جنوری ۲۰۲۴

ملکی منظرنامہ

خاتون ریسلر کا استعفیٰ

ملک کی 6 ریسلر خواتین کی جانب سے ریسلر فیڈریشن آف انڈیا (WFI) کے سابق چیف اور اتر پردیش کے قیصر گنج حلقے سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن سنگھ کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزام کو کئی مہینے بیت چکے ہیں۔مگر کارروائی کے نام پرایسا کچھ نہیں ہو سکا،جسے ان ریسلر خواتین کےلیے منصفانہ اقدام کہا جا سکے۔ ’’بیٹی بچاؤ،بیٹی پڑھاؤ‘‘کا نعرہ دینے والی بی جے پی حکومت نے ان الزامات کی نہ ہی جانچ کروائی نہ ہی اپنے رکن پارلیمنٹ کے خلاف کوئی ایکشن لیا،بلکہ خاموش تماشائی بن کر یوں کہا جا سکتا ہے ملزم رکن پارلیمنٹ کو ایک گونہ تحفظ فراہم کیا۔ خاتون ریسلر ساکشی ملک نے کئی کھلاڑیوں کے ساتھ 40 دنوں تک دھرنا دیا تھا،مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔
گوکہ برج بھوشن سنگھ پر لگنے والے الزامات کی شکایت پردہلی کی عدالت میں سماعت جاری ہے،لیکن فیصلہ کیا ہوگا؟اس پر خواہ یقینی طور پر کچھ کہا جا سکتا ہو یا نہیں،لیکن موجودہ حکومت میں عدالتی فیصلوں،اور خاص طور ایسے فیصلوں کو جن کا تعلق بلا واسطہ یا بالواسطہ ارباب حکومت سے ہو،دیکھ کر اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ کورٹ کی جانب سے کیا فیصلہ آئے گا۔
اب جب کہ ریسلر فیڈریشن کے چیف کےلیے نئے انتخاب ہوئے،اور اس کے نتائج آئے،جس میں برج بھوشن سنگھ کے قریبی کہے جانے والے سنجے سنگھ کو چیف بنایا گیا،اس سےخاتون ریسلر ساکشی ملک نے دل برداشتہ ہو کر آئندہ ریسلنگ میں ملک کی نمائندگی کرنے سے استعفیٰ دے دیا۔ساکشی نے انتخاب سے پہلے ہی کہا تھا کہ اگلا چیف اگر برج بھوشن سنگھ کا کوئی قریبی ہوا تو وہ آئندہ نہیں کھیلیں گی۔ ساکشی کے استعفے کے بعد اچانک وزارت کھیل نے ریسلنگ فیڈریشن کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے،اور اس کا سبب فیڈریشن کے غیر محتاط اقدامات کو بتایا ہے۔لیکن یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ کیا یہ تعطل واقعی خواتین ریسلرز کے زخموں کے مداوا کےلیے عمل میں آیا ہے یا پردے کے پیچھے کوئی اور کھیل جاری ہے؟جسے جاننے اور سمجھنے کےلیے پردے کے اٹھنے کا انتظار کرنا ہوگا۔

سوالوں سے ڈرنے والے

موجودہ حکومت کے متعدد لیڈران یہ کہتے رہے ہیں کہ جو کچھ آزادی کے بعد پچھلے ستر سالوں میں نہیں ہو سکا،وہ موجودہ حکومت کر کے دکھا رہی ہے۔خواہ کیے جانے والے یہ کام کارنامے نہیں،بلکہ کرتوت کے زمرے میں ہی آتے ہوں،لیکن یہ کہنے میں بہر صورت ارباب اقتدار اور ان کے حاشیہ بردار کہیں نہ کہیں حق بجانب ہیں۔ ویسے موجودہ حکومت شاید ’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘کے اصول پر عمل پیرا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنے ووٹ بینک مستحکم کرنے میں اس نے ملک کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے،اور وہ ملک کی جمہوریت کو کم زور کرنے کے نت نئے اقدامات کر کے اس پر اپنے سخت گیر و تشدد پسند آقاؤں سے جہاں داد وصول کر رہی ہے وہیں اپنےکور چشم عقیدت مندوں سے بھی تالیاں بجوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔
گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں کنستر بم لےکر داخل ہونے والے دہشت گردوں،اور انھیں داخلہ پاس فراہم کرنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سے متعلق پارلیمنٹ میں سوال کیے جانے اور حفاظتی اقدامات میں کوتاہی پر تنقید کی تاب نہ لا کر حزب اقتدار نے جس تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے حزب مخالف کے 146 اراکین پارلیمنٹ کو معطل کیا،واقعی اتنی بڑی تعداد میں اراکین پارلیمنٹ کی معطلی آزادی کے بعد کا پہلا واقعہ ہے۔اپنے اقتدار کے دوران سرحدوں کے محفوظ ہونے کی ضمانت دینے والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کردہشت گردوں کے پارلیمنٹ میں داخل ہو جانے کے بعد جہاں ان کے اس جھوٹے دعوے کی پول کھل گئی ہے،وہیں یہ بھی صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ’’سب کا ساتھ،سب کا وکاس،سب کا وشواس‘‘ کا نعرہ لگانےوالے کس قدر عدم برداشت کے شکار ہیں،اور طاقت کے نشے میں کیسے مست ہیں کہ جمہوری انداز میں بھی ان کی خامیوں پر سوال ان کے نزدیک جرم ہے اور ان کی کمیوں پر سوال اٹھانے والے مجرم۔

بار بار ایک ہی حادثہ

چاند پر کمندیں ڈال کر خوشی کے شادیانے بجانے اور اس پر پھولے نہ سمانے والے دیس کی ’’پوتر‘‘ دھرتی پر پھر سے حیوانیت ننگا ناچ کرتی ہوئی دیکھی گئی۔ملک کا ضمیر زندہ ہوتا تو شاید اس طرح کے حادثات اس تسلسل کے ساتھ پیش نہ آتے،جس طرح پیش آرہے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ بیٹی اور دیوی کی پوجا کرنے والوں کے دیس میں اب بھی کوئی شے سب سے ارزاں ہے تو وہ بنت حوا اور اس کی عصمت ہے۔ منی پور میں ہونےوالے پر تشدد واقعات کے درمیان ایک خاتون کو برہنہ پریڈ کروایا گیا،اور سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر اس کی مذمت میں آوازیں بلند ہوئیں،مگر اس پر قدغن لگانے اور ایسے انسانیت سوز حادثات کے سدباب کےلیے جن کو بولنا چاہیے تھا،وہ گونگے بہرے بنے رہے۔شاید اسی مجرمانہ خاموشی کا نتیجہ ہے کہ کرناٹک میں ششی کلا نامی 42 سالہ خاتون کو گاؤں میں برہنہ کرکے گھمایا گیا۔
وزیر اعلیٰ نے انصاف دلانے کی یقین دہانی تو کروائی ہے،مگر اس ملک میں انصاف،وہ بھی عورتوں کےلیے ہمیشہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ہی محسوس ہوتا ہے۔ منی پور کے حادثے پر جس شدت کے ساتھ ایکشن لینے،گنہ گاروں پر کارروائی کرنے اور ان کی شناخت کرکے انھیں کیفرکردار تک پہنچانے کےلیے لوگوں نے بیک آواز ہو کر ارباب اقتدار اور نظم و نسق کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں کی اس جانب توجہ مبذول کروائی تھی،اس حادثے پر ایسا شدید رد عمل دیکھنے کو نہیں مل سکا۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ غیر محسوس طریقے پر ایسی گھناؤنی اور رذیل حرکتوں سے متعلق خبروں کا یا تو ہمیں عادی بنا کر بے حسی کی گہری کھائی میں اتارا جا رہا ہے،یا ایسے حادثات اتنے تواتر سے ہونے لگے ہیں کہ ہم انھیں عام سی خبر یا معمول کی بات سمجھ کر نظر انداز کرنے لگے ہیں۔دونوں ہی صورتیں ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں،اس لیے ہمیں اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔کیوں کہ ہم ہر حادثے کا ذمہ دار حکومت یا انتظامیہ کو ٹھہرا کر اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں ہو سکتے،بلکہ ہمیں بھی ہر ظلم اور ہر زیادتی کے خلاف -اپنی بساط بھر ہی سہی-اپنا احتجاج لازماً درج کروانا چاہیے،کہ قطرہ قطرہ دریا شود۔

عالمی منظرنامہ

کل کےقاتل،آج کے دل دار

ہولو کاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کےلیے قتل گاہ کی حیثیت رکھنے والے ملک جرمنی نے اب یہودیوں سے ہمدردی کے راگ الاپنے شروع کر دیئے ہیں۔ جرمنی کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا وجود جرمنی کے وجود و بقاء کا باعث ہے۔ تقریباً 60 لاکھ یہودیوں کو مختلف اذیت ناک طریقے استعمال کر موت کے گھاٹ اتارنے والے نازیوں کے ملک جرمنی کی ریاست زاکسن نے شہریت کے حصول کے لیے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا لازمی قرار دیا ہے۔اس جرمن ریاست نے شہریت کے خواہاں افراد کو اس کا پابند بنایا ہے کہ وہ تحریری طور پر یہ کہیں کہ وہ اسرائیل کے حقِ وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اسرائیل کے بطور ریاست وجود کے خلاف کسی بھی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔
یورپ میں عربوں اور مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد جرمنی میں ہی آباد ہے،یہ مسلمان وہاں کی آبادی کے 6.6 فی صد ہیں،ان کی مجموعی تعداد 55 لاکھ ہے۔یہاں کے مسلمانوں کو اس وقت یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے درمیان، اس حق کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی مخالفت اور فلسطینی مظلومین کی حمایت نہیں کر سکتے۔جرمن ریاست کا خیال ہے کہ ہولوکاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران چوں کہ 60 لاکھ یہودی مشق ستم بنائے گئے ہیں،اس لیے اب جرمن ریاست پر ان کے تئیں ’’خاص ذمہ داری‘‘ عائد ہوتی ہے۔اب یہ نہیں معلوم کہ نسل کشی کرنے والوں کے اس قدام کو یہودی کس نظریے سے دیکھتے ہیں،اور جرمنی کے اس تلافی مافات کےلیے کیے جانے والے اقدامات کے متعلق ان کا کیا خیال ہے؟تاہم ازلی اور نسلی دشمن کی جانب سے اس قدر ہمدردی کا جاگ اٹھنا یا تو اسلامو فوبیا کا نتیجہ کہا جاسکتاہے یا پرانے شکاریوں کا نیا جال۔

اہانت قرآن پر سزا

’’چارلی ہیبڈو‘‘ جیسے بدنام زمانہ میگزین کے متعفن اور خارش زدہ ذہنیت کے مظہر کارٹون کے ذریعہ اسلاموفوبک نظریات کو فروغ دینے والوں کو اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں پناہ دینے والے ملک ڈنمارک نے پے در پے قرآن مقدس کی بے حرمتی کے واقعات پیش آنے کے بعد اب کسی بھی مذہب کی مقدس کتاب کی اہانت پر دو سال کی سزا کا قانون بنا دیا ہے۔گوکہ یہ قانون تمام مذاہب کی مقدس کتابوں سے متعلق ہے،مگر اسے ڈنمارک میں قرآن کا قانون ہی قرار دیا جا رہا ہے۔ڈنمارک کی پارلیمان میں اس قانون کے حق میں 94 جب کہ اس کی مخالفت میں 77 ووٹ آئے۔
اپوزیشن لیڈر نے اظہار رائے کی آزادی کی دہائی دیتے ہوئے اس قانون کی مخالفت میں کہا کہ ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔اس قانون کی جہاں انصاف پسند حلقوں میں ستائش ہو رہی ہی،وہیں اسلاموفوبیا کے شکار اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی پر حملہ بتارہے ہیں۔ڈنمارک نے اہانت قرآن سے نمٹنے کےلیے جس طرح کمر کس کر ایک بڑا قدم اٹھایا ہے،دوسرے ان تمام ممالک کو ایسے ہی قانون بنانے پر غور کرنا چاہیے جہاں مقدسات کی بے حرمتی کے ناپاک و نازیبا واقعات پیش آتے رہتے ہیں،تاکہ کل کلاں کوئی بھی سرپھرا قرآن کریم ہی نہیں بلکہ کسی بھی مقدس کتاب کی اہانت کرکے امن و سکون کو غارت کرنے کا باعث نہ بن سکے۔قانون کے بنے ہوئے ابھی چند دن ہوئے ہیں،لہٰذا اس کا نفاذ کس حد تک ہو پاتا ہے،اس کے متعلق یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا،مگر توقع ہے کہ اس سے اہانت کے واقعات میں واضح کمی دیکھنے کو ملےگی،اور یہ قانون ایسے تکلیف دہ واقعات کے خاتمے کی جانب بہترین اقدام ثابت ہوگا۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. ساجدہ ابواللیث

    ملکی منظر نامہ محترمہ الماس بینش صاحبہ کا بہت ہی درست بیباکانہ اور صورت حال کا حقیقی عکاس ہے یقیناً یہ ساری صورتحال تشویشناک ہے افسوس بھی ہوتا ہے اضطراب بھی ،لیکن احتجاج کہاں درج کرائیں اور کون سننے کو تیار ہے ؟یہ بھی ایک سوال ہے ،اس مسئلہ کو آرٹیکل میں خود بیان کیا گیا ہے پھر ہم کیا کرسکتے ہیں انسانیت کو عدل و انصاف کہاں سے حاصل ہوگا ؟

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴