جنوری ۲۰۲۴

اللہ نے جب انسان کو بنایا تو اسے اشرف المخلوقات کہا گیا۔مطلب سارے مخلوقات میں سب سے اعلی ٰمخلوق، لیکن ہم نے اس مخلوق کو بیماریوں کا ڈھیر بنادیا۔ جب ہم ایک بے جان گاڑی کی غذا پٹرول میں پانی ملا کر اسے نقصان پہنچنے کے اندیشے سے واقف ہیں اور ایسی حماقت کو حماقت ہی سمجھتے ہیں، لیکن اپنی زندگی کی گاڑی کی غذا میں ڈھیروں فاسٹ فوڈ اور بے شمار میٹھے پکوانوں کی صورت میں مزے سے غلاظت ملا کر کھانے کے نقصان کو جاننے کے باوجود بھی خود کو روک نہیں پاتے۔ اب سوال یہ ہےکہ کھانے سے مینٹل ہیلتھ کا کیا تعلق؟
بہت میٹھا اور فاسٹ فوڈ کھانے کی وجہ سے ہمارے جسم میں شوگر کا لیول بڑھنے لگتا ہے۔ اور Nutrition level کم ہوتا ہے۔ پیٹ بھرا لگتا ہے،لیکن باڈی کو پراپر Nutrition نہیں مل پاتا، کیونکہ ہماری باڈی میں Carbs,Protine,Good fat,Minerlas,Fiber کی ضرورت ہوتی ہے۔ہماری باڈی کو نہیں پتہ ہوتا کہ ہم روٹی کھارہےہیں یا پیزا، لیکن وہ یہ جانتا ہےکہ اسے یہ پانچ چیزیں مل رہی ہیں یا نہیں؟ جو کہ فاسٹ فوڈ میں نہیں پائی جاتیں، جس کی وجہ سے باڈی ایموشنل ڈیمیج کا شکار ہوتی ہے۔
ہم جو کھانا کھاتے ہیں وہ Glucose کی صورت میں ہمیں energy دیتا ہے۔ جب ہم اپنی بھوک سے زیادہ کھانا کھاتے ہیں، تو اس کی وجہ سے ہماری باڈی میں Glucose بڑھ جاتا ہے اور وہ ہمارے دماغ کو دھندلا کردیتا ہے۔ ہماری Energy اس کھانے کو Digest کرنے میں ہی لگ جاتی ہے، جس کی وجہ سے بلاوجہ تھکن محسوس کرنا ، نیند آنا اورسستی وغیرہ محسوس ہوتی ہے، اور ایسی حالت میں کوئی کام ہم سے نہیں ہوتا۔
اسی طرح جب ہم کھانا کم کھاتے ہیںتو وہ ہماری باڈی میں Glucose کم کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری Energy بھی کم ہونے لگتی ہے۔ اس کا اثر برتاؤ میں چڑچڑاپن ، غصہ ، بے صبری اور ذہنی و جسمانی کمزوری، چکر جیسی بیماریوںکی شکل میں ہوتاہے۔
پھر آتی ہے دھوپ، وٹامن ڈی اور ذہن کو لگنے والی وہ تازہ ہوا۔ جیسے پلانٹ کو سورج کی روشنی Chlorophyll کی صورت میں غذا ملتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح اللہ نے انسان کے لیے بھی اس میں غذا رکھی ہے۔ ذہن کے کھلنے کی غذا،لیکن جس طرح ہم پودے کو فلیٹس کے کمرے میں گملے میں لگاکر اس پر پھل اور پھول اگنے کا لاحاصل انتظار نہیں کرتے ہیں، لیکن ان ہی کمروں میں پورا دن گزار کر ہم اپنی ذہنی صحت و توانائی بڑھ جانے کے لاحاصل انتظارمیں اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔
پانی کی ضرورت ساری جان دار مخلوق میں سب سےزیادہ انسانوں کو ہوتی ہے، کیونکہ انسان کا جسم %71 پانی سے بنا ہے اور اس کے کم ہونے کی صورت میں تھکاوٹ، پیروں میں درد ، جوائنٹ پین جیسی بیماریاں ہوتی ہیں۔ اسی لیے ڈاکٹر دن میں سے آٹھ سے دس گلاس پانی پینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مینٹل ہیلتھ کو مضبوط کرنے کے لیے پانی کی ضرورت اس لیے ہوگی کہ درد سے لبالب جسم کی ذہنی صحت بھی اس سے متاثر ہوئےبغیر نہیں رہ سکتی، اور پھر کئی طرح کی Disease کا ہم شکار ہوتےہے۔ dis ease مطلب کیا؟ اگر ہم at ease نہیں ہیں،سکون میں نہیں ہیں،تو پھر ہم dis ease ہوتے ہیں،مطلب بیماریوں کا مجموعہ۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں مال کی کمی ، اولاد ، مفلسی اور بھوک سے آزماؤں گا، لیکن اس کے بدلے اس سے مقابلہ کرنے کے لیے دو ہتھیار بھی دینے کا وعدہ کیا۔صبر و نماز۔یہ دو ایسی کنجیاں ہیں جو ہمیں ہر مصیبت ، پریشانی اور مجبور حالت میں ٹوٹنے سے محفوظ رکھتی ہیں، لیکن کیسے؟
صبرکا مطلب کیا ہے؟ کبھی سوچا ہے آپ نے؟اردو میں صبر کا معنی ہے روکنا یا باندھنا۔ جب حالت ہمارے ہاتھ سے نکل گئی تب بھی خود کو اللہ کی رسی سے باندھے رکھنا، اپنے جذبات کو روکے رکھنا۔ منفی سوچ سے، مایوسی کی باتوں سے، ناشکری کے لہجے سے،اس کا نام صبر ہے،اور نماز، وہ کیا ہے؟
اللہ سے تعلق کا بہترین ذریعہ۔ مطلب اللہ سےذاتی تعلق مضبوط کرنا۔ پھر جب صبر آجائے، جذبات پر قابوہوجائے،دل اس امید سے لب ریز ہوجائے کہ اللہ بہترین وقت بھی جلد لائے گا، تب تک آپ کو ان دو کنجیوں اور دو ہتھیاروں کا بہترین استعمال کرنا ہے۔
وقت کا استعمال صحیح نہ کرنا اور عین وقت پر پریشانی کا سامنا کرنا بھی مینٹل ہیلتھ کے لیے پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہاں پر ہمارا نظریہ عین وقت پر کام کرنے کا بنتا جارہا ہے ۔ہر کسی کو خود سے یہی شکایت ہےکہ وہ Time mangement ٹھیک سے نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے کئی لیکچرز ہم یوٹیوب پر سنتے گزار دیتے ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ Time manage ہوتا کیاہے؟ آپ کے پاس کتنا وقت ہے؟ دن میں چوبیس گھنٹے۔ آپ کی نظر میں جو بھی کامیاب شخص ہے،اس کی زندگی میں ایک دن میں کتنے گھنٹے ہیں؟ چالیس گھنٹے ؟نہیں، پچاس گھنٹے؟کیا ایسا ہے؟نہیں ناں! ہم سب کے ساتھ اللہ نے برابری کا معاملہ کیا ہے، سب کو برابر وقت دیا ہے،نہ ایک لمحہ زیادہ ،نہ ایک لمحہ کم۔ پھر کیا وجہ ہےکہ وہ کامیاب ہورہے ہیں اور ہم ناکام؟ اس کی وجہ جاننے کے لیے اس کتاب کو کھولنا ہوگا جس میں ہر مرض کا علاج بتایا گیا ہے۔کیا کہا ہے اس میں؟
’’اور اللہ نے رات کو آرام اور دن کو معاش کا وقت بنایا ہے۔‘‘
ہم نے کیا بنایا اپنے دن اور رات کو؟بالکل الٹ۔ پھر جو کام جس وقت کرنا ہے، اس وقت نہ ہو تو کام کا اثر بھی الٹ ہونے لگتا ہے۔اللہ نے صبح کے کاموں میں برکت رکھی ہے اور رات میں سکون۔
ایک اور مسئلہ جو ہم فیس کرتے ہیں،وہ Poor time management ہے۔ہمیں exactly پتہ نہیں ہوتا کہ ہمیں کل کیا کام کرنا ہے؟ہماری ڈائریWhat to do next day? کے کالم سے خالی ہوتی ہے۔ آپ نے شاید کئی Time tables بنائے ہوں گے، جو کہ کچھ دن کے بعد ضائع ہوگئے۔پھر نئے بنائے پھر وہ بھی کچھ دن بعد ضائع،کیونکہ ہم خود کی نفسیات سے ان جان ہوکر یہ ٹائم ٹیبل تشکیل دیتے ہیں۔ہمارے دن روزانہ الگ الگ ہوتے ہے۔جن میں ہمارے موڈ ،ہمارا وقت اور ہمارے کام، وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔اب اگر ہم کئی دن پہلے بنائی ہوئی ایک سوچ کے حساب سے گزارناچاہیں تو یہ ممکن نہیں ہوتا۔تو ہم اب کیا کریں؟ کیا کبھی بھی Time table بنانا چھوڑدیں؟ نہیں۔ بلکہ آپ اس کا Structure بدل دیں۔
کیسے؟وہ ایسے کہ آپ کی ڈائری ہوگی۔ اس میں تین کالم بنائیںاور اس پر اوپر لکھیںMust,Should,Free۔ پھر رات سونے سے پہلے آپ مَسٹ میں وہ کام لکھیں جو کل بہت ضروری اور روزانہ کرنے کے ہیں۔ جیسے کھانا پکانا، کالج جانا،گھر کا کوئی کام وغیرہ۔ پھر دوسرے کالم میں وہ کام لکھیں جوضروری ہے،جیسے گارڈن میں پانی دینا،الماری ٹھیک کرنا،کسی سے ملاقات وغیرہ۔ پھر تیسرے کالم میں آپ کے فری ٹائم میں کرنے کے کام جیسے کتاب پڑھنا، عیادت کےلیے جانا،سہیلی سے فون کال کرنا وغیرہ۔
صبح اٹھنے کے بعد آپ کے ٹیبل پر رکھی ڈائری میں آج کے دن کا ایک شیڈول طے ہوگا۔ یہ وہ کام ہوتے ہیں جو آپ روزانہ ہی کرتے ہیں ،لیکن وہ آپ کے دماغ میں گڈمڈ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے آپ تناؤ محسوس کرتے ہیں ،جبکہ لکھنے سے آپ کو پتہ ہوتا ہےکہ فلاں کام آج نہیں کرنا ہے، یہ اس دن کے کرنے کاکام ہے۔آج صرف اتنا ہی کرنا ہے جتنا اس ڈائری میں لکھا ہے۔یہ آپ کو ریلیکس اورآپ کے دماغ کوپر سکون رہنے میں مدد دےگا۔
زندگی میں کبھی کبھی ایسے لمحات سے بھی ہمارا سامنا ہوتا ہے، جب ہم چاہ کر بھی حالات کو بدل نہیں سکتے۔ دل چاہتا ہےکہ ہم آنکھ بند کریں اور جب کھولیں تب سب پہلے جیسا ہوجائے۔ یہ وقت چلا جائے یا سب بدل جائے، لیکن ہماری ساری خواہشات ساری دعائیں بےسود ہوجاتی ہیں۔ گزرا وقت ، گزرا شحص اور گزری زندگی واپس نہیں آپاتی۔تب ہم اپنے اندر ڈھیروں مایوسی محسوس کرتے ہیں۔ دل کہیں نہیں لگتا۔ تب ہم ایسا کیا کریں کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے؟ہم پرسکون ہوجائیں۔اس کا علاج ہم اکثر باہر ڈھونڈتے ہیں۔ ڈھیروں شاپنگ کرکے ، بے تحاشہ پیسا خرچ کرکے، خود کو کاموں میں مصروف کرکےبھی ہم وہ سکون نہیں حاصل کرسکتے ،کیوں؟
کیونکہ ہم باہر کی دنیا کو بدلنا چاہتےہیں۔ہم چاہتے ہیںکہ یہ حالات بدل جائیں۔سب پہلے جیسا ہوجائے۔ہم وہ محسوس کریں جو ہم کبھی کیا کرتے تھے،لیکن ہم وہ کر نہیں پاتے۔اس لیے کہ اس کا علاج دنیا کو بدلنا یا حالت کو بدلنا نہیں ہوتا۔اس کا علاج یہ ہوگا کہ ہم خود کو بدلیں۔خودکی ان نئے حالات سے دوستی کروائیں۔ جب جھکانا نہ آئے تب جھک جائیں،اسی طرح جب سچویشن کو بدلنا نا آئے تب سرینڈر کردینے میں ہی ہماری جیت چھپی ہوتی ہے۔ لیکن کس طرح سرینڈر کریں؟
بہتے آنسوؤں کے ساتھ ، اب کچھ نہیں ہوسکتا، اس لیے جو ہے وہ یہی ہے، اس سوچ کے ساتھ ؟ نہیں، بالکل بھی نہیں ۔ اس کا مطلب خود کو بدلنا نہیں ہوتا۔اس کا مطلب سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے،اور سمجھوتے میں صرف سمجھوتہ ہی ہوتا ہے ،سکون نہیں ملتا۔ پھر ہم کیا کریں؟
اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ اس نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ مطلب ہم ہر وقت کسی نا کسی Struggleمیں رہتے ہیں۔ جب اچھے حالات ہوتے ہیں تب بھی۔ جب برے حالت ہوتے ہیں تب بھی۔ ہم اللہ سے امید کرتے ہیںکہ ہماری زندگی میں اچھا وقت ہمیشہ رہے،لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمیں ہر وقت کے لیے ہر بدلتی حالت کو اس سوچ کے ساتھ قبول کرنا ہےکہ یہ وقت ہمیں کچھ سیکھ اور نیا Experience دینے کےلیے صرف کچھ پل کےلیے دیا گیا ہے۔پھر کچھ اور وقت آئےگا،اور یہ سائیکل چلتا رہتا ہے۔

لوگوں کو اور خود کو کی گئی غلطیوں کے لیے معاف کردیں۔ہم جس دنیا میں بھیجے گئےہیں، یہاں کوئی بھی مکمل نہیں ہے۔ہمارے اطراف کے لوگ اور ہم خود بھی۔ ہم سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، جن کا ہمیں خمیازہ بھگتناپڑتا ہے۔کبھی اپنی تو کبھی دوسروں کی غلطی کی وجہ سے۔ایسی حالت میں کڑھنے، چڑنے، اور ٹینشن لینے کے بجائے معاف کردیا کریں، اور آگے بڑھ جائیں۔ ہم اگر غلطیاں نہیں کرتے تو کبھی زندگی سے کچھ سیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔غلطیاں دراصل ہمیں وہ سبق سکھاتی ہیں جو ہم پھر کبھی بھول نہیں سکتے۔اس لیے زندگی میں کی گئی غلطیوں پرپچھتانے کے بجائے ان سے سیکھ کر آگے بڑھ جائیں۔
ہم مسلمان بناکر بھیجے گئے ہیں۔ہمارا مقصد بہت بڑا ہے۔ہمیں یہ دنیا فتح کرنی ہے،اور سُرخرو ہوکر اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ہم اس دنیا کی معمولی باتوں کو دل سے لگا کر کئی دن بستر میں یا گھر میں غائب دماغ پڑے رہ کر اپنےکئی دن ان حالات میں نہیں گزار سکتے۔ ہمارا وقت محدود ہے اور مقصد بلند ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی مینٹل ہیلتھ کا خیال رکھنا نہ صرف ضروری ہے، بلکہ یہ ہمارا فرض ہےکہ ہم دنیا کو جیتنے کے لیے سب سے پہلے خود کےمسائل حل کریں،کیونکہ اللہ کو ایک کمزور مومن سے زیادہ ایک طاقتور اور مضبوط جسامت و ذہن کا مومن عزیز ہے۔

٭ ٭ ٭


اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ اس نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ مطلب ہم ہر وقت کسی نا کسی Struggle میں رہتے ہیں۔ جب اچھے حالات ہوتے ہیں تب بھی۔ جب برے حالت ہوتے ہیں تب بھی۔ ہم اللہ سے امید کرتے ہیںکہ ہماری زندگی میں اچھا وقت ہمیشہ رہے،لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمیں ہر وقت کے لیے ہر بدلتی حالت کو اس سوچ کے ساتھ قبول کرنا ہےکہ یہ وقت ہمیں کچھ سیکھ اور نیا Experience دینے کےلیے صرف کچھ پل کےلیے دیا گیا ہے۔پھر کچھ اور وقت آئےگا،اور یہ سائیکل چلتا رہتا ہے۔

Comments From Facebook

3 Comments

  1. ماہ رخ

    بہترین تحریر، اس رہنمائی کی ضرورت تھی، جزاک اللہ خیر ھادیہ میگزین، آپکی صورت میں ایک بہترین رہنما ہمارے پاس ہمیشہ دستیاب رہتا ہے جو عورتوں کی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں اور مسائل پر بات کرتا ہے، جہاں سے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی و مدد ملتی ہیں. شکریہ

    Reply
    • اریشہ تقدیس

      شکریہ۔۔

      Reply
    • اریشہ تقدیس

      شکریہ باجی۔۔

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴