جنوری ۲۰۲۴
زمرہ : اکادمیا

ہمارے ملک کی تعلیمی پالیسی رفتہ رفتہ تعلیم کو سرکاری دائرے سے نکال کر پرائیویٹ دائرے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020ءہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں نمایاں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ یہ تبدیلی جہاں طرزِ تعلیم کو ایڈریس کرتی ہے، وہیں تعلیمی شعبے کو بڑی حد تک حکومت کی ذمہ داری سے آزاد کرتی ہے، یعنی اب تعلیمی میدان میں پرائیویٹ اداروں کی ہمت افزائی کی جائے گی۔ اتنا ہی نہیں، غیر ملکی یونیورسٹیوں کو ہمارے ملک میں اپنے کیمپس قائم کرنے کی اجازت بھی دی جائے گی۔ غالباً حکومت ایسا اس لیے کرنا چاہتی ہے کہ تعلیم پر ایک بڑے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومت اس بوجھ کو اٹھانا نہیں چاہتی۔ حالاں کہ دستور ہند کے مطابق چار سال سے چودہ سال تک کے بچوں کی مفت تعلیم کا انتظام حکومت کے ذمہ ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 ءپرائیویٹ اداروں پر شکنجہ کسنے کے بجائے انھیں سہولیات فراہم کرنے کی بات کرتی ہے۔ حکومت کا یہ رویہ جہاں کچھ مثبت پہلو لیے ہوئےہے، وہیں اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں، بالخصوص ان طلبہ کے لیے جن کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سیکنڈری لیول تک کی تعلیم سرکاری اسکولوں کے بجائے پرائیویٹ اسکول زیادہ بہتر دے رہے ہیں۔اب سرکاری اسکولوں کی کیفیت بڑی ابتر ہوتی جارہی ہے۔ غریب خاندان بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کا رخ کررہے ہیں۔ لہٰذا ملت کے سیاسی سربراہوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے، سرکاری اسکول قائم کریں۔ جو اسکول پہلے سے موجود ہیں، ان کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور اسکولوں کی سطح اوپر اٹھائیں۔ یعنی جو اسکول پرائمری تک ہیں، انھیں میٹرک کی اور جو میٹرک تک ہیں انھیں بارہویں کی سطح تک لے جانے کے بارے میں سوچیں۔ مسلم علاقوں میں قائم اسکولوں کے معیار کو بلند کرنے کے لیے حکومت کے علاوہ این جی اوز اور اہل خیر حضرات کا تعاون حاصل کرکے آگے بڑھیں۔( اس پر قدرے تفصیل سے ہم آگے گفتگو کریں گے)
مذکورہ صورت حال کے پیش نظر ملت کے باشعور افراد کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے فوری بعد مسلمانوں نے تعلیمی میدان میں ملی اداروں کے تحت کام یاب کوششیں کی تھیں۔ ان کوششوں کی درخشاں مثالیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ان یونیورسٹیوں کے علاوہ ملی انجمنیں اور اداروں نے مختلف شہروں میں تعلیمی ادارے قائم کیے تھے۔ لیکن ادھر چند برسوں سے تعلیمی میدان میں اجتماعی کوششیں کم زور ہوگئی ہیں۔ اس کے برخلاف پرائیویٹ ٹرسٹ یا سوسائٹی یا خاندانی ٹرسٹ اور سوسائٹی تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کررہے ہیں۔ اکثر ایسے ادارے تجارتی انداز میں تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہمیں ان کی ان خدمات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ لیکن ملت کو اس سوال پر بھی گفتگو کرنی چاہیے کہ اب ملت تعلیمی ادارے قائم کرنے میں کیوں پیچھے ہے؟ گذشتہ دو تین دہائیوں کے دوران ملک بھر میں کوئی ایسا تعلیمی ادارہ قائم نہیں ہوسکا جسے اجتماعی کوششوں کا نتیجہ کہا جاسکے۔ البتہ مسلمانوں کے پرائیویٹ ٹرسٹ اور سوسائٹیوں نے یقینًا بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جو کسی ایک شخصیت یا ایک خاندان کے تصرف میں ہیں۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ تعلیمی ادارے جو ملت کی اجتماعی کوششوں سے قائم ہوئے تھے، ان کا معیار رفتہ رفتہ گرتاجارہا ہے جس کی وجہ سے ان اداروں کا وقار مجروح ہورہا ہے اور سماج میں ان کی افادیت معدوم ہوتی جارہی ہے۔ ایسے اداروں کے معیار کو بلند کرنے کی کوششیں بھی ہونی چاہئیں۔
ہم اس ذیلی عنوان کے تحت ملت اور ملت کے باشعور افراد کو جھنجھوڑنا چاہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہوسکے وہ تعلیمی ٹرسٹ قائم کریں اور ان ٹرسٹوں کے تحت تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لائیں۔ اداروں کا آغاز بنیادی تعلیم (فاؤنڈیشن ایجوکیشن) سے کریں۔ اگر اس کام کو ملت کی طرف سے انجام دینے میں رکاوٹ حائل ہورہی ہو تو ایسے افراد جن کے یہاں دولت کی فراوانی ہے، انھیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ مسلم علاقوں میں کوالٹی اسکول قائم کریں۔ اب بڑی تیزی کے ساتھ بڑے برانڈیڈ اسکولوں کا جال (Chain of schools) بچھایا جارہا ہے۔تعلیم کے میدان میں موجود امکانات چند دنوں تک باقی رہیں گے، اس دوران اگر ہمارے ملی ادارے یا تجارتی ادارے (Commercial establishments)اس موقع کو استعمال نہیں کرتے ہیں تو پھر پانچ دس برسوں میں اس میدان میں بھی بڑے تجارتی ادارے آجائیں گے اور ہماری نسل کی جو حفاظت ممکن تھی، وہ بھی ہمارے ہاتھوں سے جاتی رہے گی۔ اب ملت اور ان کے افراد کو چھوٹے اسکولوں کے علاوہ بڑے اقامتی اسکولوں (Residential Schools) کا پروجیکٹ بھی ضرور بنانا چاہیے۔ اس لیے کہ آج جس طرح سماج کا انداز اور طرز زندگی بدل رہا ہے، اور میاں بیوی دونوں معاشی جدو جہد میں مصروف ہورہے ہیں، بچوں کی تعلیم و تربیت متاثر ہورہی ہے۔ ایسے گھرانے جن میں شوہر اور بیوی دونوں برسر روزگار ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو کسی اقامتی اسکول میں داخل کروائیں۔ اب یہ رجحان مسلمانوں میں بھی بڑھ رہا ہے۔ انھی اقامتی اسکولوں میں ایک قسم ان اسکولوں کی ہے، جنھیں ہم ہفتہ کے دنوں میں رہائشی اسکول (Weekdays residential school ) کہتے ہیں۔ ایسے اسکولوں میں طلبہ پانچ دن رہتے ہیں اور چھٹے و ساتویں دن یعنی ہفتہ اور اتوار کو اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ایسے اسکول شہروں کے قریب قائم ہیں۔ ہفتے کے پانچ دن شوہر اور بیوی روزگار میں مصروف رہتے ہیں۔ ہفتہ اور اتوار چھٹی ہوتی ہے ،لہٰذا بچے گھر آجاتے ہیں اور اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ یہ نظام ہمارے ملک میں بھی آہستہ آہستہ فروغ پارہا ہے۔ اس لیے بڑے شہروں کے قریب اس طرح کے Weekdays residential school کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ ضروری ہے کہ ملت اگلے چند برسوں میں ایسے اسکولوں کو قائم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے۔
عموماً مسلمانوں کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ ملی ادارے مسلمانوں کو تعلیم دینے کے لیے یا ملت کے غریب طبقے کو خواندہ بنانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اب ایک دوسرے انداز سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ اب حکومت تعلیم کے میدان سے اپنا دامن چھڑا رہی ہے، ایسے میں ملک میں آباد پس ماندہ طبقہ تعلیم کہاں حاصل کرے؟ اس خلا کو ملت کے ادارے پُر کریں۔ اگر ہم اپنے بچوں کے علاوہ سماج کے پس ماندہ اور پچھڑے طبقات کے بچوں کی تعلیم کا بھی انتظام کرتے ہیں تو سماج میں ایک مثبت پیغام جائے گا۔ اتنا ہی نہیں، اگر پچھڑے طبقات کے طلبہ ملی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو موجودہ دور میں جو نفرت کی آگ بھڑکائی جارہی ہے، اور ہندو مسلم تفرقے کو بڑھاوا اور غلط فہمیوں کو ہوا دی جارہی ہے، اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں مندرجہ ذیل نکات پر ملت غور کرے :
ملی ادارے اور ملت کے متمول افراد تعلیمی میدان میں پروجیکٹ بنائیں اور تعلیمی میدان میں خدمات کا آغاز کریں۔

وقف کی املاک کو تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے استعمال کیاجائے۔
بڑی مساجد، درگاہوں اور عید گاہوں کے زیر نگرانی تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ درگاہوں کے تحت چلائے جارہے تعلیمی اداروں کی ایک کام یاب مثال گلبرگہ کے خواجہ بندہ نواز ٹرسٹ کی ہے۔چند سال قبل اسی نہج پر اجمیر میں درگاہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے تحت یونیورسٹی کا ایک خاکہ بنایا گیا تھا، لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ملک میں ان دو درگاہوں کے علاوہ اور بھی کئی درگاہیں ہیں جن کی املاک اور آمدنی اتنی زیادہ ہے کہ ان کے ذریعے معیاری اسکولوں کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔
بڑی مساجد میں بچوں کے لیے پلے اسکول اور پرائمری اسکول قائم کیے جاسکتے ہیں۔ بچوں کے لیے جزوقتی مکاتب کا قیام بھی ان مساجد میں ممکن ہے۔
مسلم اکثریتی شہروں کے قریب اقامتی اسکولوں کا قیام عمل میں آئے۔
بڑے مدارس جن کے یہاں انفراسٹرکچر موجود ہے، وہ اپنے مدارس میں دینی درسگاہوں کے ساتھ عصری علوم کے معیاری اسکولوں کا آغاز کریں۔
چوں کہ حکومت اپنا دامن تعلیمی میدان سے چھڑا رہی ہے، اس لیے تعلیم کا حصول مہنگا ہوتا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں تعلیم کا حصول غریب گھرانوں کی دسترس سے باہر ہونے لگے گا۔ ممکن ہے بڑی تعداد میں مسلم بچے یا تو تعلیم حاصل نہیں کریں گے یا پھر بڑی تعداد میں ڈراپ آؤٹ کا شکار ہوں گے۔گذشتہ دنوں’’انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز‘‘(نئی دہلی) کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق مسلمانوں میں ڈراپ آؤٹ طلبہ کا فی صددیگر اقوام اور قومی ریکارڈ سے زیادہ ہے۔ اس لیے ملی اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے طلبہ کے لیے اقامتی اسکولوں کا بندوبست کریں جہاں ان کی تعلیم کا مناسب انتظام ہو۔ ورنہ ڈراپ آؤٹ طلبہ اور ناخواندہ بچوں کی اکثریت گم رہی کے راستے پر پڑ کر چھوٹے بڑے جرائم میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

اساتذہ کی تیاری

ملک میں تعلیم کا منظر نامہ آنے والے برسوں میں بڑی تیزی کے ساتھ بدلنے والا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 ءکے تحت مجوزہ قومی نصاب تعلیم کا خاکہ (National curriculum framework) جسے 6 اپریل 2023 ءکو ملک کے سامنے پیش کیا گیا اور اس پر عوام کی رائے مانگی گئی تھی، اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام میں ایک بڑی تبدیلی ہونے جارہی ہے ۔ مجوزہ قومی نصاب تعلیم کا خاکہ جو تقریباً 678 صفحات پر مشتمل ہے، تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیوں کے علاوہ تدریسی انداز، کلاس روم مینجمنٹ، طلبہ، کمیونٹی، والدین، سماج اور دیگر تعلیمی امور پر اثر انداز ہونے والے عناصر کی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ جہاں یہ خاکہ (فریم ورک) ملک کو تعلیم کے میدان میں بہت تیزی کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لے جانا چاہتا ہے، وہیں اس کا ایک کم زور پہلو یہ ہے کہ فریم ورک میں تجویز کردہ نکات کو موجودہ اسکولوں کی ایک معتدبہ تعداد اس طرح اختیار نہیں کرسکتی جس طرح کیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ پرائیویٹ نظام کے تحت چل رہے اسکولوں میں خدمات انجام دے رہے اساتذہ اس فریم ورک کے شاید 10 سے 20 فی صدحصے کو ہی عمل میں لاسکتے ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں اسکولوں کی درجہ بندی موجودہ درجہ بندی سے زیادہ شدید ہوجائے۔ ان حالات میں جن پرائیویٹ اسکولوں کے پاس تربیت یافتہ اساتذہ ہیں، وہ تو نئے انداز تدریس کو اختیار کرلیں گے لیکن جن کی مالی حیثیت کم زور ہے اور جہاں اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، وہاں نئے فریم ورک کے مطالبات پر عمل آوری مشکل معلوم ہوتی ہے۔ ان حالات میں تعلیم یافتہ طبقے میں بھی اسی طرح کی درجہ بندی وجود میں آنے کا خدشہ ہے، جس طرح کی درجہ بندی ہم اپنے سماج میں دیکھتے ہیں، کوئی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والا ہے تو کوئی دلت۔ یہاں اس بحث سے ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ملت کے وہ اسکول جو غریب طلبہ کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں، نئے طرز تعلیم کو اختیار کرنا ان کے لیے ایک دشوار کن مرحلہ بن سکتا ہے۔
نئے طرز تعلیم کے لیے قومی تعلیمی پالیسی 2020 ءقومی سطح پر اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے ایک مرکز (ادارہ) قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ ویسے ایک ادارہ قومی کونسل برائے ٹیچر ایجوکیشن (National Council for Teacher Education) قائم ہے۔ ہوسکتا ہے حکومت اس کے ذریعے سے ہی مجوزہ کام لے لے۔ مرکزی حکومت کا منصوبہ ہے کہ پورے ملک میں اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے 57 سینٹرز قائم کیے جائیں۔ حکومت کا منصوبہ اب’’بی ایڈ‘‘کو چار سالہ کورس میں تبدیل کرنے کا بھی ہے۔ آئندہ برسوں میں ’’بی ایڈ‘‘ایک پروفیشنل کورس ہوگا، جس میں داخلہ بارہویں کے بعد دیا جائے گا۔ ان چار برسوں میں طلبہ کی ایسی تربیت کی جائے گی کہ وہ موجودہ ڈیجیٹل ورلڈ میں کارگر ثابت ہوں۔
مجوزہ قومی نصاب تعلیم کے خاکے (National curriculum framework) کے تناظر میں اگر ہم اپنے اداروں سے منسلک اساتذہ کا جائزہ لیں تو 80 فی صد اساتذہ میں مطلوبہ اہلیت ناکافی ہوگی، اور نتیجۃً انھیں برخاست کرنا پڑے گا۔ملت کے اکثر اداروں میں ٹیچنگ اسٹاف کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ وہ مجوزہ قومی نصاب تعلیم کا خاکہ کے مطابق بچوں کو تعلیم دینے کے معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ ان کے نزدیک آج بھی تعلیم کا مطلب جوابات کو حفظ کرادینا اور انھیں امتحانات میں جوابی پرچوں پر منتقل کر دینا ہے۔ ان ٹیچروں کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو نہ تو تربیت یافتہ ہے اور نہ ہی اسے اپنے پیشے کے ساتھ جذباتی لگاؤ ہے۔ اساتذہ میں بیش ترخواتین ہوتی ہیں، ان میں سے بڑی تعداد ضرورت مند خواتین کی ہوتی ہے۔ بعض کے گھریلو مسائل ہوتے ہیں، کچھ کے خاوند بے روزگار ہوتے ہیں، کچھ شادیوں کے مسئلے کی شکار رہتی ہیں، ان میں مطلقہ اور بیوہ بھی شامل ہیں۔ ایک استاد جو شدید معاشی، سماجی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو، وہ کس طرح اختراعی انداز میں بچوں کو تعلیم دے پائے گا؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔ ہماری نظر میں تعلیم کے میدان میں ملت کا سب سے اہم مسئلہ اساتذہ کا ہے۔ اسکول کھل جاتے ہیں، انفراسٹرکچر بن جاتا ہے، طلبہ بھی داخلہ لے لیتے ہیں، لیکن جس معیار کے اساتذہ درکار ہیں، وہ دستیاب نہیں ہوتے، اس کی بنیادی وجہ ہے سماج میں معیاری اساتذہ کی قلت۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ قحط الاساتذہ کے اس سنجیدہ مسئلے کی طرف مسلم سماج خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہا ہے۔ صورت حال کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ملت کو چاہیے کہ وہ قابل، تجربہ کار، ہنر مند اساتذہ کی بڑی کھیپ ہر سال تیار کرے اور موجود اساتذہ کی ٹریننگ کا باضابطہ انتظام کرے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل چند تجاویز پر غور کیا جاسکتا ہے:
مسلم سماج معلمی کے پیشے کو ایک معتبر پیشہ سمجھے۔ نوجوان لڑکے و لڑکیاں ٹیچرسزٹریننگ کریں، چار سالہ بی ایڈ کورس کریں، مزید تربیت لیں اور معیاری استاد بننے کی کوشش کریں،تاکہ سماج میں معیاری اساتذہ کا یہ خلا پُر ہوسکے۔
پرائیویٹ ادارے اساتذہ کی تنخواہوں کو معقول بنائیں، تنخواہ کی ادائیگی کے لیے مختلف ذرائع اختیار کیے جاسکتے ہیں، معاشی طور پر اگر ادارہ کم زور ہے تو اسے بہتر بنانے کے لیے عطیات کا بندوبست ہو، بشرطیکہ یہ معاشی کم زوری واقعی ہو نہ کہ مصنوعی۔ بعض ادارے جو بظاہر کم زور محسوس ہوتے ہیں، ان کی بھی آج کل اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے۔ ایسے ادارے چوں کہ پرائیویٹ ٹرسٹ کے تحت ہوتے ہیں، لہٰذا ٹرسٹ کے ذمہ داران، ٹرسٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ اپنے خاندان کے لیے استعمال کرنے کا جواز نکال لیتے ہیں اور اساتذہ کو ان کا پورا حق نہیں دیا جاتا۔ جو اسکول ملی اداروں کے تحت چلتے ہیں، ان اداروں کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کی تنخواہیں معقول کریں، جب یہ ادارے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے تو پھر پرائیویٹ ادارے تنخواہیں بڑھانے پرمجبور ہوجائیں گے۔
ملی اداروں کے تحت چلائے جانے والے اسکول اور پرائیویٹ اسکولوں میں معیاری اساتذہ کو اسپانسر کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں تعلیم کے میدان میں کام کررہی ایک مشہور این جی او ٹی ایف آئی (Teach For India) سے ہمیں ترغیب لینی چاہیے۔ ’’ٹی ایف آئی‘‘ملک بھر میں کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ ایسے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا انتخاب کرتا ہے جو تعلیمی میدان میں محض سماجی جذبے کے تحت اپنی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں۔ ان تعلیم یافتہ مرد و و خواتین کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ٹریننگ کے بعد گورنمنٹ اور بعض کم زور وسائل والے پرائیویٹ اداروں میں قلیل مدت کے لیے ان کا تقرر کیا جاتا ہے۔ اس این جی او میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین اور مرد ہوتے ہیں۔ ایسے نوجوان مرد و خواتین کو ماہانہ وظائف بھی دیے جاتے ہیں جو لگ بھگ 25 ہزار کے قریب ہوتا ہے۔ اس میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ ملازمت کے لیے نہیں، بلکہ غریب طلبہ کی خدمت کے لیے آتے ہیں۔ اس طرح کے ادارے کا ایک خاکہ مضمون نگار نے بھی تیار کیا ہے۔ مختلف دینی و ملی اداروں کو مل کر’’ٹی ایف آئی‘‘کے طرز پر ایک ادارہ ملکی سطح پر قائم کرنا چاہیے۔
ملت کی بے شمار پڑھی لکھی خواتین تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھریلو زندگی میں مصروف ہوجاتی ہیں اور شادی کے بعد اپنا دائرہ کار گھر تک محدود کردیتی ہیں۔ ملت کی ایسی خواتین سے گزارش ہے کہ وہ بنیادی ٹیچرز ٹریننگ حاصل کرکے اپنے گھر سے قریب قائم گورنمنٹ اسکول یا پھر کم وسائل والے پرائیویٹ اسکولوں میں رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ ضروری نہیں کہ وہ دن بھر اسکول میں حاضر رہیں، بلکہ متعینہ وقت کے لیے ایک سے دو گھنٹے یا ایک دو مضامین پڑھانے کے لیے اسکول میں حصہ لے سکتی ہیں۔ بعض خواتین جو برسر روزگار ہیں اگر انھیں ہفتہ یا اتوار کو چھٹی ہوتی ہے، تو ان دنوں میں وہ اسپیشل کلاسوں کا اہتمام کریں۔ ملت میں تعلیم یافتہ لڑکیوں اورخواتین کی اب کمی نہیں ہے۔ ہمیں ان خواتین میں خدمت کے اس رجحان کو بڑھانا ہے۔ اس کی ابتدا وہ خواتین کریں جو مختلف دینی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔
ہمارے ملک میں اس طرح کا ایک نظام ’’ہندوتوا وادی‘‘این جی اوز چلاتے ہیں جنھیں ’’ودیا والنٹیئر‘‘ یعنی ودیا رضاکار کہا جاتا ہے۔ یہ رضاکار 20 سال سے لے کر 70 سال تک کے مرد و خواتین ہوتے ہیں۔ بعض رضاکار تو وہ ہیں جو اسکولوں میں جاکر بچوں کو صرف کہانیاں سناتے ہیں یا انھیں آرٹ و کرافٹ سکھاتے ہیں۔ دینی جماعتوں سے وابستہ افراد جوان و عمر رسیدہ افراد کی اصلاح کے لیے تو فکر مند رہتے ہیں اور اس کے لیے تگ و دو بھی کرتے ہیں لیکن نوخیز نسل جو کہ ان جماعتوں کا اصل ہدف ہونا چاہیے، اور یہ جماعت انھیں اسکولوں میں مل بھی سکتی ہے، اس طرف ان کی توجہ مبذول کیوں نہیں ہوتی؟
اسی نہج پر حکومت ہند نے بھی ایک پروجیکٹ لانچ کیا ہے جس کا نام ہے:

یہ دراصل ایک ویب سائٹ ہے جس میں وہ افراد جو اسکولوں میں پنی مفت خدمات پیش کرنا چاہتے ہیں، ان کا ڈیٹا محفوظ کیا جاتا ہے اور اسی ویب سائٹ میں وہ اسکول بھی اپنی تفصیلات درج کرتے ہیں ،جنھیں انسانی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ویب سائٹ خدمت پیش کرنے والے اور ان سے استفادہ کرنے والوں کے درمیان گویا ایک پل کی طرح ہے۔
ملی اداروں کو چاہیے کہ وہ ہر ریاست میں اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے ایک ادارہ قائم کریں۔ اس ادارے میں استاذ از خود فیس ادا کرکے ٹریننگ حاصل کرے یا پھر اسکول اسپانسر کرکے ٹریننگ میں ان کی مدد کرے۔ اس طرح کا ٹریننگ سینٹر ’’ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ‘‘کے پیش نظر ہے۔ دیگر ادارے’’ایچ ای بی‘‘کا تعاون کرسکتے ہیں۔ فی الوقت ’’ایچ ای بی‘‘آن لائن اور آف لائن ٹریننگ کا اہتمام کررہا ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


ہمارے ملک میں اس طرح کا ایک نظام ’’ہندوتوا وادی‘‘این جی اوز چلاتے ہیں جنھیں ’’ودیا والنٹیئر‘‘ یعنی ودیا رضاکار کہا جاتا ہے۔ یہ رضاکار 20 سال سے لے کر 70 سال تک کے مرد و خواتین ہوتے ہیں۔ بعض رضاکار تو وہ ہیں جو اسکولوں میں جاکر بچوں کو صرف کہانیاں سناتے ہیں یا انھیں آرٹ و کرافٹ سکھاتے ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے