جنوری ۲۰۲۴

موسم سرما کی پرسکون صبح نمودار ہوئی ۔حازم کو امی جان نے بڑے شفقت سے نماز فجر کے لیےجگا دیا تھا۔ لہٰذا اسکول کے لیے اس کی تیاری بڑے اطمینان سے وقت مقررہ سے قبل ہوگئی ۔ابو جان حازم کو اسکول بس تک چھوڑ آئے ۔
بس میں بیٹھتے ہی حازم معمول کےمطابق طراف کے منظر سے لطف اندوز ہونے لگا ۔راستے پر چند گاڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی،سر سبز و شاداب ٹیلوں ،پہاڑیوں سے بھرے شاہراہوں سے گزر کر بس اسکول کے احاطے میں پہنچ گئی ۔سب بچوں نے اپنے بستے اٹھائے اور اپنے اپنے کلاس روم میں اچھلتے کودتے داخل ہوگئے۔
ابتدائی کارروائی کے بعد چند پریڈ ہوئے اور وقفے کی گھنٹی بجی۔ ادھر سبھی بچے ازسرنو جوش و خروش کے ساتھ اسکول کے میدان میں پہنچ گئے۔کوئی کھیلنے لگا،کوئی اپنےکھانے کی اشیاء سے لطف اندوز ہونے لگا ،لیکن میری نگاہ اس وقت حیران رہ گئی جب تین بچے (ضحاک،طلیق اور حازم) ایک بینچ پر بیٹھے تھے۔ضحاک اورطلیق ایک دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کر رہے تھے،اور کچھ فاصلے پر حازم اپنے ہاتھ میں کتاب تھامے بہت افسردہ سا محوخواب ہوچکا تھا ۔مانو نہایت خاموش مزاج اور حساس طبیعت کا مالک بچہ ہو،جو اپنے دوستوں کی اس محفل سے باہر ،الگ تھلگ بیٹھاہو،اجنبی کی طرح،لیکن اس کے دوست اس کی عیب جوئی کررہےہوں۔یہ گندی حرکت حازم کو احساس کمتری کا شکار اورچڑچڑا بنا رہی تھی کہ اچانک حازم کو شفقت سے لبریز ہاتھ میسر آیا، ایک ٹیچر جو اس منظر کو دیکھ رہی تھیں، آئیں اور ضحاک اور طلیق کو ڈانٹ لگاکر حازم سے معافی مانگنے کے لیے کہا ۔
اس پر ضحاک اور طلیق کو شرمندگی محسوس ہوئی تو انھوں نے فوراً حازم سے معافی مانگی اورکبھی بھی غیبت نہ کرنے کا عزم کیا ۔
حازم اب بہت خوش تھا کہ اس کے لیے ٹیچرز کی طرف سے ایک اصلاحی پروگرام لیا گیا اور اس کے دوستوں کو اس کا احساس ہوگیا ۔حازم نے سوچا کہ گھر جاکر ان شاء اللہ امی جان کو ساری روداد سناؤں گا۔
اس کے بعد کلاس روم میں سبھی طلبہ کو بھیج دیا گیا ۔کلاس معمول کے مطابق ہوئی ۔سب بچے اسکول بس کے ذریعے گھر تک پہنچ گئے۔ حازم کے ابو جان بس اسٹاپ پر کھڑے تھے اور انھوں نے حازم کے چہرے پر عجیب چمک محسوس کی۔گھر آنے کے بعد بنا کسی تمہید کے حازم نے ساری باتیں بہت خوشی خوشی سنادیں۔
اس پر حازم کی امی جان نے کہا:’’اسکول ہی نہیں ،بلکہ عام معاشرے میں غیبت کو گناہ سمجھا نہیں جاتا ہے ۔غیبت دراصل کبیرہ گناہ ہے، لیکن ہر عام و خاص ،بچے بوڑھے ،خواتین و طالبات میں یہ برائی نظر آتی ہے جو معاشرے میں شگاف ڈال کر تعلقات کو گھن کی طرح کھاتی ہے۔‘‘
’’امی جان !غیبت کیا ہوتی ہے؟‘‘حازم نے بڑے معصومیت سے پوچھا۔
حازم کی امی جان نے کہا:’’کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کی بدگوئی، غیر حاضری میں عیبوں کابیان اور اس کی پیٹھ پیچھے برائی کرنے کو غیبت کہا جاتا ہے۔‘‘
انھوں نےایک حدیث بھی سنائی کہ رسول ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کا ایسا ذکر جو اسے نا پسند ہو۔ پوچھا گیا کہ اگر وہ عیب اس میں فی الواقع موجود ہو تب بھی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جو عیب تم نے بیان کیا ہے وہ اگر اس میں موجود ہے تب ہی تو غیبت ہے وگرنہ تو تم نے بہتان لگایا۔ (صحیح مسلم)
حازم: ’’اچھا ،پھر تو قرآن میں بھی غیبت کا ذکر ہوگا نا امی جان؟‘‘
’’ہاں بیٹا!‘‘حازم کی امی جان نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے سر ہلا دیا ۔
’’مجھے بتائیے ناں پھر۔‘‘حازم نے کہا۔
حازم کی امی جان کہنے لگیں کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
’’ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ دیکھو اس چیز کو تم خود بھی ناگوار سمجھتے ہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘(الحجرات: 12)
اور دوسری جگہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے:
’’تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور
(پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے ۔‘‘( الهمزہ: 1)
حازم: ’’اچھا ،پھر تو حدیث میں بھی غیبت کا ذکر ہوگا ناں امی جان ؟‘‘
حازم کی امی جان کہنے لگیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’ جو کوئی کسی مسلمان کی آبروکو نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ۔‘‘ ( صحیح بخاری)
’’دراصل حازم بیٹا!غیبت کرنے کا عام طور پر محرک کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا، اسے کم تر ثابت کرنا اور اسے کسی کی نظروں میں گرانا ہوتا ہے۔ اس رویے کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘(جامع ترمذی)
’’آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کی زبانیں تو ایمان لاچکی ہیں، لیکن دل نہیں۔ تم مسلمانوں کی غیبت چھوڑ دو اور ان کے عیب نہ کریدو۔ یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمھاری پوشیدہ برائیوں کو ظاہر کردے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھر والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے۔‘‘(ابوداؤد)۔
حازم درمیان میں بول پڑا:’’غیبت تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے، لیکن غیبت کے متعلق اتنا سب کو معلوم نہیں ہوتا ۔‘‘
’’نہیں بیٹا! غیبت کو غیبت نہ سمجھنا ہی غیبت کی بیماری کو بڑھا رہا ہے۔اسی طرح لوگوں کی برائی بیان کرنے والوں اور ان کی عزت و آبرو کو لوٹنے والوں کی ایک عبرت ناک تصویر اس روایت میں پیش گئی ہے۔‘‘حازم کے ابو جان نے کہا۔
حازم:’’ابو جان اس کی سزا کیسی ہوگی پھر؟‘‘
حازم کے ابو جان کہنے لگے:
’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایاکہ جب اللہ تعالیٰ مجھے معراج کی رات اوپر لے گیا تو عالم بالا میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا، جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ رہے تھے، ان کی اس حالت کو دیکھ کر میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟انھوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے یعنی لوگوں کی غیبت کرتے ہیں ،ان کی عزت و آبرو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔‘‘(ابوداؤد)
’’اللہ اکبر!‘‘حازم نے کہا۔
’’ہاں بیٹا! غیبت بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ تو تمھیں معلوم ہو گیا ناں ؟تو ظاہر ہے اس کی سزا بھی بڑی ہی ہوگی ۔‘‘
’’جی امی جان !‘‘حازم نے اثبات میں سر ہلا دیا اور اللہ سے دعا کی اللہ مجھے غیبت جیسے گناہ سے بچائے اور غیبت کے متعلق معلومات اپنے دوستوں تک پہنچانے کا شرف بخشے۔
حازم کے ابو جان کے چہرے پر عجیب مسکراہٹ آگئی ۔
’’بیٹا جلدی یونیفارم بدل لو اور کھانا کھالو، نماز عصر کا وقت ہونے والا ہے۔‘‘حازم کی امی نے آوازلگائی۔
حازم: ’’جزاکم اللہ خیرا ًکثیراً امی جان اور ابو جان!اتنی پیاری باتیں بتانے کے لیے۔رب ارحمهما كما ربياني صغيرا!‘‘

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. صاىمه نعىم بلال

    ماشاءالله بہت ہی عمدہ تحرير ہے۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴