراثت میں چاہے بہت زیادہ مال ہو یا بہت کم، اس میں دونوں فریقوں (یعنی مردوں اور عورتوں) کا حصہ ہے۔‘‘
(4) آخر میں’’ نصیباًمفروضا ‘‘(مقرر حصہ) کہہ کر مزید تاکید کر دی گئی ہے کہ وراثت میں مرد و عورت کا حق اللہ تعالی کی طرف سے طے شدہ ہے۔ کسی کے بھی حصے میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ عربی گرامر کے مطابق نصیب پر دو زبر کا ہونا اختصاص کی وجہ سے یا مصدر کی وجہ سے۔ دونوں صورتوں میں اختصاص مقصود ہے۔ جیسا کہ علامہ زمخشری نے لکھا ہے:
’’نصیباً مفروضاً اختصاص کی وجہ سے منصوب ہے، یعنی وراثت میں مردوں اور عورتوں کے حصے قطعی اور لازمی ہیں، ضروری ہے کہ انھیں ان کے حصے دیے جائیں، کسی کو محروم نہ کیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مصدر تاکیدی ہونے کی وجہ سے منصوب ہو، جس طرح دوسرے مقام پر ’’فریضۃ من اللہ‘‘ منصوب ہے۔ گویا کہا گیا ہے کہ میراث کی تقسیم اللہ تعالی کی جانب سے فرض کردہ ہے‘‘۔
عبدالماجددریا بادی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’نصیباً مفرو ضاً یعنی یہ مورث کی رائے اور اختیار پر موقوف نہیں۔ حصوں کی ہر تقسیم اور ترکہ کا ہر استحقاق شریعت الہی کا مقرر کیا ہوا قانون ہے۔‘‘
اس آیت سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ میراث صرف مردوں کاہی حصہ نہیں ہے ،بلکہ عورت بھی میراث میں پوری طرح سے حصہ دار ہے اور یہ حصہ خود خدائے بالاو برتر نے مقرر کر رکھا ہے۔

اسلام میں عورت کا حق میراث

اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے اس دور میں عورت کو میراث میں حق دیا، جب عورت کو بھیڑ بکرے سے زیادہ نہیںسمجھا جاتا تھا،اور جب وہ خود سامان وراثت کی طرح تقسیم ہوتی تھی۔ صرف عرب میں ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں میں بھی عورت حق وراثت سے محروم رکھی گئی تھی۔ ابن زید فرماتے ہیں:
’’ عہد جاہلیت میں عورتیں میراث میں حصہ نہیں پاتی تھیں، اسی طرح چھوٹا بچہ مستحق میراث نہ تھا۔‘‘
یہودیت اور ہندومت میں وراثت کا حق دار صرف بڑا لڑکا ہوتا تھا، بیوہ اور لڑکیاں اس کے رحم و کرم پر ہوتی تھیں ،لڑکا نہ ہوتا تب لڑکیاں میراث پاتی تھیں۔
رومی اور یونانی تہذیبوں میں ابتداء میں وراثت کو وصیت سے متعلق کیا گیا تھا، بعد میں قرابت کو اس کی بنیاد بنایا گیا تو قریب ترین وارث کی موجودگی میں دور کے رشتے داروں کو محروم کر دیا گیا اور اس بنیاد پر میاں بیوی میںسے ہر ایک، دوسرے کی میراث سے محروم کر دیا گیا ۔
یونانی تہذیب میں بھی اولاد نرینہ کی موجودگی میں لڑکیاں میراث میں حصہ نہ پاتی تھیں، اس کی عدم موجودگی میں ہی وہ وراثت کی حق دار ہوتی تھیں۔
اسلام نے عورتوں کو سماج میں مردوں کے مساوی حیثیت دی، اپنی جائداد اور ملکیت کا مالک بنایا، وراثت کا مستحق قرار دیا، لیکن موجودہ دور کے ہندوستانی معاشرے میں مسلم طبقے جن بہت سے اسلامی قوانین کو پوری طرح نظر انداز کیے ہوئے ہیں ان میں سے ایک عورتوں کو حق میراث نہ دینا ہے۔ عورتوں کو وراثت میں سے حصہ نہ دینا تقریباً ہندوستان میں ہر جگہ رائج ہے ، چاہے وہ گائوں ہو یا شہر، شمال ہو یا جنوب، مشرق ہو یا مغرب، پڑا لکھا طبقہ ہو یا ان پڑھ۔ وراثت نہ دینے کے پیچھے جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ کہ بیٹی جہیز اور دوسرے ساز و سامان کی شکل میں اپنا حق پا چکی ہے، اب اگر وہ اپنا حق میراث لے لے گی تو ہمیشہ کے لیے اس کے مائیکے کا دروازہ بند ہوجائے گا۔یہ نکتہ سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اسلام جس طرح مرد کے حق وراثت کو مقرر کرتا ہے بالکل اسی طرح اس نے عورت کے لئے حق وراثت مقرر کیا ہے۔ عورت کو اپنے باپ، شوہر، اولاد اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے وراثت ملے گی۔اس آیت سے یہی پیغام ہمیں ملتا ہے ۔ اس پیغام کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر سماج میں رائج کرنے اور عوام کو آگاہ و بیدار کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !وما علینا الا البلاغ

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


وراثت نہ دینے کے پیچھے جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ کہ بیٹی جہیز اور دوسرے ساز و سامان کی شکل میں اپنا حق پا چکی ہے، اب اگر وہ اپنا حق میراث لے لے گی تو ہمیشہ کے لیے اس کے مائیکے کا دروازہ بند ہوجائے گا۔یہ نکتہ سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اسلام جس طرح مرد کے حق وراثت کو مقرر کرتا ہے بالکل اسی طرح اس نے عورت کے لئے حق وراثت مقرر کیا ہے۔ عورت کو اپنے باپ، شوہر، اولاد اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے وراثت ملے گی۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴