جنوری ۲۰۲۴

برس رہی ہے جو آسمانوں سے برق بن بن عتاب آتش
نہ جانے کتنے بدن جلائے
نہ جانے کتنے ذہن جھلس کر دہکتے آتش فشاں کی زد میں
ڈھیر راکھ کا قرار پائیں
نہ جانے کتنی جواں رگوں سے لہو نچوڑے
تمام جسموں پر آگ بر سے
تمام جانیں فرار پائیں
یہ آگ وہ ہے جو ہولے ہولے
کتاب ، کاغذ ، جلا رہی ہے
تمام اعلی مصنفوں کے
قلم سے سیا ہی چرارہی ہے
دھیرے دھیرے یہ توذہنوں پر اپنا قبضہ جمارہی ہے
تمہیں پتہ ہے؟
تم آنے والی اگلی نسلوں کوکھور ہے ہو
جو بیج آج تم بو رہے ہو
تمہیں پتہ ہے؟
یہیں سے پھوٹیں گی ننھی کلیاں
انھیں میں پھل ہوں گے پھول ہوں گے
یہی صحافت کی اگلی پیڑھی مقننہ کا اصول ہوں گے
یہی سیاست کے سر چڑھیں گے
اور اس کی آنکھوں کا شول ہوں گے
مگر تمھارے لیے تو یہ سب
فقط مقدر کا کھیل ہوگا
تمھارے ہاتھوں میں نو جوانوں کے مستقبل کی ڈور ہے
اور تم ان کو اپنی مرضی سے جیسے چاہے چلا رہے ہو
قلم سے لے کر ذہن تلک کو خریدتے ہو
خرید کر تم
’’ لفظوں کا لہو‘‘ بہار ہے ہو

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

2 Comments

  1. سعدیہ خانم

    ماشاء اللہ بہت خوب

    Reply
  2. سعدیہ خانم

    Mashallah subhanallah

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴