جنوری ۲۰۲۴
زمرہ : ادراك

ہم اسلامی شریعت میں یہ مطالعہ کرتے آئے ہیں کہ عورتوں کا وراثت میں حق ہے،لیکن زمینی صورت حال یہ ہے کہ کہیں پر وراثت کا حق لڑکیوں کو دیا ہی نہیں جاتا ہے،کہیں پر دینے سے بچنے کے لیے والد محترم بیٹے کے نام پر پوری پراپرٹی ہبہ کردیتے ہیں۔کہیں پر پراپرٹی کو باہر جانے سے بچانے کے لیے خاندانوں میں بے جوڑ رشتوں کا رواج ہے،تو کہیں پر بھائی صرف ایک دولاکھ روپیے پکڑواکر پہلو تہی کرلیتے ہیں۔کہیں پر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی پر پیسہ خرچ کردیا،وہی وراثت تھی،اور جہاں خاتون کو وراثت حصہ مل جائے تو شوہر محترم اس مال پر اپنا پورا اختیار سمجھتے ہیں،بیوی کو اس میں تصرف کی آزادی نہیں ہوتی۔
اسی طرح کا واقعہ سناتے ہوئے ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر نامدار نے اپنے پیسے جمع کرکے خود کے نام پر پانچ لاکھ کی زمین خریدی،تاکہ گھر بنائیں گے لیکن تعمیر کے لیے پیسے نہیں تھے،اس لیے بیوی کو کہا کہ اپنے بھائیوں سے وراثت کا حصہ طلب کرے۔بھائیوں سے مانگنے میں کسی حد تک وہ کامیاب ہوئیں،بیس لاکھ کی رقم لے کر شوہر کو دیا اور شوہر صاحب نے گھر کی تعمیر کی۔چونکہ ان کی صرف دو بیٹیاں تھیں،بیٹا نہیں تھا۔اس واقعے کے دس سال بعد شوہر کا انتقال ہوگیا۔اس گھر میں بیوی اور دو بیٹیوں کے علاوہ محرومین کا حصہ تھا، جو شوہر کے بھائی کے بیٹے تھے ۔چونکہ مکان شوہر نام پر تھا،اس لیے شوہر کے بھائی بیٹوں کا حصہ بنا،وہ کہتی رہیں کہ اس میں بڑی رقم میری ذاتی رقم ہے،لیکن چونکہ ثبوت کوئی نہیں تھا،اس لیے ان کو حصہ دینا پڑا۔
دراصل یہی ہمارے معاشرے کا مسئلہ ہے کہ بیوی کو اس کا مال علیٰحدہ اسی کے نام پر رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔اس کے مہر یا زیورات کی رقم ہو یا وراثت کی،یا اس کی اپنی کمائی کی،شوہر حضرات اس کے مال کا حاکم خود کو سمجھتے ہیں۔
قرآن نے اس آیت کے ذریعہ دونوں کے ذمہ داریوں کی اچھی طرح وضاحت فرمادی ہے:

الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِبِمَا فَضَّلَ اللَهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَاأَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِم(سورۃالنساء : 34)

(مرد عورتوں پر قوام ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔)
قوام کا ترجمہ اکثر مترجمین نے لفظ’’حاکم‘‘ سے کیا ہے۔حاکم کے مروجہ معنی مکمل حاکم کے آتے ہیں۔جس کی وجہ مسلم مردوں میں یہ احساس برسہا برس سے پنپ رہا ہے کہ بیوی کے مال،اس کی وراثت اور اس کی کمائی پر بھی شوہر کا حق ہے، جبکہ بیوی کو کمانے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت لے،لیکن بیوی کا کمایا ہوا مال اس کا اپنا مال ہے،اسے پورا اختیار ہے کہ جو اس نے کمایا ہے،اس سے وہ صدقہ خیرات کرے یا اپنے قرابت داروں کی مدد کرے۔
اسلام نے خاندانی نظام اس طرح استوار کیا ہے کہ بیوی پر اندورن خانہ رہ کر گھر کی دیکھ بھال،شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داری ڈالی ہے اور شوہر کو بیوی کے نفقہ و سکنیٰ اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنے کا پابند کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَتَمَنَّوا مَا فَضَّلَ اللٰهُ بِهٖ بَعضَكُم عَلٰى بَعضٍ‌ ؕ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكتَسَبُوا ؕ‌ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكتَسَبنَ‌ ؕ وَسئَـلُوا اللٰهَ مِن فَضلِهٖ ؕ اِنَّ اللٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَىءٍعَلِيمًا ۞(سورۃ النساء : 32)

(اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دُوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے،اس کی تمنّا نہ کرو۔ جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصّہ ہے،اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے،اس کے مطابق اُن کا حصّہ۔ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا عِلم رکھتا ہے۔)
خواتین تعلقات کے معاملے میں احتیاط سے کام لیتی ہیں،تعلقات کے بگاڑنے میں خوف کا شکار رہتی ہیں،اس لیے مجبوراً اپنا مال شوہر کو سونپتے ہوئے دلی آمادگی کا اظہار کرتی ہیں،لیکن انھیں احساس رہتا ہے۔
مہر کی رقم بھی اس سے واپس لی جائے تو وہ بے چوں و چراں شوہر کے حوالے کردیتی ہے،وراثت میں بھی وہ تعلقات کی خرابی کے ڈر سے کوشش کرتی ہے کہ شوہر کے حوالے کردے۔
شریعت کا ایسے معاملات میں موقف بالکل واضح ہے،جسے مولانا رضی الاسلام ندوی صاحب نے نقل کیا ہے:
’’اگر باپ اور بیٹا دونوں تجارت کریں،تو باپ اور بیٹے کے تجارت میں بھی شیئر کو علیٰحدہ علیٰحدہ لکھ لیا جائے،تاکہ تجارت علیٰحدہ ہونے پر انصاف کے ساتھ تقسیم ہوسکے۔اسی طرح بیوی کے مال یا اس کے شیئر کو بھی واضح طور پر لکھ کر دستاویزی ثبوت رکھنا چاہیے۔‘‘
ایک مرتبہ دوران گفتگو ایک ٹیچر خاتون نے بتایا کہ پچیس سال سے گورنمنٹ کالج میں پر جاب پر ہوں،لیکن ابتداء ہی سے میرا پاس بک میرے شوہر کے ہی پاس رہا،کبھی میری تنخواہ پر میرا اختیار نہیں رہا۔وہ جب چاہیں مجھے پیسے لاکر دیں لیکن کبھی میرے اختیار میں نہیں رہا کہ کچھ رقم نکال کر ذاتی طور پر خرچ کرسکوں۔ابتداء میں میرے لیے یہ بات اہم نہیں تھی،شوہر اور میرا پیسہ ایک ہی ہے،وہ جاب نہیں کرتے تھے ان کا بزنس تھا،کبھی چلتا اور کبھی نقصان میں رہتے تو سالوں تک کچھ نہیں چلتا۔پھر یوں ہوا کہ اپنے بہن بھائی کی مدد کے لیے مجھے پیسوں کی ضرورت پیش آئی،اپنے بینک سے نکالنا چاہا تو شوہر کے سوال جواب سے اس قدر پریشان ہوئی کہ مجھے احساس ہوا کہ میرے اپنے پیسوں پر میرا حق نہیں ہے۔اسی بات پر ہمارے درمیان تنازعہ رہنے لگا۔ایک عالم سے پوچھا تو موصو ف نے فرمایا کہ عورت کی ہر چیز کا مالک شوہر ہے۔وہ چاہے تو بیوی کو جاب کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دے،چاہے تو نہ دے ۔یہ سن کر میں خاموش ہوگئی،اور آج پچیس سال سے خاموش ہوں،لیکن اپنے آپ کو میں آدھی پاگل سمجھتی ہوں۔میرے شوہر کی وفات کے بعد میرے بینک کا کارڈ میرے بیٹے کے پاس ہے،اور میں اس سے واپس لینے میں بھی خوف کھاتی ہوں۔اب وہ ذہنی مریض بن چکی ہیں،کہ ان کا ان کے ہی پیسوں پر اختیار آج بھی نہیں ہے۔
ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین میں خود اپنے مال کی حفاظت یا اسے اپنے اختیار میں رکھنے کا شعور نہیں ہے،یا تو بھائی سے وارثت نہیں ملی ہے یا اس کی کمائی پر شوہر اپنا حق سمجھتا ہے۔
مولانا رضی الاسلام ندوی صاحب نے اپنی کتاب:’’عورت ، خاندان اور سماج ‘‘ میں لکھا ہے:
’’ اسلام نے عورت پر گھر کی ذمہ داری ڈالی ہے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے عورت کو گھر میں قید کر دیا ہے،اور اس کے لیے کسب معاش کا دروازہ بالکل بند کر دیا ہے۔لڑکی شادی سے قبل باپ یا سر پرست کی اجازت سے اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی اجازت سے معاشی سرگرمی انجام دے سکتی ہے۔کسب معاش کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہو سکتی ہیں :ایک براہ راست معاشی سرگرمی کے ذریعہ اور دوسرے بالواسطہ سرمایہ کاری کے ذریعہ،عورت ان دونوں صورتوں کو اختیار کر سکتی ہے۔وہ خرید و فروخت کر سکتی ہے، کاشت کاری کر سکتی ہے، صنعت و حرفت میں مصروف ہو سکتی ہے، اپنی کسی جائےداد، مکان و دکان وغیرہ کو کرایہ پر دے سکتی ہے،حدود شرع کی پابندی کرتے ہوئے کہیں ملازمت کر سکتی ہے،کسی کمپنی میں اپنا سر مایہ لگا سکتی ہے اور اس کے شیئرز خرید سکتی ہے،اپنی مزروعہ زمین کو بٹائی پر لگا کر پیداوار کی شکل میں منافع حاصل کر سکتی ہے۔ان تمام صورتوں میں عورت جو کچھ کمائے گی اس کی وہ خود مالک ہو گی،شوہر کو اس پر قبضہ کرنے کا حق نہ ہوگا۔ایسی عورت کے مال دار ہونے کے باوجود شوہر پر اس کے اوراس کے بچوں کے اخراجات کی تکمیل واجب ہوگی۔عہد نبوی میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ خواتین مختلف ذرائع سے مال کماتی تھیں اور اس کو آزادانہ طور پر خرچ کرتی تھیں۔حضرت شفاء العدویہ اور حضرت اسماء بنت مخرمہ عطر فروخت کیا کرتی تھیں۔حضرت عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب کچھ کاری گری سے واقف تھیں جس کے ذریعہ وہ اچھا خاصا کما لیتی تھیں ۔ انھوں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا:
’’کیا میں اپنا مال اپنے شوہر اور ان کے بچوں پر خرچ کر سکتی ہوں؟‘‘
یہی سوال ایک دوسری خاتون نے بھی کیا۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا :

’’نَعَمْ لَهُمَا أَجْرَانِ: أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ‘‘

(’’ہاں ان دونوں کو دوہرا اجر ملے گا ۔ ایک قرابت کا اجر اور دوسرے صدقے کا اجر۔‘‘)‘‘
اگر تنگ دستی ہو،شوہر کے ساتھ اچھی انڈراسٹینڈنگ ہوتو دلی آمادگی کے ساتھ بیوی اپنا مال شوہر پر خرچ کرسکتی ہے۔گھر کے نظام کو بہتر بنانے اور ایک دوسرے کے تعاون کا ماحول بنانے کے لیے شوہر کے ساتھ مل کر بھی سرمایہ کاری کرسکتی ہے،تاہم اس خیال کے ساتھ کہ کسی کے ساتھ استحصال یا ظلم نہ ہو۔
جہاں یہ شعور مردوں کے درمیان ہونا چاہیے کہ جو مال بیوی کو مہر یا تحفہ میں دیا گیا یا جو زیورات بیوی اپنے ساتھ لائی ہے ،یا وراثت کا حق یا اس کی اپنی کمائی یہ تمام اموال بیوی کے ہیں،اور وہ ان کی مالک ہے۔
وہیں یہ شعور خواتین میں بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کے استحقاق کا احساس رکھیان،ابتداء ہی سے وہ احساس دلائیں کہ یہ ان کا مال ہے۔
یہ غلطی اکثر خواتین کرتی ہیں کہ ابتداء میں اپنے شوہر کو دل کی آمادگی کے ساتھ مالک بنادیتی ہیں،اور تعلقات میں رنجش کے بعد وہ یہ اظہار کرتی ہیں کہ مجھ سے لے لیا گیا۔اس لیے بہتر ہے کہ شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے۔شوہر کو مال دیں تو قرض کے بطور دیں اور اسے لکھ لیا کریں،تاکہ واضح رہے کہ آپ کو اپنی ملکیت کا احساس ہے۔اپنے مال سے صدقہ خیرات ادا کریں تو اجازت نہ لیں،کیوں کہ اجازت لینے سے بھی یہ احساس دلاتی ہیں کہ شوہر ہی اس کے مال کا مالک ہے۔ہاں،کسی اجنبی کی مدد سے پہلے مشورہ ضرور کرلیں،تاکہ مستحق تک مدد پہنچانے میں شوہر کی مشاورت شامل رہے۔
سوره احزاب میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے دس اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک وصف صدقہ کرنابھی ہے۔
کہا گیا ہے :

وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ (سورۃ الاحزاب : 35)

(صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں)
عہد نبوی میں متعدد واقعات کتب حدیث وسیرت میں ایسے ملتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے خواتین کے مجمع میں خطاب فرمایا اور انھیں صدقہ و خیرات کی ترغیب دی۔
جب خاتون کے مال میں مرد کو تصرف کی آزادی دی جائے تو اپنے مال سے بھی صدقہ کرنے کے لیے شوہر کی اجازت لازم کردی جاتی ہے۔
پڑھی لکھی باشعور خواتین بھی شرعی قوانین سے عدم واقفیت کی بنا پر اپنے اختیارات سے ناواقف رہتی ہیں،اور بعد میں اپنی غلطی پر پشیمانی کے احساس سے ذہنی حالت خستہ اور دل مجروح کرلیتی ہیں۔
ایک جگہ مولانا نے لکھا ہے:
’’ عورت جس مال کی مالک ہے،اسلام نے اس میں تصرف کرنے کا اسے پورا اختیار دیا ہے۔ وہ اسے فروخت کر سکتی ہے، کرایہ پر لگا سکتی ہے، عاریت میں دے سکتی ہے،اس کا ہدیہ کرسکتی ہے،اسے وقف کر سکتی ہے، اسے بطور صدقہ و خیرات خرچ کر سکتی ہے۔ اس کے اولیاء : ماں باپ ، شوہر ، بیٹے وغیرہ حسب ضرورت و موقع اسے مناسب مشورہ تو دے سکتے ہیں لیکن اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتے۔‘‘
عموماً یہ بات خواتین کے درمیان کہی جاتی ہے کہ بھائی سے وارثت لینے کے بعد بھائی سے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں،اور وراثت کا حق بھی شوہر کو سونپنا پڑتا ہے،عورت کا کچھ ہے ہی نہیں۔اس غلط خیال کی تردید ہونی چاہیے اور یہ خاتون کی ملکیت کے احساس کو اجاگر کرکے ہی ممکن ہے۔

٭ ٭ ٭


قوام کا ترجمہ اکثر مترجمین نے لفظ’’حاکم‘‘ سے کیا ہے۔حاکم کے مروجہ معنی مکمل حاکم کے آتے ہیں۔جس کی وجہ مسلم مردوں میں یہ احساس برسہا برس سے پنپ رہا ہے کہ بیوی کے مال،اس کی وراثت اور اس کی کمائی پر بھی شوہر کا حق ہے، جبکہ بیوی کو کمانے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت لے،لیکن بیوی کا کمایا ہوا مال اس کا اپنا مال ہے،اسے پورا اختیار ہے کہ جو اس نے کمایا ہے،اس سے وہ صدقہ خیرات کرے یا اپنے قرابت داروں کی مدد کرے۔

Comments From Facebook

6 Comments

  1. سمیرا شاہین

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس ارٹیکل میں بہت ہی اچھی معلومات ملی ہیں اکثر خواتین سمجھتی ہے کہ اس کے مال میں صرف شوہر کا ہی حق ہے لیکن یہاں پر احادیث کی روشنی میں جو سمجھایا گیا ہے واقعی قابل تعریف ہے قابل قبول ہے اور ہمیں اس بات پر عمل کرنا چاہیے

    Reply
    • خان مبشرہ فردوس

      شکریہ سمیرا شاہین

      Reply
      • Ruqaiya Majeed

        Assalam walekum
        Mam are you psychologist I want to talk to personally. Will you please give me your contact number.

        Reply
        • زہرہ فاطمہ

          8178016498

          اس نمبر پر آپ مبشرہ صاحبہ کا نمبر مانگ لیجیے۔

          Reply
  2. سلیم منصور خالد

    بہت مؤثر ابلاغ کے ساتھ، بڑے بنیادی مسئلے بلکہ المیے کی جانب توجہ دلانے پر اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے

    Reply
    • مبشرہ فردوس

      آمین ثم آمین جزاک اللہ خیرا کثیرا

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ۲۰۲۴