جنوری ۲۰۲۴

’’فاطمہ ! تم نے ایک بات نوٹ کی کہ کافی دنوں سے رابعہ مختلف برتاؤ کر رہی ہے ؟ وہ کلاس میں لیکچرزکے دوران کسی سے چیٹنگ کرنے میں مصروف رہتی ہے اور ابھی بریک میں بھی پچھلے دس منٹ سے آخری بنچ سنبھالے فون میں مسلسل بھنبھنا رہی ہے۔‘‘ جواباً فاطمہ کی خاموشی و نظر اندازی نے عائزہ کو بے چین کردیا۔ وہ نئے سرے سے گویا ہوئی۔
’’ دیکھو فاطمہ ! مجھے تو لگتا ہے کہ یہ کوئی اور ہی معاملہ ہے۔ تم سمجھ رہی ہو ناں ؟ پیچھے مڑ کر دیکھو تو سہی کہ کیسے رابعہ …‘‘
’’پلیز عائزہ! کسی کی ذاتیات میں دخل اندازی کرنا بری بات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ معاملہ تمہارے قیاس کے بر عکس ہو۔ ہر کسی کی ٹوہ میں لگے رہنا کب چھوڑو گی دوست؟ ‘‘ فاطمہ نرمی سے کہہ کر دوبارہ نوٹس بنانے میں مگن ہو گئی۔
’’ محترمہ! اسے دخل اندازی نہیں بلکہ جاسوسی کہتے ہیں۔ اب دیکھنا اگلے دو دن کے اندر اندر میں اپنے اس قیاس کو نہ صرف حقیقت ثابت کروں گی، بلکہ سارے کلاس میں تشہیر بھی کروں گی ۔ اگر اس معاملے کہ تہہ تک نہ پہنچی تو میرا نام بھی کیپٹن حمید نہیں۔‘‘عائزہ تو اپنی بات سنا کر چلی گئی مگر جاسوسی؟ کیا آپ کا ذہن بھی فاطمہ کی طرح لفظ جاسوسی پر اٹک گیا؟ اوہ ! یہ وہی تجسس تو نہیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے؟
تجسس کے معنی جستجو ، تحقیق ، کھوج ، تلاش اور کرید کے ہیں۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 12 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَلَاتَجَسّسُوا
( اور ٹوہ میں نہ لگو۔ )
یعنی تلاش اس بات کی ہو کہ دوسروں کی کوئی خامی ہاتھ لگ جائے یا پھر کسی ذاتی بات کی گہرائی تک رسائی حاصل ہو اورسینے میں گویا ٹھنڈک پڑ جائے۔ کبھی بغض و عناد کی شدت اس کا باعث ہوتی ہے کہ کوئی ایسی بات ہاتھ لگے جس کی تشہیر کر کے مخالف کو رسوا کیا جا سکے۔ صاحبِ تدبر کے مطابق عصرِ حاضر میں اس تجسس نے ایک پیشے کی شکل اختیار کر لی ہے، جس کو جدید اخبار نویسی نے بڑی ترقی دی ہے۔ بعض اخبار نویس رات دن کسی نہ کسی اسکینڈل کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں ،اور ان میں سب سے زیادہ ہنر مند و شاطر وہ اخبار نویس سمجھا جاتا ہے جو کسی خاص شخصیت کی ذاتی زندگی سے متعلق کوئی ایسا اسکینڈل ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو جائے، جس سے ان کا اخبار ہاتھوں ہاتھ بکے۔
حضرت معاویہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ تم اگر لوگوں کی خفیہ باتوں کی ٹوہ میں لگو گے تو ان کو برباد کر دو گے یا قریب ہے کہ ان کو برباد کردو۔‘‘
اس طرح کا تجسس ظاہر ہے اس اخوت و ہمدردی کے بالکل منافی ہے، جو اسلامی معاشرے کی اساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ ایمان کو تجسس میں پڑنے سے روکا گیا ہے۔ ایک حدیث میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ حکمران جب لوگوں کے اندر شبہات کے اثرات تلاش کرنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔‘‘
اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ حالات ہیں جن میں بخشش کی فی الحقیقت ضرورت ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے رویے میں بگاڑ کے علامات نمایاں ہو رہے ہوں، اور اس کے متعلق یہ اندیشہ ہو کہ وہ کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھے گا تو حکومت اس کے حالات کی تحقیق کر سکتی ہے۔ دوسری مثال یہ کہ کسی شادی بیاہ کے پیغام پر یا پھر کاروباری معاملہ کرنا چاہے تو وہ اپنے اطمینان کے لیے حالات کی تحقیق کر سکتا ہے۔ وہ تجسس جو ایک مسلمان بھائی کا اپنے دینی بھائی کے تئیں ہو اور اس مقصد سے ہو کہ وہ کٹھن ایام میں اس کا ہاتھ بٹا سکے تو یہ سراسر نیکی کا کام ہے۔
اب ہمارے سامنے دوراہا ہے۔ ایک وہ جس کے راہی کو اللہ تعالیٰ و رسولﷺ ناپسند قرار دیتے ہیں اور دوسرا وہ نیک عمل جس سے درجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی ذات کے لیے کس راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔

٭ ٭ ٭


 صاحبِ تدبر کے مطابق عصرِ حاضر میں اس تجسس نے ایک پیشے کی شکل اختیار کر لی ہے، جس کو جدید اخبار نویسی نے بڑی ترقی دی ہے۔ بعض اخبار نویس رات دن کسی نہ کسی اسکینڈل کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں ،اور ان میں سب سے زیادہ ہنر مند و شاطر وہ اخبار نویس سمجھا جاتا ہے جو کسی خاص شخصیت کی ذاتی زندگی سے متعلق کوئی ایسا اسکینڈل ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو جائے، جس سے ان کا اخبار ہاتھوں ہاتھ بکے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴