جنوری ۲۰۲۴

اسرائیل اور کئی عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ستمبر 2020 ءمیں ابراہیم اکارڈ قائم ہوا۔ اسے ابراہیمی معاہدے کا نام دیا گیا۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (UAE)،بحرین،مراکش کے درمیان کیا گیا یہ معاہدہ ایک عام اعلامیہ پر مشتمل تھا۔اس کا نام یہودیوں اور عربوں کے مشترکہ جداکبر، بائبل کے ابراہیم علیہ السلام کے نام پر بھائی چارگی کے حوالے سے دیا گیا ۔ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دیے جانے کا تعلق مغرب میں پروٹیسٹنٹ اور اشتراکیت پسند حلقوں کی پیدا کردہ اصطلاح ابراہیمی مذاہب سے ہے ،جو تین توحیدی مذاہب کو بیان کرنے کے لیے ہے ،حالانکہ اس میں مسلمانوں کو شامل کرنا غلطی ہے، کیونکہ قرآنی اور اسلامی تعلیم و روایات میں ابراہیم علیہ السلام کا مقام اور منصب غیر معمولی ہے ،انھیں ایک بڑے مقام اور منصب پر فائزکیا گیا ہے، لیکن ’’ابراہیمی مذاہب‘‘ کی اصطلاح جو حالیہ مغرب کی ایجاد کردہ ہے، وہ غلط ہے، یہ ایک نئی اصطلاح ہے جو عربی کے علاوہ عبرانی میں بھی غیرمانوس ہے۔
یہاں ہم دیکھیں گے کہ اس معاہدے میں ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ صرف اس لیے دیا گیا ہے یادیا جا رہا ہے کہ یورپ کی پروردہ صہیونیت کو فلسطین کی سرزمین پر قابض کر کے اسرائیل کی شکل میں ایک ریاست قائم کی جائے، نیز اسے یہودیوں کی نو آبادی میں تبدیل کرنے کا کام انجام دیا جائے ، اور اسے مذہبی طور پر دکھانے کی خاطر دنیا کے سامنے یہ باور کیا جائے کہ یہ ایک مذہبی عمل ہے اور فلسطینیوں اور عربوں کی کشمکش مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف ایک مذہبی لڑائی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کے قبضے کے خلاف لڑائی میں مقامی عیسائی بھی مسلمانوں کےساتھ رہے ہیں ،اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صہیونیت کے قیام سے دوسری جنگ عظیم تک اصلاح پسند یہودیت بھی صہیونیت کے خلاف رہی ہے۔ صیہونی نو آباد یاتی کوششوں کو ایک مذہبی لڑائی کا نام دینے کے نتیجے میں یہ تمام چیزیں سامنے آرہی ہیں کہ اس لڑائی کے علی ا لرغم ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دے کر ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان حقیقی اخوت و محبت قائم کرنے کی یہ کوشش درحقیقت کیا ہے ؟فلسطین کے الجھے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دے کر جو باتیں اس معاہدے میں طے کی گئی ہیں، وہ خود اس بات کی نشان دہی کر رہی ہیں کہ ان کے دل میں کیا ہے؟ جبکہ فلسطینیوں کی مذہبی روایات ان کی انسانی اور مذہبی حیثیت کو تسلیم کیے بغیر جو ظلم و زیادتی ان پر کی جا رہی ہے، تا حال جاری و ساری ہے۔ اس وقت جو دل دوز مناظر دنیا نے دیکھے ،ایسی صورت میں تینوں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش اور پرکشش باتیں کس قدر حقیقت کے برعکس ہیں ؟انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا جھگڑا جو زمینی قبضے پر مبنی ہے، اور اسرائیلیوں کو فلسطین کی سرزمین پر لا کر غیر قانونی طور پر قبضہ دلانے کا ہے، اس تناظر میں ابراہیم اکارڈ مکمل طور پر ناکام رہا۔ الجزیرہ نیوز کےمطابق جس طرح اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و زیادتی اور الاقصی مسجد پر ریڈ کر رہا ہے، اس سے یہ بات ثابت ہےکہ یہ معاہدہ مکمل طور پر ناکام ہے۔ اس معاہدے کا مقصد مشرق وسطٰی میں امن کی بحالی تھا، لیکن اس وقت یہاں امن کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں ۔چار ممالک کے ساتھ یہ سمجھوتا جس میں یونائٹیڈ عرب امارات،بحرین، سوڈان اور موروکو کو شامل کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں پوری دنیا میں پرزور طریقے سے یہ بات پھیلائی گئی کہ اس سے امن کی بحالی ہوگی ۔اسرائیل کی نوآبادی کا پھیلاؤ فلسطین میں رکے گا، باہر سے لوگوں کو لا کر یہاں بسانے کا کام بند ہوگا، ساتھ ہی ان ممالک میں معاشی ترقی کے دروازے کھلیں گے، لیکن یہ خام خیالی ہی رہی کیونکہ اس معاہدے سے فلسطین کے مسئلے کے حل کو باہر رکھا گیا ۔ اسے صرف متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بڑھا کر اس کے ساتھ اسرائیل کے ایک بڑے بزنس پارٹنر کے طور پر شامل ہونے نیز اسرائیلی کمپنیوں کے ان ممالک میں سرمایہ کاری کے کام میں اضافہ ہوا ۔ڈرون اور ملٹری کے سامان کی خرید و فروخت کا کام بھی اس کے ذریعے ہوا ۔ اسرائیل کا سمجھوتا بحرین سے بھی ہوا اور اب تک بحرین میں 220 ملین ڈالر کاسامان وہاں کی مارکیٹ میں پہنچ چکا ہے ، البتہ اس معاہدے میں شامل سوڈان اور مراکش سے کوئی بزنس نہیں ہو سکا ہے ،تاہم یہ ممکن ہے کہ ان ممالک کو اس معاہدے سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہو، مثلاً امریکہ کا سوڈان پر یہ الزام تھا کہ یہ تشدد کو پھیلاتا ہے، ممکن ہے کہ اس سمجھوتے کے بعد سوڈان اس الزام سے بری ہو گیا ہو اور اب اسے ورلڈ بینک سے لون بھی حاصل ہو سکے۔
مراکش بھی اس معاہدے کا شراکت دار ہے۔ اس ملک کو مغربی سہارا میں بے شمار مسائل کا سامنا تھا ،ممکن ہے کہ اس معاہدے کے بعد اسے اس مشکل سے نجات حاصل ہو سکے ۔ ان تمام ممالک کو بہرحال کوئی نہ کوئی فائدہ دنیاوی اعتبار سے مل جائے گا، لیکن اس ابراہیمی معاہدے سے فلسطین کے حالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔ وہاں نسل کشی کا عمل ایک طے شدہ انداز سے جاری ہے ،ساتھ ہی مسلم اور غیر یہودی تفریق وہاں جاری ہے۔
غرض یہ کہ یہ ابراہیمی معاہدہ بن یامن نیتن یاہو کے آنے کے ایک سال قبل سائن ہوا تھا، اور یہ اس خطے میں امن کی بحالی، جنگ سے نجات اور غیر قانونی طور پر زمینی قبضہ کو روکنے کے لیے قائم ہوا تھا، لوگوں کو اپنے مذہب پر پابندی سے عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو اور پورے علاقے میں امن و امان قائم رہے، اس پر اب پانی پھر گیا ہے۔ یونائٹیڈعرب امارات کے لیے بھی اب اس اسرائیلی سرکار سے ڈیل کرنا مشکل ہو رہا ہے، یو اے ای کی سوشیالوجسٹ میرا الحسن -جو کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک ریسرچر ہیں- کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بزنس مین کے لیے خلیج ممالک اب ایک نئی مارکیٹ بن چکے ہیں، بہت سے اسرائیلی اپنی خراب حالت کی وجہ سے وہاں نوکری کرنے کے لیے بھی آرہے ہیں ،لیکن اس سے یو اے ای کو کیا فائدہ ہوگا؟
اگرچہ مقبوضہ فلسطین سے باہر آباد یہودی اور مسلمانوں کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں پایا جاتا ،وہاں مسلمان، یہودی، عیسائی صدیوں سے ساتھ رہ رہے ہیں،ان کے درمیان جو تعلقات ہیں وہ سرزمین فلسطین پر بسنے والے فلسطینیوں سے بہت مختلف ہیں ،فلسطین کے خطے کی نو آبادیاتی حقیقت کو نظر انداز کر کے قبضہ کرنے کی سازش اور وہاں ہونے والے ظلم و ستم کو جائز قرار دینے کے بعد اس ابراہیمی معاہدے میں ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دے کر معاملات کو کچھ کا کچھ دکھانے کی کوشش یا سازش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔زمینی حقیقت یہودیوں یا صہیونیوں کے پروپگنڈے سے کبھی بدل نہیں سکتی۔ باہر سے آکر فلسطین پر غاصبانہ طور پر قابض ہو کر نو آبادیت پسند یہودیوں کو مقامی باشندوں کا درجہ دلانا اور صدیوں پرانا خواب شرمندۂ تعبیر ہونا ناممکن ہے ۔چند عرب حکام کے ذریعے صہیونیت کو قبول کر لینے سے فلسطین اپنی تحریک کو کبھی ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، وہ اپنی سرزمین پر صہیونی قبضے کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے، وہ اس راہ میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ڈٹے رہنے اور اپنی جان و مال، اپنی اولاد کو قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں گے،اور بلآخر کامیابی ان کا مقدر ہوگی۔
بقول شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ:

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

٭ ٭ ٭


 فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا جھگڑا جو زمینی قبضے پر مبنی ہے، اور اسرائیلیوں کو فلسطین کی سرزمین پر لا کر غیر قانونی طور پر قبضہ دلانے کا ہے، اس تناظر میں ابراہیم اکارڈ مکمل طور پر ناکام رہا۔ الجزیرہ نیوز کےمطابق جس طرح اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و زیادتی اور الاقصی مسجد پر ریڈ کر رہا ہے، اس سے یہ بات ثابت ہےکہ یہ معاہدہ مکمل طور پر ناکام ہے۔ اس معاہدے کا مقصد مشرق وسطٰی میں امن کی بحالی تھا، لیکن اس وقت یہاں امن کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴