اللہ کا ولی
مولانا مودودی سے کسی نے پوچھا:
’’ آپ نے کبھی ولی اللہ دیکھا ہے؟‘‘
مولانا نے فرمایا:
’’میں تو ابھی ایک ولی اللہ سے مل کرآ رہا ہوں۔‘‘
تفصیل پوچھی گئی تو بتایاکہ ریلوے اسٹیشن پر اترا تو سامان اٹھانے کے لئے قلی کی ضرورت پڑی، بہت سے قلی حضرات دوڑے آئے، میری نظر ایک ایسے قلی پر پڑی جو نہایت آرام سے نماز میں مشغول تھا۔میں نے فیصلہ کیا کہ اس کا ہی انتظار کروں گا، وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے پوچھاکہ کیسے بندے ہو؟ٹرین کی آمد ہی تو تمہارے رزق کا سامان ہے تم نے رزق کمانے کے وقت میں نماز کیوں شروع کر دی؟
قلی نے جواب دیا:
’’ جو رازق ہے وہ میرے حصے کا رزق مجھ تک ضرورپہنچا دیتا ہے، اب جس رازق نے آپ کو میرے لیے روکے رکھا، کیا مجھے جچتا ہے اس کی عبادت میں دیر کر دوں؟‘‘
پھر جب میں نے اسے اصل اجرت سے کچھ زیادہ دینے کی کوشش کی تو اس نے منع کر دیا جتنا میرا حق ہے صرف اتنا ہی لوں گا۔
بھلا اس سے بڑا ولی اللہ کون ہو سکتا ہے؟
معاف
ایک کنجوس حج کر کے واپس آیا،تو اس کے دوست آ گئے اور کہنے لگےکہ جس دعوت کا وعدہ آپ نے حج سے پہلے کیا تھا وہ کھلائیں۔
اُس نے کہا:
’’جو کچھ میں نے حج سے پہلے کہا تھا،اللہ نے سب معاف کردیا ہے۔‘‘
کتاب:کتاب الحمقاء والمغفلین،از:ابنِ جوزی
وبالِ شہرت
شُہرت یافتہ آدمی کو دید کا شوق ایک دوسرا وبال ہے۔ سینکڑوں آدمی خواہ مخواہ ملنے آتے ہیں، پوچھیے، مجھ سے کوئی کام ہے؟ کہتے ہیں، جی کچھ نہیں محض آپ کے دیکھنے کا اشتیاق تھا۔
بہت اچھا! اشتیاق پورا ہوگیا۔ اب آپ تشریف لے جائیے مگر وہ اس طرح جَم کر بیٹھ جاتے ہیں گویا وہ میرا قلمی فوٹو اُتارتے ہیں یا میں نے اپنا گھر اُن کے پاس گِروی رکھ دیا ہے یا مجھ کو اُن کا کچھ قرضہ دینا آتا ہے۔ کسی طرح اُن کا اشتیاق پورا نہیں ہوتا۔ کچھ کہتا ہوں تو کَج خُلقی ہے۔ چُپ رہتا ہوں تو وقت ہاتھ سے جاتا ہے۔
کتاب:آپ بیتی،از:خواجہ حسن نظامی
‘‘زبانی’’ جنگ
ایک دفعہ مولانا ظفر علی خان کے نام مہاشہ کرشن ایڈیٹر ’’پرتاپ‘‘ کا دعوت نامہ آیا ،جس میں لکھا تھا:
’’فلاں دن پروشنا فلاں سمت بکرمی میرے سُپّتر ویریندر کا مُونڈن سنسکار ہوگا۔ شریمان سے نویدن ہے کہ پدھار کر مجھے اور میرے پریوار پر کرپا کریں۔
شُبھ چنتک
کرشن‘‘
( فلاں دن میرے بیٹے ویریندر کی سر مُنڈائی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ تشریف لا کر مجھ پر اور میرے خاندان پر مہربانی کریں۔ )
مولانا نے آواز دی۔سالک صاحب! ذرا آئیے گا۔ فرمایا کہ مہربانی کرکے اس دعوت نامے کا جواب آپ میری طرف سے لکھ دیجیے۔
’’برسات کے دن ہیں، بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی، میں کہاں جاؤں گا، معذرت کر دیجیے!‘‘
میں نے اُسی وقت قلم اٹھایا اور لکھا:
’’جمیل المناقب، عمیم الاحسان، معلّی الالقاب، مدیرِ پرتاپ السلام علیٰ من اتّبع الھُدیٰ!
نامۂ عنبر شمامہ شرفِ صدور لایا۔از بس کہ تقاطرِ امطار بحدّ ہے کہ مانع ایاب ذہاب ہے۔ لہٰذا میری حاضری متعذّر ہے۔العُذر عند کِرام النّاسِ مقبول۔
الرّاجی الی الرّحمة والغُفران
ظفر علی خان‘‘
مہاشہ کرشن نے یہ خط پڑھنے کی کوشش کی۔کچھ پلے پڑنا تو درکنار، وہ پڑھنے میں بھی ناکام رہے۔
آخر مولانا کو دفتر ’’زمین دار‘‘ ٹیلی فون کر کے پوچھا:
’’مولانا! آپ کا خط تو مل گیا لیکن یہ فرمائیے کہ آپ آسکیں گے یا نہیں؟‘‘
اس پر مولانا ظفر علی خان نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور مہاشہ جی سے کہا:
’’آپ کا خط میں نے ایک پنڈت جی سے پڑھوایا تھا۔ آپ بھی کسی مولوی صاحب کو بلوا کر میرا خط پڑھوا لیجیے۔‘‘
کتاب:نوادراتِ سخن،از:طاہر شادانی و ضیاء محمد ضیاء
زہد
زُہد ترکِ دنیا نہیں بلکہ ترکِ محبوبیتِ دنیا ہے۔ دنیا کی حلال و طیّب نعمتوں سے لطف اٹھاؤ، لیکن کسی کے اسیر نہ بنو، کسی کے ساتھ دل نہ لگاؤ۔ اچھا کھاؤ، اچھا پہنو، اچھی طرح رہو، دولت بھی رکھو مگر کسی کے ساتھ دل نہ اٹکاؤ۔
کتاب:آخری وصیت،از :خرم مراد
ملّا
لو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہروں میں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم وگرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور در بدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھ رہا تھا۔
اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبک دوش نہیں ہوسکتے ،جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔
کتاب:شہاب نامہ،از:قدرت اللہ شہاب
جاہلوں کی اُردو
میرے زمانے کی دِلّی میں جیسی خالص اُردو وہ لوگ بولتے تھے، جو پڑھے لکھے نہیں تھے، ویسی خالص اُردو پڑھے لکھے نہیں بول سکتے تھے۔
دوسری زبانیں جاننے والے کی زبان پر دوسری زبان کا ایک آدھ لفظ آ ہی جاتا ہے۔
کتاب:دِلّی جو ایک شہر تھا،از:سیّد محمد اِرتضیٰ المعروف بہ مُلّا واحدی
…مجھے کچھ اور کہنا تھا
ایک عزیز نے اپنے ایک استاد کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ بہت ’’دیدہ دلیر‘‘ ہیں۔
اس پر مجھے وہ نوجوان یاد آیا جسے احمد ندیم قاسمی صاحب کی کوششوں سے ملازمت مل گئی تو اس نے قاسمی صاحب کو لکھا:
’’جناب! یہ آپ کی ’’ریشہ دوانیوں‘‘ کا نتیجہ ہے، ورنہ میں بھلا کس قابل ہوں۔‘‘
اسلم ملک
کتاب سے دوستی کیجیے!
دینی مواد پر مشتمل کتاب پڑھیں گے تو یہ وعظ و نصیحت کرے گی ۔ آپ کے لیے دینی علم و عمل میں ترقی کا ذریعہ بنے گی ۔ مصنف آپ کو دین سکھائے گا ۔
سفر نامہ پڑھیں گے تو مسافر / سیاح آپ کو ملکوں ملکوں ، شہر شہر ، بستی بستی کی سیر کرائے گا ۔ وہاں کا نظام و ہاں کا رہن سہن دکھائے اور بتائے گا ۔
تاریخ پڑھیں گے تو مؤرخ آپ کو گزرے زمانوں میں لے جائے گا ۔ اسلاف سے تعارف کرائے گا ۔ بادشاہوں کے دربار اور محلات دکھائے گا ۔ ان کے صحیح / غلط فیصلے اور اقدامات ان کی جنگیں ان کی مہمات ، ان کے قافلے ان کا جاہ و جلال ان کا عروج اور ان کا زوال دکھائے گا ۔ جس سے آپ عبرت و نصیحت پکڑیں گے ۔
ادیبوں کی کہانیاں ، افسانے اور ناول پڑھیں گے تو وہ ان کے اندر آپ کو معاشرے میں پھیلی برائیوں ، اچھائیوں سے روشناس کروائے گا ۔ قصے کہانیوں کے ذریعے بڑی اہم اہم باتیں سمجھائے گا ۔
غرض جس موضوع پر کتابیں پڑھیں گے وہ آپ کو کچھ نہ کچھ سکھائیں گی ۔ آپ کا وقت ضائع نہیں کریں گی ۔ آپ کو الفاظ کا ذخیرہ اور وسیع معلومات فراہم کریں گی ۔
اچھی کتابیں بہترین دوست ہیں ۔ بہترین رہنماء ہیں ۔ ان سے دوستی لگائیے۔ ان کو اپنے قریب رکھیے ۔ ان سے رشتہ جوڑیے تاکہ آپ ایک مہذب اور با شعور انسان کے طور پر بہترین زندگی گزاریں ۔
محمد عثمان انصاری
پچیس لفظوں کی کہانی
قیمت
’’آپ نےکتابیں لکھنی کیوں چھوڑدیں؟‘‘
میں نےپوچھا۔
’’کتابوں کی لاگت بھی نہیں آپاتی تھی۔اب تعویذلکھتاہوں،من چاہی قیمت ملتی ہے۔‘‘
جواب ملا۔
احمد بن نذر
٭ ٭ ٭
0 Comments