جنوری ۲۰۲۴

اس کتاب کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اس کتاب نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ قضیۂ فلسطین روئے زمین پر بسنے والی ساری امت کا مسئلہ ہے۔ جیسا کہ اس کے نام’’ فلسطین قرض اور فرض‘‘سے ہی یہ بات واضح ہے، لیکن اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد بھی فلسطین اور مسجد اقصی کو عام ملکوں کی طرح قومی تنازعہ سمجھتے ہوئے اس مسئلے کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں،جس کے نتیجے میں وہ دو قومی نظریہ کی بات کرتے ہیں ۔
طارق ایوبی صاحب نے اس کے مقدمے میں کتاب لکھنے کی وجوہات واضح کی ہیں۔ اس کتاب کے وجود میں لانے کااصل محرک’’ آپریشن طوفان اقصیٰ‘‘ ہے ۔
ظالم کی طاقت اسی وقت کم زور ثابت ہوجاتی ہے ،جب اس کا فریق اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی جرأت کرتا ہے، اور طاقت ور بھی وہ جو کرۂ ارض پر سپر پاور کاساتھی ہے، ہتھیار کا سوداگر ہے، عالمی سطح پر جس سے مرعوبیت مسلم ہے ۔
مظلوم و محکوم بھی وہ جس کومالی طور پر کم زور ترین سمجھا گیا، جس کی نسل کشی اور کم زوری کا عالم یہ کہ اپنے ملک سے نقل مکانی یا آمد ورفت اور تجارت کے لیے بھی ظالم اور قابض کے رحم کرم پر رہنےکومجبور کیا گیا ہے ۔جس نے ’’ظالم اسرائیل کے نظام موساد ‘‘ اور’’ یہودی پروٹوکول‘‘ جیسی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو، اور پچھترسالہ فلسطینی جدوجہد سے واقف ہو، بس وہی طوفان اقصیٰ کے اقدام کا درست اندازہ کرسکتا ہے ۔
طوفان اقصیٰ کے اقدام کے فوراً بعد تین طرح کے گروہ سامنے آئے ہیں۔ ایک گروہ تو وہ جو قضیۂ فلسطین کا مسلسل قاری رہا ہے، جو اسے روزاول سے مسلمان امت کا فرض سمجھتا آرہا ہے۔ طوفان اقصیٰ کی خبر سن کر جس کی قوت ایمانی میں اضافہ ہوا،جس کے نزدیک جنگ میں ہونے والے جانی نقصان پر ماتم ایمان کی کمزوری ہے۔ اس لیے مجاہدین کی فتح کی دعاؤں کے ساتھ اس گروہ کےدل خوشی کے جذبات سے سرشار تھے کہ آخر اس دن کا انہیں یقین تھا کہ بلاشبہ:

 مومن ہے توبے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

دوسرا گروہ وہ جو مغربی دنیا کی مرعوبیت اور غلامی میں سرتاپا غرق ہے، کہ اپنی اصل شناخت کھوچکا ہے ۔سو کالڈ امن اور انسانیت کی بات کرتا ہے، لیکن ان کے بیانیے ہی سے مغرب پرستوں کی سی شراب کی بو آتی ہے ۔یہ گروہ دو قومی نظریہ کو قبول کرنے میں پیش پیش رہا ہے، اور اسےمزید انتظار تھا کہ اسلامی دنیا کے سب سے بڑے شاہ بھی اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرلیں ،انھوں نے معاہدہ یا تصفیہ کروانے کے لیے آستین چڑھائی ہی تھی کہ طوفان اقصیٰ نے ان کو کھل کر ایمان کی کم زوری اور سیاسی شعبدہ بازی دکھانے کا موقع دے دیا۔ ان عربوں کی مغرب پرستی سے متعلق فاضل مصنف نے لکھا ہے:
’’ پہلے دنیا نے دیکھا کہ عرب اسرائیل خفیہ تعلقات و تعاون کی بابت کچھ دیوانے مستقل لکھتے اور بولتے رہتے ہیں، لیکن ان کی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے ان کی تضحیک کی جاتی رہی ، پھر بالآخر سب نے دیکھ لیا کہ متحدہ عرب امارات نے زندگی کے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون اور دوطرفہ سفارتی تعلقات کا اعلان کیا، بلکہ اس معاہدہ کی اطلاع معاہدہ کرنے والوں سے پہلے ٹرمپ نے دی، پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ اسرائیلی جہاز حرم کی فضاؤں سے اڑتا ہوا جب ابو ظہبی کے ائیر پورٹ پر اترا تو ’ذہنی غلام‘‘ سرخ قالینوں پر اسرائیلی وفد کو سلامی دینے کے لیے کھڑے نظر آئے، گویا مسلمانوں کے قاتلوں کا یہاں استقبال پھولوں کی سیج پر کیا گیا۔ بہت سے تجزیہ نگاروں نے لکھا تھا کہ جلدی ہی اور بھی اطلاعات آئیں گی جو آ گئیں، بلکہ تازہ خبر کے مطابق مزید 6 مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں ، ٹرمپ کا یہ بیان بڑے پیمانہ پر نشر ہوا ہے، جبکہ مصر اور اردن پہلے ہی اسے تسلیم کر چکے ہیں ، 11ستمبر کو ہم نے دیکھا تھا کہ بحرین اسرائیل مصالحتی معاہدہ کا ، اعلان ہوا، پھر ٹرمپ نے ہی کہا، ابھی کہاں؟ ابھی تو چیلوں کی جانب سے اعلان ہورہا ہے، ابھی’’ گروجی‘‘ کا اعلان باقی ہے۔‘‘
یہی وہ گروہ ہے جس نے طوفان اقصیٰ کی پیش قدمی پر پھبتیاں کسیں کہ تیاری نہیں تو طاقتور کو کیوں جگایا ؟ یہ بھی کہنے لگے کہ دودن میں اسرائیل انھیں ختم کردے گا، وہ لوگ جو ایمانی قوت کو ہتھیار کے سوداگروں کے سامنے بے بس سمجھتے تھے، اپنی جاگتی آنکھوں سے مزاحمت کے 85 دن کو بھی دیکھیں گے ۔
تیسرا گروہ وہ جو فلسطین کس ہمدرد ہے۔ دونوں مذکورہ گروہوں کے برخلاف مسجد اقصیٰ کے قضیہ، مسجد اقصی ٰکے حدود اربعہ اور اس کی کیفیت و ماہیت سے ناواقف ہے تب یہ کیسے جان پائے گا کہ قدس ساری امت کا مسئلہ ہے ؟تیسرا گروہ اگر یہ بات نہ جانے تو مسئلے کی تہہ کو سمجھے بغیر بہت سہولت کے ساتھ دوقومی نظریہ پر راضی ہوجاتا ہے ۔
تمام مسلمانو ںکے لیے بیت المقدس کی دینی حیثیت کو فاضل مصنف نے قرآن کے استدلال سے ثابت کیا ہے ۔یہ باب ہمیں بھی دل سے پسند آیا کہ ایک عام انسان بھی اسے پڑھ کر دل سے مسجد اقصیٰ سے خود کو جوڑ لیتا ہے ۔ اس کی تاریخی حیثیت اور اس کی پچھتر سالہ جدوجہد میں ہندوستانی اکابرین کا حصہ اور ہندوستان کی آزادی کے بعد فلسطین سے متعلق موقف کی وضاحت کو نہایت ہی عمدہ انداز چھوٹے چھوٹے مربوط جملوں میں بیان کیا گیا ہے۔ذیل کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے !:
’’ یہ ارض جہاد ہے ، نزول مسیح یہیں ہونا ہے ، اس کی بہت سی فضیلتیں آئی ہیں۔ یہ انبیاء کامسکن و مدفن ہے، یہاں بہت سارے آثار ومقدسات ہیں ، اس کی آزادی پوری امت پر فرض اور قرض ہے، یہ پوری امت کی امانت ہے۔ یہ مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں ہے، گر چہ اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ ان ہی پر عائد ہوتی ہے ۔ اس کے حل کی ساری ذمہ داری عربوں پر بھی نہیں ، گر چہ وہ اس کے زیادہ مستحق ومخاطب ہیں ۔ فی الحقیقت اس کے دفاع اور اس کی آزادی و حفاظت کی ذمہ داری پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی ہے ۔ خواہ وہ کہیں بستے ہوں ، اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں ، طاقت ور ہوں یا کم زور، حاکم ہوں یا محکوم ، چنانچہ ضروری ہے کہ پوری امت کو اس قضیہ سے جوڑا جائے ، پوری امت میں اس کے لیے حساسیت پیدا کی جائے، کوئی کہیں ہو اور کسی حال میں ہو اور کسی بھی شعبۂ حیات میں مشغول ہو ، ضروری ہے کہ وہ اس مسئلہ کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھے اور ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے غفلت نہ برتے ، اس مسئلہ کی اہمیت و حساسیت کا یہ سب سے بنیادی تقاضا ہے۔ اہل اسلام اپنے تمام تر فقہی ، مسلکی اور نظریاتی اختلاف کے باوجود اس پر متفق ہیں کہ القدس کی بڑی اہمیت ہے، اس کا دینی مقام ہے، اس کے دفاع اور اس کے سلسلے میں دینی غیرت کو سب واجب جانتے ہیں اس کے مقدسات کے تحفظ اور زیادتی کرنے والوں کو باز رکھنے کے وجوب پر سب کا اتفاق ہے ۔‘‘
یہاں اس نکتے پر بھی مصنف نے توجہ مبذول کروائی ہے کہ:
’’ کیا وجہ ہے کہ اتنی تیزی سے عرب ممالک اسرائیل سے مصالحت کر رہے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ اسرائیل کے لیے اس طرح بچھا جارہا ہے، وہ اس کا اس قدر استحکام کیوں چاہتا ہے؟یہود و نصاری کے درمیان شدید اختلافات، بلکہ مخالفت کے باوجود مسیحیت صہیونیت کی چاکری میں کیوں لگی ہوئی ہے؟‘‘
یہ ایسے سوالات ہیں جو اس مسئلے پر سوچنے والے ذہن میں اٹھ سکتے ہیں ۔اس کتاب کے مطالعے سے تشفی بخش جوابات اس میں پائیں گے۔اسی طرح فلسطین میں جاری اسرائیلی ظلم و بربریت اور نسل کشی کو دیکھ کر ہر مسلمان فلسطین کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ مصنف نے ’’ قضیہ ٔفلسطین اور امت کی ذمہ داریاں: ہم کیا کرسکتے ہیں؟‘‘ کے عنوان سے اس باب میں ذکر کیاہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کچھ کرنے والوں کے لیے ڈاکٹر راغب سرجانی کی 500 صفحات پر مشتمل کتاب کا ذکر کیا، جس میں ڈاکٹر صاحب نے فلسطین کے حوالے سے کرنےکے 1135 مثبت کاموں کا ذکر کیا ہے۔
’’فلسطین قرض اور فرض ‘‘نامی اس کتاب کو ہم فلسطین کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے بنیادی کتاب کہیں تو بے جا نہ ہوگا، اس موضوع پردوسری کسی بھی کتاب کو پڑھنے سے پہلے قاری اس کتاب سے ابتدا کرے تو مکمل مسئلے کو سمجھنے میں آسانی رہے گی ۔

٭ ٭ ٭


 یہ ارض جہاد ہے ، نزول مسیح یہیں ہونا ہے ، اس کی بہت سی فضیلتیں آئی ہیں۔ یہ انبیاء کامسکن و مدفن ہے، یہاں بہت سارے آثار ومقدسات ہیں ، اس کی آزادی پوری امت پر فرض اور قرض ہے، یہ پوری امت کی امانت ہے۔ یہ مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں ہے، گر چہ اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ ان ہی پر عائد ہوتی ہے ۔ اس کے حل کی ساری ذمہ داری عربوں پر بھی نہیں ، گر چہ وہ اس کے زیادہ مستحق ومخاطب ہیں ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴