جنوری ۲۰۲۴

ہندوستان، ایک ایسی قوم جو اپنےبھرپور ثقافتی رنگ، متنوع روایات اور تاریخی اہمیت کے لیے جانا جاتا ہے، اس نے ہمیشہ امن کے حصول پر کافی زور دیا ہے۔ اس کی بنیاد میں اتحاد، تنوع اور بقائے باہمی کا عنصر شامل ہے۔ ہندوستان میں امن کا نعرہ اس کی تاریخ کے اوراق میں گونجتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب اس کی اس خصوصیت کو گہن لگتا جا رہا ہے۔
گذشتہ دنوں اخبار پلٹتے ہوئے نظر ایک خبر پر ٹک کر رہ گئی، جس میں ارباب اقتدارکا کہنا تھا کہ ہندوستان مسلمانوں کے لیے جنت سے کم نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان ایک خوبصورت ملک ہے اور برسوں سے مختلف تہذیبیں، ثقافت اور قومیں اس میں آباد ہیں، جہاں چار برتن ہوتے ہیں وہاں کبھی کھٹ پٹ ہو بھی جاتی ہے، لیکن اس طرح کے خوش نماالفاظ کئی مرتبہ شہریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ جب میں حقیقت حال کا جائزہ لینے کے لیے گذشتہ کئی سالوں سے اقلیتوں، دلتوں اور مظلوم افراد پر ہورہے ظلم و ستم کے حالات دیکھتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض سیاسی جملہ بازی ہے۔
میرے سامنے کشمیر سے لےکرمنی پور تک، آسام سے لےکرجھارکھنڈ تک، اتر پردیش سے لےکر آندھراپردیش اور ہندوستان کے کونے کونے میں امن و امان کو زک پہنچانے والی خبروں کا انبار پڑاہوا ہے ،اور میں سوچ رہی ہوں کہ کیا سچ مچ ہم جنت میں رہ رہے ہیں؟ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں دائمی خوشی ہوگی۔
ارباب اقتدار کی جملہ بازیوں پر مشتمل الفاظ جب میری زبان سے نکل کر میری دادی- جنھوں نے ستر بہاریں دیکھی ہیں- کے کان میں پڑے توکہنے لگیںکہ بٹیا! یہ نیا ہندوستان ہے۔یہاں سوچ بدل گئی ہے،جذبات بدل گئے ہیں،محبتیں ختم ہوگئیں،نفرتیں بڑھ گئیں۔رات کے اندھیروں میں جب لوگ دن بھر کی تھکان اتارنے کے لیے میٹھی نیند سوتے ہیں،اس وقت خون آشام بھیڑ یے جمع ہوکر اپنے جیسے انسانوں کو اور اپنے وطن میں رہنے والوں کو موت کی نیند سلانے کی تیاری کرتا ہے،اس کو انسانوں سے اور خصوصاً مسلمانوں سے ایک نفرت سی ہوتی ہے،حالانکہ انھوں نے ذاتی طور پر اس کا کچھ نہیں بگاڑا ہوتا،لیکن شب وروز کے میڈیائی تماشوں اور ملک کے حکمران طبقہ کی بیہودگیوں سے ان کے دماغ اتنے پراگندہ ہوجاتے ہیں کہ انہیں پھر کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا۔پھر جب یہی لوگ امن کا نعرہ بلند کرنے لگتے ہیں تو لگتا ہےاس کی دھجیاں اڑ رہی ہوں۔
دادی شاید منی پور کے فسادات کو یاد کرنے لگی تھیں، یا اسی سال چند ماہ قبل نوح میں ہونے والے فسادات ان کے ذہنوں کے سامنے ناچ رہے تھے۔ میں سوچ رہی تھی دادی سے کہوںکہ دادی جان ہم مسلمان جس ملک کو اپنا وطن بتاتے ہوئے فخر کا اظہار کرتے ہیں،جس سے محبت کا ہر طریقہ سے اظہار کرتے ہیں،لیکن کیا یہی وہ ہندوستان ہے جس کی آزادی میں مسلمانوں نے اپنی جان کے نذرانے بے دریغ پیش کیے تھے۔جس ملک میں رہنے کے لیے آزادی کے رہنماؤں نے زور دیا تھا اور یہ تیقن دلایا تھا کہ اس ملک میں رہنے والے ہر شخص کی جان اور مال محفوظ ہے،ہر کوئی اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہے۔کیا یہی وہ ہندوستان ہے جسے جنت نشان کہا جاتا تھا۔کیا یہی وہ ملک ہے جہاں رہنے والے بے شمار رنگ ونسل کے لوگ باہم شیروشکر رہتے تھے۔کیا یہی وہ ہندوستان ہے جہاں کی یکجہتی پوری دنیا میں مثالی تھی؟
کیا یہی وہ ملک ہے جس کو’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘کہا گیا تھا۔کیا یہی وہ ملک ہے جس کو اپنے مادر جمہوریت ہونے پر فخر ہے۔کیا یہی وہ ملک ہے جس میں ہندو مسلم سکھ عیسائی،آپس میں سب بھائی بھائی ہوا کرتے تھے۔کیا یہی وہ ملک ہے جس کے ہر گوشہ میں کسی نہ کسی مذہبی عبادت گاہ کا وجودپایا جاتا تھا،جس کا احترام ہر طبقہ کے لوگ کیا کرتے تھے۔کیا یہی وہ ملک ہے جس کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروانے میں یہاں کے ہر باشندے نے صرف ہندوستانی بن کر لڑائی لڑی تھی۔کیا یہی وہ ملک ہے جس کو ہمارے بزرگوں نے اپنا خون دے کر آزاد کروایا تھا؟
سچی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کی سیکولر ریاست کا تشخص وقت کے ساتھ ساتھ دھندلا ہوتے ہوتے بری طرح مسخ ہوچکا ہے، ہندوستان کے اکابرین نے سیکولر ریاست بنانے کےلیے آئین میں ملک کو سیکولر اسٹیٹ قرار دیا، لیکن سیکولر زم دشمن طاقتوں کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان کے سیکولر ریاست ہونے کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ ان کے آشِرواد سے آر آیس ایس کا ہندو توا کا ایجنڈا پوری دنیا میں ہندوستان کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے اور ہندوستان کے سنجیدہ حلقے خود بھی اس بدلتے منظر نامے سے شدید نالاں ہیں۔ آر ایس ایس کی اقلیتوں، دلتوں اور پچھڑے طبقے کو جلانے کےلیےلگائی جانے والی آگ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ بھارتی معاشرے کو بھی بھسم کرتی جارہی ہے، بی بی سی اور دیگر عالمی خبر رساں ادارے تواتر کے ساتھ ملک میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں پر تنگ ہوتے عرصۂ حیات اور انسانیت سوز مظالم پر تفصیلی رپورٹس اور فلمیں بنارہے ہیں ،
لیکن ہماری حکومت محض جملہ بازی سے کام لے رہی ہے۔
ہماری حکومت کی نفرت انگیز پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے، اور دانشور اور سیکولر طبقے ملک کے بدلتے منظر نامے کی وجہ سے انتہائی مایوسی کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ آر ایس ایس یا بی جےپی حکومت کو ملک میں پھیلی خوف کی فضا سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ قابل تشویش بات تو یہ ہے کہ حکومت ریاست میں نفرت انگیز ایجنڈے کے پرچار کی کھلم کھلا حمایت کررہی ہے اور مہاراشٹر میں درجنوں اسلام مخالف ریلیاں نکال کر لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کےخلاف اکسایا جارہا ہے، معصوم ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں، روز مرہ زندگی میں بھی نفرت کا زہر گھولا جارہا ہے اور یہ سب سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے۔
ریاستی ادارے، عدالتیں اور پولیس بھی آلۂ کار بن کر مذہبی اقلیتوں کو کچلنے کےلیے حکومت اور آر ایس ایس کے دست و بازو کا کردار ادا کررہے ہیں اور شرمناک بات تو یہ ہے کہ مہاراشٹر میں اسلام مخالف ریلیوں میں 10 سے 12 ہزار کے قریب پولیس اہلکار شرپسندوں کا ساتھ دینے کےلیے موجود ہیں۔ ملک میں ہونے والا ظلم صرف مسلمانوں کےلیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کےلیےافسوس ناک ہے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ لاکھوں انسانوں کی دردناک چیخیں بھی اقوام عالم کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کےلیے ناکافی ہیں اور ہندوستان کی طرف سے عالمی قوانین کی جو دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
اگر آر ایس ایس اورحکمرانوں کو یہ لگتا ہے کہ مسلمانوں کو جلانے کےلیےلگائی جانےوالی آگ صرف مسلمانوں کو جلائے گی ،تو یہ ان کی خام خیالی ہی ہوسکتی ہے، کیونکہ گھر میں لگی یہ آگ اقلیتوں کے علاوہ باقی ملک کے باسیوں تک بھی پہنچ رہی ہے اور اس کی تپش سے ہندو بھی محفوظ نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد یہ آگ جوالا مکھی کی طرح ہندوستانی معاشرے کو جلاکر بھسم کردے گی۔ اس لیے ہمیں مہاتما گاندھی جیسے عظیم روحانی رہنماؤں کی تعلیمات، جنھوں نے سماجی اور سیاسی تبدیلی کے حصول کے لیے عدم تشدد کی وکالت کی، قوم کے اجتماعی شعور میں مسلسل گونجتی رہنی چاہیے۔
ان چیلنجوں کے باوجود، ہندوستان میں امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے افراد، تنظیموں اور حکومت کی جانب سے کی گئی متعدد مثبت کوششوں کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ امن کا نعرہ، جب حقیقی کوششوں، مکالمے اور جامع پالیسیوں کی حمایت حاصل ہو، تو زیادہ پرامن اور متحد معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ تنازعات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا اور متنوع برادریوں کے درمیان افہام و تفہیم کو فروغ دینا زیادہ پرامن ہندوستان کی طرف بڑھنے کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔
لیکن بد قسمتی سے دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ہمارے یہاں اتنی ہی اس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ کئی مرتبہ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غنڈہ گردی کرنے والے، امن میں نقب ڈالنے والے، غریبوں، عورتوں، کمزوروں اور دلتوں کے ساتھ ہو رہے ظلم و ستم کے خلاف کوئی باز پرس کرنے والا ہی نہیں ہے۔ سال کے اوائل میں منی پور اور دوسری جگہوں پر فسادات کا دور چلا تھا اور سال کے جاتے جاتے کئی جگہوں پر عیسائیوں کے خلاف حملے کی خبریں ملیں جو یقینا افسوس ناک تھیں،اس مضمون کے لکھے جانے تک کشی نگر یوپی میں ایک طالب علم کو ننگا کرکے اس کے ساتھ زد و کوب کیا گیا اور مارا پیٹا گیا۔ یہ کام ہندو یوا واہنی نے کیا جو پہلے ہی ملک میں غنڈہ گردی کے لیے معروف ہے۔ یقین جانیں یہ سب دیکھ کر دل دکھتا ہے اور آنکھیں روتی ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔
سال کے اخیر میں نئے سال کے لیے آئیے ہم عہد کریں کہ ہم امن اور سکون کے لیے کام کریں گے۔ ظلم و ستم پر آواز اٹھائیں گے اور ایسے ہندوستان کے قیام کو یقین بنائیں گے جو سچ مچ جنت ارضی کہلانے کا مستحق ہوگا،ایسی سر زمین جس کا خواب ہمارے پرکھوں نے دیکھا تھا۔ بقول چرن سنگھ بشر:

یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پہ ہے
علاج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

٭ ٭ ٭


ہماری حکومت کی نفرت انگیز پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے، اور دانشور اور سیکولر طبقے ملک کے بدلتے منظر نامے کی وجہ سے انتہائی مایوسی کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ آر ایس ایس یا بی جےپی حکومت کو ملک میں پھیلی خوف کی فضا سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴