جنوری ۲۰۲۴

 12نومبر2023 ء کواتراکھنڈ میں ایک سرنگ میں کام کررہے مزدوروں پر اچانک ایک افتاد آپڑتی ہے۔جس طرح اتراکھنڈ کے مخصوص جغرافیائی وجوہات کی بناء پر اکثر زمین کھسکنے اور حادثات رونما ہونے کی خبریں آتی ہیں، اسی طرح پہاڑ سے چٹانیں کھسک کر سرنگ کے راستے پر گرپڑیں اور سرنگ کایک طرفہ دہانہ جو کھلاتھا اور جہاں سے نکلنے کا راستہ تھا، وہ مسدود ہوگیا۔کام کررہے مزدور اس میں بند ہوگئے،41زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں۔
اتراکھنڈ کے ضلع اتراکشی کی یہ بڑکوٹ سلکیارا ٹنل حکومت کے چاردھام کو جوڑنے کے ہائی وے پروجیکٹ کا حصہ تھی۔ یہ حادثہ سلکیارہ کے داخلی حصہ سے270 میٹر دور پیش آیا۔ پہاڑ کا جو ملبہ گرا اس نے باہر نکلنے کے راستے میں 60 میٹر لمبی چٹانی رکاوٹ پیدا کردی۔ اس حادثہ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا اس طرح کا پروجیکٹ ہمالیہ کے علاقے میں مناسب تھا ؟کیا ماحولیاتی اصول وضوابط کی رو سے درست تھا؟ کیااس منصوبےپر عمل آوری سے قبل وہاں کی زمین اور چٹانوں کی جیالوجکل جانچ کی گئی تھی؟ متواتر حادثات اور زمین کھسکنے کے واقعات کے پیش نظر کیا وہاں محفوظ کھدائی ا ور تعمیر ہوسکتی تھی؟
چٹانوں میں کھوکھلاپن ،کیویٹیز اور ان کے درمیان گیپ کی وجہ سے چٹانیں اور وہاں کے اطراف کی زمینی سطح کمزور ہوجاتی ہے۔
’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ نے لکھا ہے کہ ای آئی اے (انوارمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ ) کے مطابق ہمالیہ کی کوہستانی کمزور زمینی سطح کی بناء پر تعمیری کام نقصان دہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ روڈ اور ٹنلس بنانے کے لیے زمین کو غیر محتاط انداز میں کاٹا جارہا ہے، جس کی وجہ سےپہلے بھی لینڈ سلائڈ نگ کے کئی واقعات متواتر پیش آتے رہے ہیں۔
ان تمام اندیشوں کے باوجود ٹنل کا کام جاری رہا اور اچانک یہ حاد ثہ پیش آیا ۔
پھرہوا سرنگ میں پھنسے ان مزدوروں کو بچانے کی ہنگامی کاروائیوں کا آغاز۔ سرکاری و غیر سرکاری شعبوں کے کئی افراد ان مزدوروں کو نکالنے کے لیے بلائے گئے ،جن میں فوج کے جوان، ایس ڈی آر ایف ، ایم ڈی آر ایف ،اور ڈسازسٹر مینجمنٹ وغیرہ کے سیکڑوں افراد شامل تھے، ان کے علاوہ بین الاقوامی سطح کے ٹنلنگ ایکسپرٹسکو بھی بلایا گیا۔
پہلے پہل ابتدائی کوشش ان مزدوروں کو حیات بخش غذا اور آکسیجن پہنچانے کی کی گئی، ساتھ ہی ان کو باہر نکالنے کی کوششیں بھی جاری رہیں، ان سخت پتھریلے تودوں کو کاٹنے کے لیےانٹرنیشنل ایکسپرٹ جدید آلات اورآگر مشین کے ذریعہ کوششیں کرتے رہے، لیکن یہ مشین بھی اس ساٹھ میٹر کی رکاوٹ کو توڑ کر مزدوروں کو نکالنے میں مدد گار نہ بن سکی، اور بار بار ٹوٹتی رہی۔ آخر 25 نومبر کو یہ مشین ٹوٹ کر پھنس گئی اور ریسکیور کےلیے ایک اور چیلنج بن گئی۔ اب چٹانوں کے ساتھ آگر مشین کو بھی کاٹنے کا بڑا ہدف سامنے تھا۔ آخر27نومبر کو یہ طے ہوا کہ اب ان رکاوٹوں کو کاٹنے کے لیے ریٹ ہول مائنر سے مدد لی جائے،اور ان کے ذریعہ اس کو ہاتھوں سے کاٹ کر نکالنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔
اس ریٹ ہو ل مائننگ کونیشنل گرین ٹریبیونل نے ممنوع (Banned)قرار دیا ہے، کیوں کہ یہ کام ماحولیاتی نقطۂ نظر سے بھی مضر ہے اور جان جوکھم میں ڈال کر کیا جانے والا خطرناک اور نہایت پر مشقت کام ہے ،جس میں ریٹ مائنرس کچھ اوزاروں کا استعمال کرتے ہوئے ہاتھوں سے سرنگوں میں راستےاور شگاف بناتے ہیں۔ ان باریک راستوں سے گزر کر کوئلہ وغیرہ نکال لاتے ہیں ، ہاتھوں سے چٹانیں توڑنا چھوٹے راستوں سے گزرنا، آکسیجن کی قلت یہاں تک کہ جان جانے کے بھی قوی امکانات ہوتے ہیں۔ان مسائل کے باوجود غربت اور بے روزگاری لوگوں کو ایسے خطرناک پیشے اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ انھیں پہاڑوں کو ہاتھوں سے کاٹ کر جینا پڑرہا ہے ۔

زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

اترکاشی میں جب اس ٹنل میں مزدوروں تک پہنچنا اب محال محسوس ہورہا تھا ،اندر مزدور امید وبیم کی کیفیت میں تھے، مشینوں نے بھی ساتھ چھوڑدیا تھا تو یہی جان کی بازی لگانے والے محنتی ریٹ مائنرز کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا گیا ،جنھیںاس ساری ریسکیو مہم کاہیرو کہا جارہاہے ۔ان سے جب کہا گیا کہ 41 زندگیاں خطرے میں ہیں اور ان کی ہنر مندی اور محنت ان کو بچاسکتی ہے، تو یہ لوگ دوڑے چلے آئے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ریٹ مائنرزنے اپنے احساسات ظاہر کیے کہ ان لوگوں نے جب سنا کہ 15 دن سے مزدور ٹنل میں پھنسے ہیں، اور انھیں یہی لوگ نکال سکتے ہیں تو اپنی ضروریات و مصروفیات کو پس پشت ڈال کر دوڑے چلے آئے۔
اس ریسکیو ٹیم کے اہم رکن منا قریشی کی بیوی کی کرونا میں موت کے بعد تینوں بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان ہی پر تھی، لیکن جب ان کو ان مزدوروں کو نکالنے کے لیے بلایا گیا تو ان41 جانوں کی سلامتی کے خاطر انھوں نے اپنے بچوں کو بھائی کے سپرد کیا، اور اس ذمہ داری کو پوری کرنے نکل کھڑے ہوئے ۔منا قریشی ہی وہ شخص تھے جو پائپ کے ذریعہ مزدوروں تک سب سے پہلے پہنچے تھے ،ان کو دیکھتے ہی مزدوروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، اس سرنگی قبر سے نکل کر اپنوں کے بیچ وسیع دنیا کو دوبارہ دیکھنے کا خواب حقیقت بنتا نظر آگیا ۔کٹیم لیڈر وکیل حسن کہتےہیں کہ سارے ریٹ مائنرز ہمدردی کے اس جذبے اور عزم کے ساتھ آئے تھے کہ مزدوروں کو نکال کر ہی لوٹیں گے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک جان قیمتی ہے، ہم نے سوچا کہ ایک جان بھی جانے نہ پائے اور مزدوروں کو بحفاظت نکالنے کی فکر میں مسلسل چوبیس گھنٹہ ٹنل کھودنے کی مشقت کرتے رہے۔ ان میں سے کچھ تو مسلسل ۲۶گھنٹہ بغیر سوئے کام کرتے رہے ،اور رکاوٹوں کو کاٹتے توڑتے راستہ بناتے رہے۔
آخرکار29نومبر کو مزدوروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔یہ ریٹ مائنرز اپنے ہاتھوں سے چٹانیں ،مٹی کے سخت تودے، آہنی جالیاں، آگر مشین کے پھنسے ہوئے حصے کاٹتے گئے چھوٹی جگہ میں جہاں سانس لینا دشوار ہورہا تھا(باہرسے آکسیجن فراہم کی جارہی تھی ) اتنا مشکل ترین کام انھوں نے کامیابی سے انجام دیا۔
ان ریسکیور ز نے 41مزدوروں کی جان بچاکر انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔منا قریشی میں انسانی ہمدردی ، انسانیت سے محبت کا اندازا ایک ایسے وقت میں ہوتا ہے جب لمحہ بہ لمحہ خبروں میں فلسطینی معصوم کٹی پھٹی لاشوں کو دیکھ کر سوچ رہے ہیں کہ کیا انسانیت ختم ہوگئی ؟ کیا انسانی ہمدردی کا جذبہ دنیا سے رخصت ہوگیا؟ہتھیارکے سوداگر اسرائیل کی سفاکی اور بے دردی ، بے حمیتی کی مایوسی انسان کو شدید یاسیت کا شکار بنارہی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ لق دق صحرا ہی میں پیاس کی شدت کا اندازہ ہوتاہے،بالکل اسی طرح منا قریشی اور ان کے ساتھیوں کی ریسکیو ٹیم نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر جو کارنامہ انجام دیا ہے، اس کو وہی اہمیت ملنی چاہیے جو اس کی ہے ۔یہ وہی ہندوستان ہے جہاں انسانی ہمدردی کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالنے والے اس شخص کو دشرتھ مانجھی کی طرح یاد رکھاجائے گا، جس نے گیا کے پہاڑ سے گر کر مرجانے والی اپنی بیوی کے غم سے گزر کر تن تنہا پہاڑ کاٹ کر راستہ بنایا اور22 سال تک پہاڑ کاٹتا رہا ۔
یہ وہی ہندوستان ہے جہاں مذہبی منافرت میں موب لنچنگ کے واقعات ہیں۔دوسری طرف ذات پات مذہب پوچھے بغیر جان بچانے کے لیے جان جوکھم میں ڈالنے والے مناقریشی کے ساتھی ہیں ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴