جنوری ۲۰۲۴
زمرہ : النور

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رِجَالًا مِنْ الْمُنَافِقِينَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَهِ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا إِذَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْغَزْوِ تَخَلَّفُوا عَنْهُ وَفَرِحُوا بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَهِ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَذَرُوا إِلَيْهِ وَحَلَفُوا وَأَحَبُّوا أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَنَزَلَتْ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنْ الْعَذَابِ ( صحيح مسلم)

(حضرت ابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں کچھ منافقین ایسے تھے کہ جب نبی ﷺ کسی جنگ کے لیےتشریف لے جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں اپنے پیچھے رہ جانے پر خوش ہوتے اور جب نبی ﷺ واپس تشریف لاتے ،تو آپ کے سامنے عذر بیان کرتے اور قسمیں کھاتے اور چاہتے کہ لوگ ان کاموں پر ان کی تعریف کریں ،جو انھوں نے نہیں کیے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
’’ ان لوگو ںکے متعلق گمان نہ کرو جو اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں اور یہ پسند کرتے ہیں کہ اس کام پر ان کی تعریف کی جائے، جو انھوں نے نہیں کیا ان کے متعلق یہ گمان بھی نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچنے والے مقام پر ہوں گے ۔‘‘ (سورة آل عمران : 188)

منافقین کے رویے پر دوسری حدیث ہے:
حضرت حمید بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مروان نے اپنے دربان سے کہا کہ اے رافع ! ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤ اور کہو کہ اگر ہم میں سے ہر آدمی اپنے کیے ہوئے عمل پر خوش ہو، اور وہ اس بات کو پسند کرے کہ اس کی تعریف ایسے عمل میں کی جائے جو اس نے سرانجام نہیں دیا تو اسے عذاب دیا جائے گا، پھر تو ہم سب کو ہی عذاب دیا جائے گا تو ابن عباس نے کہا کہ تمھارا اس آیت سے کیا تعلق ہے؟ حالاں کہ یہ آیت تو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی تھی ،پھر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ آل عمران: 187 کے متعلق فرمایا:

وإذ أخذ الله ميثاق الذين أتوا الكتاب لتبيننه للناس ولاتكتمونه

( اور جب اللہ نے ان لوگو سے وعدہ لیا جنھیں کتاب دی گئی کہ تم ضرور بالضرور اسے لوگوں کے لیےاور اسے چھپاؤ گے نہیں۔)
اور ابن عباس نے سورة آل عمران: 188 کے تعلق سےکہا:
’’ان لوگوں کے متعلق گمان نہ کرو جو اپنے کیےپر خوش ہوتے ہیں اور یہ پسند کرتے ہیں کہ اس کام پر ان کی تعریف کی جائے، جو انھوں نے نہیں کیا،ان کے متعلق یہ گمان بھی نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچنے والے مقام پر ہوں گے ۔‘‘
پھر فرمایا نبی ﷺ نے ان سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس چیز کو آپ ﷺ سے چھپایا اور اس کے علاوہ دوسری بات کی خبر دی ،پھر نکلے اس حال میں خوش ہوتے ہوئے کہ انھوں نے آپ ﷺ کو اس بات کی اطلاع دے دی ہے جو آپ ﷺ نے ان سے پوچھی تھی ،پس انھوں نے آپ ﷺ سے اس بات پر تعریف کو طلب کیا ،جو بات بتائی اور آپ نے ﷺ ان سے جو بات دریافت کی اسے آپ ﷺ سے چھپا کر خوش ہوئے ۔

منافق کسے کہتے ہیں ؟

نفاق ، نافقہ سے ماخوذ ہے نافقہ چوہے کی بِل کے ایک خاص سوراخ کو کہتے ہیں،چوہا خطرے کے وقت اس مخفی اور خاص سوراخ سے بھاگ جاتا ہے ۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں کہ لفظ نِفاق، نفق سے لیا گیا ہے ’’ نفق‘‘ کا مطلب سرنگ جس میں انسان چھپ جاتا ہے ۔
شرعی اصطلاح میں نفاق کہتے ہیں: ’’دل میں کفر پوشیدہ رکھ کر زبان سے اسلام کا اظہار کرنا ‘‘ اس عمل کو نفاق اس لیے کہا جاتا ہے ،کیوں کہ ایسا آدمی اسلام میں ایک دروازے داخل ہوکر دوسرے سے نکل جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
’’ یقیناً منافق ہی فاسق ہے۔‘‘( سورۃالتوبہ: 9) یہاں فسق سے مراد شریعت سے نکلنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو کفار سے بد تر قرار دیا ہے، جیسا کہ سورۃ نساء: 145 میں ہے:
’’ یقیناً منافق جہنم کے سب سے نچلےطبقے میں جائیں گے ۔‘‘

نفاق کی اقسام

نفاق کی دو قسمیں ہوتی ہیں:
(1)نفاق اکبر
(2) نفاق اصغر
صحیحین میں روایت ہے کہ چار چیزیں جس میں ہوںگی وہ پکا منافق ہوگا ، یہاں تک کہ وہ اسے چھو ٹ نہ دے، وہ درج ذیل ہیں :
(1)جب بھی اس کے پاس امانت رکھی جائے اس میں خیانت کرے۔
(2) جب بھی بات کرے جھوٹ بولے۔
(3) جب بھی عہد و پیمان کرے اسے پورا نہ کرے۔
(4)جب بھی لڑائی کرے اس میں گالم گلوج کرے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں کہ عام طور پر مومن بندے سے عملی نفاق سرزد ہوجاتا ہے ،لیکن احساس ہونے پر جلد ہی توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ اسی طرح بندے مومن ان وسوسوں اور خیالات کا بھی سامنا کرتا ہے جن کے بیان کرنے میں بھی اسے شدید الجھن ہوتی ہے ۔ جیسا کہ صحابۂ کرام نے پیارے نبی ﷺ سے کہا تھا : اے اللہ رسول ﷺ ! ہم میں سے کسی کو ایسے خیالات بھی آتے ہیں جن کے اظہار سے کہیں آسان آسمان سے زمین پر گرنا محسوس ہوتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : یہی تو حقیقی ایمان ہے ۔
نفاق اکبر کے مرتکبین کی حالت اس فرمان الٰہی کے مطابق ہے :
’’ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں وہ اب کسی صورت واپس نہیں پلٹ سکتے ۔‘‘

منافق کی نمایاں صفات

 برائی کا حکم دینا اور بھلائی کے کاموں سے روکنا
کیوں کہ منافقین کا اصل حربہ حقیقت پر پردہ ڈالنا اور بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی صفت کو سورۃ التوبہ: 67 میں واضح فرمایا:
’’ منافق مرد اور منافق عورت سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں ، برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں ۔‘‘
منافقین اس انتظار میں رہتے ہیں کہ جدھر کے لوگ غالب آئیں وہ اس گروپ میں شامل ہوجائیں ۔
مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنا
خود کو عقل مند اور دوسروں کو کم عقل سمجھنا
زمین میں فتنہ و فساد پھیلانا اور اصلاح کا دعوی کرنا
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے ، جو دو ریوڑوں کے درمیان ماری ماری پھرتی ہے، کبھی اس ریوڑ میں چرتی ہے اور کبھی اس ریوڑ میں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ ہم تمام کو اس بری خصلت سے محفوظ رکھے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے